کیا حقوق صرف مردوں اور عورتوں کے ہوتے ہیں؟

تحریر: امداد علی کھوسہ
بلاشبہ انسان دنیا کی تمام مخلوقات میں سے عظیم ہے لیکن انسان نے جو انسان ہونے کی تعریف متعارف کروائی ہے وہ قابلِ افسوناک ہے کیونکہ انسان محض مرد اور عورت ہی کو سمجھا جاتا ہے اور اپنے ایک خاص طبقے کو نظر انداز کرتا ہے جو برابر انسان کہلانے کا مستحق ہے لیکن وہ بدبخت بھی اس معاشرے کا حصہ ہے جس کا معاشرے میں کوئی حصہ ہی نہیں اور نہ ہی اِسے انسان تصور کیا جاتا ہے۔ انسان کے تو حقوق ہوتے ہیں لیکن یہ جو صنف مخنث ہے اس کے حقوق کو نہ کوئی ریاست تسلیم کرتا ہے نہ معاشرہ، نہ مذاہب حتیٰ کہ ان کے والدین ہوتے ہوئے بھی یہ یتیم ہیں۔

یہ وہ صنف مخنث ہے جس کے لئے ہجڑا یا خواجہ سرا جیسے القابات استعمال کئے جاتے ہیں جو براہ راست انسان کی تخلیق کی توہین ہے اور اِس توہین کو معاشرے کا ہر فرد بخوبی سر انجام دیتا ہے۔ گھر سے لیکر بازار تک، بازار سے لیکر عبادت گاہوں تک حتیٰ کہ ان کو تعلیمی اداروں میں بھی امتیازی سلوک جیسے رویوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، والدین ایسے بچوں کو یا تو قتل کر دیتے ہیں یا ان کو گھروں سے بے دخل کردیتے ہیں۔ بعض مذاہبِ ان کو عبادت گاہوں میں آنے کی اجازت نہیں دیتے اور ایسے مذاہبِ میں صرف مرد یا عورت کی بات کی جاتی ہے اور صرف ان کے حقوق کو نمایاں کیا گیا ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

تعلیمی اداروں کی اگر بات کی جائے تو تعلیم صرف مرد اور عورت حاصل کر سکتا ہے۔ صنف مخنث (transgender) کے لئے تعلیمی اداروں نے اپنے دروازے بند کئے ہوئے ہیں، نہ صرف تعلیم کے شعبے میں ان کو نظرانداز کردیا گیا ہے بلکہ دنیا کے تمام پہلوں پر نظر دُڑا کر دیکھیں تو یہ صنف مخنث در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے نظر آئیگی۔ اُن کے درد، الم، غم، تکالیف اور اذیتوں کو قلمبند کرنا بہت ہی محال ہے۔ نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی مخنثوں کی حقوق کی پامالیاں نظر نہیں آتیں اور افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ وہ بھی اسی ظالم اور جابر معاشرے کا حصہ ہیں اور اُنہوں نے بھی چھپ کا روزہ رکھا ہے۔

تیسری دنیا جہاں انسانی حقوق محض تقاریر، کتابوں اور کھوکھلے وعدوں تک محدود ہیں، وہاں صنف مخنث کو کیڑے مکوڑے کا درجہ حاصل ہے، ان کو جنسی لذت یا پھر صرف ناچ گانے کا درجہ دیا جاتا ہے اور اگر کسی کو ان کا ناچ یا گانا پسند نہ آئے تو ان کے قتل میں دیر نہیں کی جاتی کیونکہ کیڑے مکوڑوں کو روندنے میں کوئی قباحت نہیں۔ ریاست چونکہ ان کو اپنا شہری ماننے سے کتراتی ہے، لہٰذا ریاست ان کے قتل ہونے پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے۔ کیڑے مکوڑوں کے قتل کی کوئی ایف آئی آر بھی نہیں ہوتی، ووٹ کے حق کے لئے بھی کچھ خاص عضوں کا ہونا ضروری ہے۔

شاید حضرت انسان نے ایک عُضو کو ہی اتنا خاص سمجھ لیا ہے کہ وہ انسانیت کیلئے ایک دھبہ بن چکا ہے، ہمارا مذہبی طبقہ ملا اور پنڈت دونوں اس جرم میں برابر شریک ہیں، دونوں ہی مرد اور عورت کو ہی مذہب کا پیروکار مانتے ہیں لیکن صنف مخنث کے لئے ان کے تعلیمات میں کوئی جگہ نہیں، ایک انسان کا دوسرے انسان پر سب سے بڑا ظلم یہ بھی ہے کہ اِسے انسان ہی نہ مانا جائے اور یہی سب سے بڑا جرم ہے۔ جسم کا ایک چھوٹا سا عُضو ہونے کی اتنی بڑی سزا دینا انسانیت کی بدترین توہین ہے۔ معاشرہ اس جرم اور توہین کو جسٹیفیکیشن کے لئے مختلف تاویلیں پیش کرتا ہے مگر قانون کے طلبا و طالبات پر یہ فرض عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کی اس بے رحمی کو ہر لحاظ سے مخالفت و مزمت کریں اور صنف مخنث کے خلاف کسی بھی امتیازی سلوک کے خلاف دیوار چین بن جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں