انسانی حقوق اور مروجہ دورجہالت

تحریر: گل انار
اگر حقیقت کے آئینے سے دیکھا جائے تو دورِ جہالت میں انسانی حقوق کی شدید قسم کی پامالی کی گئی لیکن پھر اسلام کا دور شروع ہوا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے انسانی حقوق کا خصوصی طور پر خیال رکھا جانے لگا جو مندرجہ ذیل ہے۔
1:- زندہ درگوری جہالت کے اُس دور کا نام ہے جہاں پر عورتوں کو محض ایک بوجھ سمجھا جاتا تھا، یہی وجہ تھی کہ کسی کے شوہر کے مرنے کے بعد اس کی بیوی کو بھی مردہ تصور کیا جاتا یا مار دیا جاتا تھا۔ کسی کی چھوٹی بیٹیوں کو زندہ دفنا کر دور جہالت کے نامور خود کو عظیم شخصیت تصور کرتے۔ لیکن دور اسلام کی شروعات کے ساتھ ساتھ اس نظام کو تالا لگنے لگا۔ حضور اکرم اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فلم نے اس عمل کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا اور اس پر مکمل خاتمے کا اعلان کر دیا۔
لیکن اگر ہم اپنے آج کل کے معاشرے میں ایک نظر دوڑائیں تو ہمیں زندہ درگور کی مثال ہر جگہ نظر آتی رہے گی جو کہ حقیقت میں تو نہیں لیکن اس کے مترادف سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ سلسلہ آج کل ہمارے بلوچ اور پٹھان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ چلا آرہا ہے کیونکہ اگر کسی ماں کا لاڈلا اور جوان بیٹا جوانی میں کسی کی ظلم کے بھینٹ چڑھ جائے تو یہ بھی ایک قسم کی زندہ درگوری سمجھی جاتی ہے اس ماں کے لیے۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں ہیں کہ ہم بھی ایک قسم کی دور جہالت میں رہ رہے ہیں۔
2:- دور جہالت میں عورتوں کا جائیداد میں حق کا تصور تک موجود نہیں تھا لیکن بعد ازاں حضور علیہ السلام نے جائیداد میں عورتوں کا حصہ رکھا اور تقسیم کا ایک خصوصی طریقہ بھی بتایا۔ لیکن اگر اس تقسیم کے بارے میں بات کی جائے تو عورتوں کو ہمارے معاشرے میں ایک بار پھر سے اس تقسیم سے اور ان کے جائیداد میں حصے کے حق سے محروم کیا جا چکا ہے۔ ان وجوہات کو دیکھتے ہوئے ہم ایک بار پھر سے خود کو دور جہالت میں کھڑا ہوکر نظر آتے دیکھتے ہیں۔
3:- احادیث میں بیان کیا جا چکا ہے کہ عورتوں اور بچوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔ اس حدیث سے یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ اپنی اولاد کا بنیادی حق انہیں فراہم کیا جائے۔ اپنی بیٹیوں اور بیٹوں سے شادی کے وقت ان کی رضامندی پوچھنا ضروری ہوگا، ان کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کی جائے۔
آج کل ہم اس دور میں آ چکے ہیں کہ اپنی اولاد کی خواہش کو ان کی بد اعمالی کے نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لکھنے والوں نے ہمارے معاشرے کے بارے میں بہت ہی خوب لکھا ہے کہ ہم آج بھی ترقی یافتہ ملکوں سے دو سو سال پیچھے ہیں کیونکہ یہی بدمزگیاں ان ممالک میں دو سو سال پہلے پائی جاتی تھیں جو ہم میں آج کل پائی جاتی ہیں۔