تعلیم پر زور، تربیت کمزور

تحریر: محیب اللہ کاکڑ
بقا کا دوسرا نام نظام ہے اور نظام کا انحصار مقرر کی گئی حدود پر ہے۔ اور اگر حدود نظام کو متاثر کرنے لگیں تو پھر بقا کی تباہی کاخطرہ لازم ہے۔ نظام قدرت میں زمین، سورج، چاند اور ستارے سب ایک مقرر کردہ نظام کے تحت اپنے اپنے مدار میں گردش کررہے ہیں۔ خود اللہ رب العزت ان کے بارے میں فرماتے ہیں، کہ ان کی گردش متعین کردہ نظام کے تحت ہے۔ اور تفکر کرنے والوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔ اگر اس نظام کی گردش میں معمولی تعطل پیدا ہوجائے تو نتیجہ کے طور پر ہم سورج گرہن کامشاہدہ کرتے ہیں۔ جو کہ نظام میں وقتی خرابی کی علامت ہے۔ لیکن چند ساعتوں کے بعد واپس اپنی جگہ پر آجاتا ہے۔ یہ عمل انسانوں کے لئے قدرت کا اشارہ ہے کہ اپنی حدود جو مقرر کی گئی ہیں ان سے تجاوز کرنا کس طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔ اور اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔ قدرت کی نشانیاں آج بھی موجود ہیں لیکن تفکر کرنے والے موجود نہیں۔ قدرت کا نظام تو درست ہوجاتا ہے ۔لیکن انسانوں کے بنائے ہوئے نظام اگر بگڑ جائیں تو پھر صدیاں لگتی ہیں ٹھیک ہونے میں اوراسے ٹھیک کرنا پڑتا ہے۔ ہم ایک ایسے ان دیکھے نظام میں جی رہے ہیں جس کے قاعدے قوانین دھندلاچکے ہیں۔ بے شک قاعدے قوانین کسی بھی نظام کی بنیاد ہیں جو کہ معاشرے میں امن و سکون کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہیں۔ اور ان سے غفلت یا چشم پوشی ناصرف ملکی نظام کے حصے بخرے کرتی ہے بلکہ نظام معاشرت کو بھی تباہ کردیتی ہے۔
ستر سال سے زائد کاعرصہ بیت گیا ہمارے سفر کو لیکن لگتا ایسا ہے کہ ابھی تک ہم نے شروعات ہی نہیں کیں، کچھ سیکھا ہی نہیں۔ اگر آج ہم اپنے اطراف پر نظر دوڑائیں تو ہمیں اپنا ایک بے ربط اور الجھا ہوا معاشرہ نظر آتا ہے کہ جس میں پرتشددرویوں کا بڑھتا ہوا رحجان ، عدم برداشت، نظم و ضبط میں بگاڑ، باہمی عزت و احترام کے جذبات میں فقدان، معاشرتی و اخلاقی اقدار و روایات کا خاتمہ، یہ سب معاشرتی خرافات پہلے سے کہیں زیادہ گھمبیر شکل اختیارکرچکی ہیں۔ اور یہ سلسلہ صدیوں تک درست ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ ہم میں اس پر تفکر کو اپنا شعار بنانے والے موجود نہیں جو ہمیں ہماری معاشرتی جہالت سے نکال کر کامیابی وکامرانی کی طرف لے جائیں۔ اور ہم بھی مہذب اور اصول پسند معاشرہ کہلا سکیں۔ مہذب معاشرہ بنانے میں تعلیم اپنا کردار ادا کرتی ہے اور تعلیم کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس پر کئی ایک توضیحات بیان کی جاسکتی ہیں۔ اس تعلیمی سلسلے کو وسعت دینے کے لئے اور ایک پڑھا لکھا معاشرہ بنانے کے لئے گائوں کے کچے کمرے یا کھلے آسمان تلے سے لے کر عالی شان کیمپس میں تدریسی عمل جاری و ساری ہے۔ معیاری یا غیرمعیاری تعلیم کی الجھنوںمیں پڑے بغیر ہم اعدادو شمار کے ذریعے بتاسکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کتنے کروڑ افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ان میں کتنے ڈاکٹر، انجینئراور وکلاء ہیں مگر افسوس ہم قطعی طورپر یہ نہیںبتاسکتے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے فیصد لوگ مہذب اور اصول پسند ہیں۔ جو کہ معاشرتی اخلاقیات کی پاس داری کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ ایک حساس معاملہ تھا کہ جس پر کبھی توجہ ہی نہیں دی گئی اگر خلوص نیت سے اس توجہ دی گئی ہوتی تو آج ہمارا معاشرہ شتر بے مہار نہ ہوتا۔ اور نہ ہی ہمیں اعلیٰ تعلیم سڑکوں، چوراہوں پر پرتشدداحتجاج کرتی ہوئی نظر نہ آتی۔ اوریہ سلسلہ آئے روز کا ہے۔
اگر معاشرتی خرافات کے حل کا بنیادی اور توجہ طلب مسئلہ تعلیم ہے تو پھر ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ صرف تعلیم ہمیں اخلاقیات، انسانیت کی قدر اور معاشرے میں باہمی عزت و احترام سے رہنے کے گُر سکھا سکی، کیا وہ نتائج دے سکی کہ جس کی ہم توقع کرتے ہیں جبکہ ہم نے دیکھا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہی معاشرے کے لئے شرمندگی کا باعث بنے جو کہ کسی بھی مہذب معاشرے میںقابل قبول نہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولناچاہئے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں پرتشدد اورقتل جیسے واقعات کا رحجان بڑھ چکا ہے۔ ملک کی مختلف جامعات میں طلباء کے گروہوں میں تصادم، فائرنگ اور کشیدگی اور تدریسی عمل کاتعطل اورپھرکئی ہفتوں کے بعد ہونا کیا شرح خواندگی بڑھانے کی کوششوں کے یہ نتائج ہیں؟ دراصل ایک اچھے کام کی ابتداء ہی ادھوری ہوئی ہے۔ ہم نے اس بات کو نظر اندازکردیا کہ اچھے حسن و اخلاق کی تربیت اور عمل کے بغیر تعلیم اپنی افادیت اور اثر کھودیتی ہے۔ یہی بڑا خلا ہے اورمعاشرتی ناہمواریوں کی بڑی وجہ بھی تربیت اور عمل کے بغیر تعلیم ایسے ہی ہے کہ جیسے ریت سے بنا کچا گھروندہ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بچوںپر والدین کی تعلیم پر توجہ بڑھ جانے سے تربیتی عمل عمومی درجہ اختیار کرچکا ہے۔ عوام میں شعور کی آگاہی کی مہمات چلانے سے بہتر ہے کہ چھوٹے بچوں پر توجہ دیں ان کی تربیت آج کے دور میں ہونے والی خرافات کو مدنظر رکھ کر ہونی چاہئے۔ ہمارے بچے ایسی قیمتی دھاتوں کی طرح ہیں کہ جنہیں ہنر مند ہاتھ تراش خراش کے بعد خوش نما اور دیدہ زیب بناتے ہیں، یہ ہنر مند ہاتھ والدین اور اساتذہ کرام کے ہیں اور اس تراش خراش کا تربیتی عمل گھر سے شروع ہوتا ہے۔ آج اس بات کی اجتماعی طور پرضرورت بڑھ گئی کہ پانچ سال تک کے بچوں کی گھروںمیں بہترین اوصاف پر مشتمل تربیت کی جائے تاکہ بچے اچھائی اور برائی میں اچھی طر ح تمیز کرسکیں، تبھی ہم یہ امید کرسکتے ہیں کہ ہماری یہ نسلیں جنہوں نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے مہذب، اصول پسند اور باشعور معاشرہ کہلائیں گے، اور ہم سب کواپنا کل ٹھیک کرنے کے لئے آج کو ٹھیک کرنا پڑے گا، ہمارا کل ہمارے بچے ہیں ، جنہیںدرست سمت میں گامزن کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس کے لئے سنجیدہ کوشش کریں اور ایسا معاشرہ بنانے کی کوشش کریں جو اچھائی اور برائی پر یکساں سوچ رکھتا ہو، ناکہ تقسیم شدہ اوربٹا ہوا معاشرہ، معاشرے کویکجا کرنے کے لئے پانچ سال تک کے بچوں پر تربیت کی سرمایہ کاری کریں، اور اس کے علاوہ پانچ سال تک بچوں کی صرف تربیت کے لئے الگ مراکز قائم کرنا انتہائی ضروری ہے، جہاںپر بچوں کو معاشرتی ، طور طریقے، رہن سہن، باہمی عزت و احترام، نظم و ضبط اور حسن و اخلاق کی ترجیحی بنیادوں پر تربیت دی جائے، جہاں پر بچہ پانچ سال بہترین تربیت حاصل کرکے جب سکول داخل ہو تو ایک بہترین نظم و ضبط اور حسن و اخلاق کا مظاہرہ کرے، بچہ جیسے جیسے تعلیمی مراحل طے کرتا جائے اس میں انسانیت کے تقاضے پختہ ہوتے چلے جائیں گے، اور بچہ تعلیمی فراغت کے بعد ایک مہذب ، باشعور اورسلجھے ہوئے انسان کے روپ میں سامنے آئے گا۔ یہ تربیت کا خاصہ ہے کہ جسے اپناکر مہذب معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔