ہر فن مولا

تحریر: خوشحال خان
جب سے مملکت خداداد پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے ہم ترقی کے صرف خواب اور دعوے سنتے آرہے ہیں۔ کوئی حکمران طبقے سے نالاں ہے کہ سب کچھ ان کی نظر ہوگیا تو کوئی طرزِ حکمرانی کو لے کے بیٹھا ہے لیکن ہم نے یہ کھبی سوچا کہ ہم خود ہی ترقی کے خلاف ہیں۔ ہماری بڑی خامی یہ ہے کہ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے۔

دکھ کی بات تو یہ کہ جب ہمارے پڑھے لکھے لوگ rule اینڈ law پر محفلوں میں بیٹھ کر ایسی تجاویزیں دیتے ہیں کہ بس ایسا گمان ہوتا ہے کہ اب ہمیں یورپ اور امریکا جیسی ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے لیکن اگلے ہی لمحے جب وہی لوگ عملی زندگی میں rule اینڈ law کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں تو لگ پتہ جاتا ہے کہ ہم کیوں ذلیل و خوار ہیں۔

ہم لوگ صرف باتوں تک ہی محدود ہیں اور عملی زندگی میں ہم اپنا ہی مفاد دیکھتے ہیں۔ آج ہی اگر پورے ملک سے کرپشن کے بارے میں پوچھا جائے تو سب ہی اسکی شدید الفاظ میں مخالفت کریں گے لیکن پھر حالات آپ لوگوں کے سامنے ہیں کہ ہم کتنے کرپٹ ہیں، جھوٹے ہیں، مکار ہیں۔

صفائی کو ہم سب ہی نصف ایمان سمجھتے ہیں جو کہ پاک پیغمبرؐ کی حدیث بھی ہے لیکن عملی زندگی میں ہم کتنے صاف ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومت مل جل کر بھی کراچی کو صاف نہ کر سکے۔ ہم یورپ اور امریکا کی صاف اور کشادہ سڑکوں، عمارتوں اور خوبصورتی سے بہت متاثر ہیں اگر ہمیں وہاں آباد کیا جائے تو کچھ دنوں میں ہم اسکا حشر نشر کر دیں گے اور انکو اگر یہاں آباد کیا جائے تو وہ ہمارے ملک کو بھی یورپ 2 بنادیں گے۔

پتہ ہے بات کیا ہے کہ میں ان سے متاثر نہیں لیکن وہ قانوں بناتے ہیں، اس پر عمل کرنا ناگزیر ہوتا ہے اور سب قانون کی قدر کرتے ہیں چاۓ امیر ہو یا غریب، حکمران ہو یا ووٹر، شہزادہ ہو یا غریب زدہ سب قانون کے پابند ہیں۔ ملک کی ترقی صرف حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں ہے لیکن یہ بات ابھی تک ہمیں سمجھ نہیں آئی۔ جب تک پوری قوم ترقی کیلئے ایک آواز نہیں بن جاتی، تب تک ہم صرف ہی صرف روتے رہیں گے اور در در کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔
مولانا ظفر علی خان نے بھی کیا خوب قرآن پاک کی آیت کو شاعری میں قلم بند کیا ہے:
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا

اپنا تبصرہ بھیجیں