انسانی حقوق اور ہم

تحریر: انور شاہ
ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے۔ آزادی اس کا بنيادی حق ہے، معاشرے کا کوئی بھی شخص، کوئی بھی فرد اس سے یہ آزادی چھین نہیں سکتا۔ یہ ربِ کائنات کا دستور ہے کہ اس نے ہر ذی شئے کو آزاد پیدا کیا ہے نہ صرف یہ بلکے اس کو غلامی کے زنجیروں کو اکھاڑ پھینکنے کی بھی فکر و سوچ بخشی ہے۔ ہم انسان ہیں ہم پر لاکھ تکالیف ڈهائے جائیں، لاکھ اذیتیں دی جائیں، لاکھ ہمارے حقوق سلب کی جائیں، لاکھ ہماری آزادی نفس کو مجروح کیا جاۓ لیکن یہ فطرتِ انسانی ہے کہ وہ پھر بھی چیخے گا، آواز بلند کرے گا تا دمِ مرگ تک کوشش کرے گا کہ وہ ایک ایسے جگے کا انتخاب کرے جہاں وہ امن اور سکون کے ساتھ بقايا زندگی بسا سکے۔

یہ خصوصیات اس کے رگ رگ میں بس چکی ہے، کوئی لاکھ چاہے بھی تو یہ ناطہ تھوڑ نہیں سکتا۔ لیکن یہ ریاست خواب غفلت سے بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔یہ ریاست اوچھے یتھکنڈوں پر اتر ائی ہے، اس دیس میں ہم بنی نوحِ انسان سے سب کچھ چھینا جا رہا ہے، ہماری معدنيات کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے لیکن ہماری حالات وہی کے وہی ہے۔کوئی پرسانِ حال نہیں ۔امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔میر ،ملک ،خان ،سردار یہ اشرا فیہ ہماری استحصال کرنے میں دن رات مگن ہے، لا قانونیت ،افرا تفری ، لوٹ مار اور ڈکیتی کا بازار گرم ھے ،حقوق انسانی کو پاؤں تلے روندا جا رہا ھے، لوگوں کو آزاد عدلیہ کے کوکلے نعروں پر سے مستحکم یقین اب شک و شبہات میں بدلا جا رہا ھے ،اب تو نوبت یہاں تک آ پونچھی ھے رے کے خود قانون کے ركهوا لے ہی قانون سے انصاف کی امید لیے بیٹھے ہیں، قاضی فائز عسَا اور اس کی ا ہلیہ کی مثال اپ کے سامنے ھے ۔بھلا اس دیس میں کوئی کیا جیون بسر کرے گا جس دیس کے باسیوں کے زبانوں پر بس ایک دعا ہو کہ "یا اللّه ہماری حفاظت کرنے والوں سے هماری حفاظت فرما”

درد ہے، غم ہے، بے بسی ہے، در بدری ہے، چیخ و فغاں ہے، ہر طرف سے آوازیں اٹھ رہی یے کہ یہ جابر ریاست ہمیں صحت ،تعلیم اور روزگار کی فراہمی تو کر نہیں سکتا کم از کم ہمیں سکھ کا سانس تو لینے دے، جبری گمشدگیوں کو تو ختم کرے، کوئی دین کوئی مزہب کوئی سماج ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کے اپ لوگوں کے پياروں کو سالوں سال غائب کرو یہ تو انسانی حقوق کے خلاف ھے ہی اس کے ساتھ قانون اور ہمارے رسم و رواج کے بھی خلاف ھے رے۔

یہ کہاں کا قانون ھے کے اپ جب چاہو چادر اور چار دیواری کی پامالی کرو اپ جب چا ہو ہمارے پياروں کو اغوا کرو اور انہیں حبسِ بجا میں رکھو یہ کہاں کا انصاف ہے، ان کے گھر والوں کا کیا جن کو یہ تک معلوم نہیں ہوگا کے ہائی یا وہ زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔ آخر میں یہ بات نهايت ہی حو صلہ افزا ہے کے اب لوگ بلا اس طرح نہیں ہیں جس طرح پہلے ہوا کرتے تھے اپنے حقوق سے بے خبر۔

بنيادی انسانی حقوق کے کارندوں، تنظیموں اور ایکٹویسٹوں کے شب و روز محنت سے حقوق انسانی کا فلک شگاف نعرے ہر گھر کی زینت بن چکی ہے، ہر گھر کا بچہ بچہ اور جوان اپنے حقوق سے با خبر اور ریاست سے پر امن طریقے سے اپنے حقوق لینے کے لیے کمر بستہ کھڑے ہیں۔ اب ریاست کو سمجھ آ چکی ہے کہ لوگوں کو اب غداری کے فتوے باٹنے سے خاموش نہیں کیا جا سکتا بلکے اِن کو اِن کے حقوق دینے ہونگے تب ہی بات بنے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں