مشترکہ سزائیں اوربلوچ طلباء

جئیند ساجدی
تاریخ اور حالات حاضرہ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مشترکہ سزائیں (Collective Punishment) ہمیشہ سے سامراجی طاقتوں کا مفتوحہ قوم کے لوگوں کو ڈرانے کے لئے پسندیدہ حربہ رہا ہے۔مشترکہ سزاؤں سے مراد یہ ہے کہ کسی ایک فرد کے اقدام کے لئے اس کے پورے خاندان،عزیز واقارب،قبیلہ یا پورے لسانی گروہ کو مشترکہ سزا دینا۔تاریخ میں یہ حربہ سامراجی طاقتوں نے اتنی دفعہ استعمال کیا ہے کہ اقوام متحدہ کو اس کی روک تھام کے لئے قرار داد منظور کرنی پڑی اور جنیوا کنونشن کی آرٹیکل 3کے ذریعے اسے جنگی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا گیا اس قرار داد میں صاف الفاظ یہ لکھا گیا ہے کہ ”جس انسان نے خودکوئی کارروائی نہیں کی تو اسے اس کی سزا بلکل نہیں ملے گی“مشترکہ سزاؤں کی بہت سے اقسام ہیں ان میں ایک نسلی کشی ہے اور یہ حربہ اتنا پرانا ہے کہ قدیم یونان کے زمانے میں بھی یہ استعمال ہوا ہے۔اس کے تحت مفتوحہ قوم کافرد اگر کوئی کارروائی کرے تو اس کارروائی کا خمیازہ اس کی پوری قوم کو اپنا جانی نقصان دے کر اداکرناپڑتا ہے۔چونکہ سامراجی طاقتوں پر حکومت اکثر ڈکیٹیر ز کی ہوتی ہے اور انتہا پسندی ان ڈکیٹرز کی فطرت کا حصہ ہوتا ہے اس انتہا پسندی کی فطرت کی وجہ سے اکثر ڈکیٹیرز مشترکہ سزاؤں کو جائز قرار دیتے ہیں۔ان کے دلائل (Corruption of Blood)نامی نسل پرستی والے مفروضے پر مبنی ہوتے ہیں ان کے مطابق جو فرد ان کی قائم کردہ سلطنت یا غیر جمہوری قوانین کی خلاف ورزی کرے تو اس فرد کے تمام عزیز واقارب کے خون میں کوئی خامی ہوگی یا پھر وہ تمام کم تر نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔اسی وجہ سے وہ ایسے اقدام کرتے ہونگے تو لہذا ان تمام افراد کا قتل عام کرنا ریاست اور معاشرے کی بھلائی میں شمارہو تا ہے۔دوسرے عالمی جنگ کے وقت نازیوں (Nazi)نے اس حربے کو باکثرت استعمال کیا جب نازیوں نے پولینڈ پر قبضہ کیا تو انہیں پولیش مزاحمت کاروں کا سامناکرنا پڑا۔پولیش مزاحمتی تحریک کو کمزور کرنے کے لئے نازیوں نے بڑی تعداد میں پولیش افرادکا قتل عام کیا۔کوئی بھی پولیش اگر ایک جرمن کو قتل کرتا تھا تو اس کے عیوض میں 100سے لیکر 400پولیش افراد قتل کیئے جاتے تھے۔ایسا ہی اقدام ترکی آرمینیا میں بھی کیا تھا۔
جانی نقصان کے علاوہ مشترکہ سزائیں مالی حوالوں سے بھی دی جاتی ہیں اس کے تحت مفتوحہ لوگوں کے گھروں اور شہروں کو مسمار کیا جاتاہے اس کی عمدہ مثال اسرائیلی فورسز کی ہے جو حماس سے لڑائی کے دوران اکثر عام فلسطینی آبادی پر بمبار ی کرتے ہیں اور ان کے گھروں کو مسمار کرتے ہیں۔عراق کے تیل سے مالا مال کردوں کے شہر کر کوک کو بھی کردوں سے خالی کروانے کے لئے سابق ڈکیٹر صدام حسین نے یہی حربہ استعمال کیا تھا اور لاتعداد کردوں کے گھر مسمار کئے تھے تا کہ وہ کرکوک سے ہمیشہ کے لئے ہجرت کر جائیں۔تیسری مشترکہ سزاؤں کی ایک اور قسم جنسی زیادتی کی صورت میں دی جاتی ہے اکثر اوقات مفتوحہ قوم کے لوگوں کو نفسیاتی ٹارچر اور ان کی تذلیل کرنے کے لئے ان کی عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی بھی کی جاتی ہے۔دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی فوج نے بڑی تعداد میں فرانسیسی خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایاتھا انتہا پسند جنسی زیادتیوں کو جنگ کے دوران جائز قرار دیتے ہیں 2014ء میں تین اسرائیلی نوخیز بچوں کو قتل کیا گیا تھا اس پر ایک انتہا پسند اسرائیلی پروفیسر نے کہا تھا کہ ”صرف ایک ہی طریقے سے ہمارے بچے مستقبل میں قتل ہونے سے محفوظ ہوسکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جنہوں نے انہیں قتل کیا ہے انہیں اس بات کا علم دلایا جائے کہ ان کی ماؤں اور بہنوں کے ساتھ زیادتی ہوسکتی ہے۔”1991ء میں ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر کے مقام کنان،پس پورہ میں ہندوستانی فوج پر اجتماعی زیادتی کا الزام ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس واقعے میں 100سے بھی زائد کشمیری عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔پاکستان میں مشترکہ سزاؤں کو فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (FCR)کے تحت قانونی حیثیت دی گئی ہے لیکن تحریری طور پر یہ صرف فاٹا تک محدود ہیں جبکہ عملی طور پر بلوچستان بھی اس غیر انسانی قرار داد کی زد میں آتا ہے اور مشترکہ سزائیں یہاں عام بات ہے۔ملٹری ڈکیٹیر مشرف کے دور میں ان پر راولپنڈی اور کراچی کے مقام پر دو مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا دونوں حملوں میں وہ بال بال بچ گئے اس کے جواب میں انہوں نے راولپنڈی اور کراچی کی آبادیوں کو مشترکہ سزائیں نہیں دی بس کچھ ہی مشکوک لوگوں کو گرفتار کیا گیا لیکن 2005ء میں جب ان پر کوہلو کے مقام پر مبینہ حملہ کیا گیا تو اس کا خمیازہ پورے ڈیرہ بگٹی کو ادا کرنا پڑا۔جس کی وجہ سے پورے بلوچستان میں شورش پھیل گئی۔گزشتہ15سالوں سے اس شورش کو مذاکرات کی بجائے طاقت اور مشترکہ سزاؤں سے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بعض ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس شورش اور ماضی کے 4شورشوں میں یہ فرق ہے کہ اس میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان طلباء کا اہم کردار ہے شاید اس لئے نوجوان طلباء بھی مشترکہ سزاؤں کی زد میں آرہے ہیں کچھ روز قبل طلباء لیڈر ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے دو بھائی لاپتہ کر دیئے گئے ہیں اور چند روز قبل جامعہ بلوچستان میں 2طلباء ہاسٹل سے لاپتہ ہوگئے ہیں یہ اقدامات سامراجانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اس کے جواب میں بلوچ طلباء تنظیموں نے جامعہ بلوچستان میں ہونیوالے امتحانات کا بائیکاٹ کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ دونوں طلباء کو منظر عام پر لیا جائے اس سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ مشترکہ سزاہیں جس کا مقصد خوف پیدا کرنا ہوتا ہے یہ حربہ بلوچ نوجوانوں میں ناکام ہورہا ہے اور وہ جمہوری طرز سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہے ہیں بہتر یہی ہوگا کہ اعلیٰ حکام مشترکہ سزاؤں کی بجائے یہاں کے لوگوں کے جائز حقوق تسلیم کرے اور گفت وشنید سے مسئلہ حل کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں