حقوق انسانی کے اُڑتے پرخچے

تحریر: قدیر خان
ہم انسان ہیں، ہمارا درد مشترک ہے، تکلیف مشترک ہے، ضروریات ایک جیسے ہیں وہ الگ بات ہے کہ کسی کے کم زیادہ ہو سکتے ہیں، انسان کو اللّه نے ایک خاص رتبہ دیا ہے، اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے، سب سے افضل رکھا ہے، انسانی زندگی کو مقدم اور افضل بنایا ہے، انسانی جان و مال کی حفاظت کا بار بار تلقین کیا ہے، ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ:
"ایک انسان کا قتل گویا ایسا ہے جیسے پورے انسانیت کا قتل کیا ہو”
اس حدیث سے آپ انسانی زندگی کی قدر و قیمت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔حقوقِ انسانی مطلب انسانوں کے حقوق، اب بات یہ ہے کہ انسانوں کے کونسے حقوق ہو سکتے ہیں ،وہ کونسے چیزیں ہیں جو انسان کو پیدا ہوتے ہی وقف کر دی ہے، ربِ کائنات نے وہ یہ ہے کہ میں نے سب انسانوں کو آزاد پیدا کیا ہے، آزادی اس کا بنيادی حق ہے، کوئی لاکھ چاۓ بھی تو یہ حق اس سے چھین نہیں سکتا۔
کچھ ایسے معاملات ہیں جن میں ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے جیسے لائف، لبرٹی اور پراپرٹی کی حفاظت کا ذمہ، ہر شہری کے جان او مال، ابرو، وقار اور حفاظت کا ذمہ، بنيادی انسانی ضروریات جیسے کے تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی بھی ریاست ہی کی ذمہ داریوں میں آتی ہے، ریاست ان سب ذمہ داریوں سے مبرا نہیں، اِسے یہ سب ذمہ داریوں کا ادراک ہونا ضروری ہے، ایک بات اور اپنے ناظرین کے گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ جہاں ریاست اپنے ذمہ داروں میں غفلت برتے تو وہاں کے رعایا اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، ریاست کو اپنے ذمہ داری یاد دلانے کے لیے اور یہ سب تو بس صرف ترقی یافتہ ممالک میں ہی ہوتا ہے، یہاں تو بس الٹی گنگا بہہ رہی ہے، یہاں تو لوگ ریاست کو اس کے ذمہ داروں کا یاد دہانی کے بجائے اپنے حقوق سے ہی دست بردار ہو جاتے ہیں۔
یہاں ایک چیز کا تزكره کرنا بہت ضروری ہے کہ جب تک ہم متحد، ایک سوچ، فکر اور نظریے کے ساتھ وقتِ حاضر کے حکمران دو دو ہاتھ نہ ہوجائیں تب تک ہماری تقدیر بدلنے والی نہیں، تب تک ہماری حالتِ زار پر کوئی آنسو بہانے والا نہیں ہوگا، تب تک ہماری دکھوں کا مداوا کرنے کوئی مسیحا نہیں۔ اس کیلئے ہمیں اتحاد کا دامن تھامنا پڑے گا، تب ہی ریاست کو اپنے ظلم، جبر اور استحصال کی کشتی ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہوگا اور وہ ہمارے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگا وگرنہ بلکل نہیں جب تک ہم اپنے حقوق سے بے خبر سوۓ رہینگے۔ تب تک ہم ظلم کی چکی میں اسی طرح پستے رہینگے، ہمارا نام تاریخ کے اوراق میں مٹ جائیگا، ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں کیوں کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تاریخ اُنکو یاد کرتی ہے جو ٹكراتے ہیں، ان کی نہیں جو تلوے چاٹتے ہیں۔
بس اب ہمیں اپنے، اپنے اہل و حیال، اپنے آنے والے نسلوں کو ایک بہتر صبح دینے کے لیے انہیں ظلم اور بربريت کی چکی میں پسنے سے بچانے کے لیے میدان میں آنا پڑیگا وگرنہ بہت دیر ہو جاۓ گی، بہت دیر پھر بعد میں سر پٹنے سے اچھا ہے کہ ہم ابھی جتن کریں، آگاہی مہم چلائیں، لوگوں کو اپنے بول سے، قلم سے وہ شعور بخشے کہ آنے والے نسلیں ہماری، ہمت، حكمت اور دانائی پر رشک کرے اور ہمارا نام تاریخ کے اوراق میں نقش کر دے۔