آخری مقابلہ سے پہلے

تحریر: انورساجدی
پارلیمنٹ کے بند اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی کا جو اجلاس ہوا اس کی روداد میڈیا پر آ چکی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر ایسی تفصیلات بھی آئی ہیں جو شائد اجلاس کے اندر زیر غور ہی نہیں آئیں خلاصہ یہ ہے کہ دو اہم موضوعات پر غیر معمولی فیصلے کئے گئے کالعدم تحریک لبیک کو کلین چٹ دے کر اسے نام نہاد قومی دھارے میں شامل کرنے کی منظوری دی گئی تاہم سیاستدانوں کے مطالبہ کے باوجود ٹی ایل پی سے جو خفیہ معاہدہ ہوا اس کے مندرجات کو افشا نہیں کیا گیا اور یہ مطالبہ فوری طور پر نہیں مانا گیا کہ معاہدہ کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔
اہم بات یہ ہے کہ ریاست کے ذمہ داروں نے آئندہ انتخابات یا عمومی سیاست میں فرقہ واریت یا مذہبی کارڈ کو استعمال کرنے کی راہ ہموار کی۔
یہ بات تو پہلے ہی میڈیا پیش کر چکا ہے کہ ٹی ایل پی نے جس طرح حکومت کو شکست دی یا اس کے معاملہ پر اداروں اور مرکزی حکومت کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوئے اس میں ٹی ایل پی کا پلڑا بھاری رہاگویا حکومت نے اس کے سامنے سرنڈر کر لیا اس پر پولیس کے 7 اہلکاروں کا خون بھی معاف ہو گیا اس پر پابندی بھی ختم ہو گئی اس کا مستقبل کا راستہ بھی صاف ہو گیا اس کے ساتھ ہی جے یو آئی کی ڈنڈا بردار ملیشیاء انصار اسلام پر عائد پابندی بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ان تمام معاملات پر اہم تر مسئلہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات اور عارضی جنگ بندی کی تفصیل سے بھی پارلیمانی رہنماؤں کو آگاہ کیا گیا صاف نظر آ رہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ اور امن کے قیام کیلئے تحریک طالبان کو نہ صرف تسلیم کیا جائیگا بلکہ مستقبل قریب میں اس پر پابندی ختم کر دی جائیگی اس کے لئے ایک عام معافی کااعلان کیا جائیگا اور اس نے دو عشرے تک کشت و خون کا جو بازار گرم کیا ہے ریاست اس سلسلے میں درگزر یا دوسرے لفظوں میں چشم پوشی سے کام لے گی اگرچہ پیپلز پارٹی کے لیڈر بلاول بھٹو نے اجلاس سے باہر آ کر کہا کہ صدر اور وزیراعظم کو یہ اجازت نہیں دی جائیگی کہ وہ ٹی ٹی پی کے گھناؤنے جرائم معاف کرے لیکن اگر وہ بات اجلاس کے دوران اور زمہ داروں کے سامنے کہتے تو کوئی بات تھی اجلاس سے باہر ا کر ایک الگ موقف رکھنا دوغلی پالیسی کے زمرے میں آتا ہے سنا ہے کہ شہباز شریف نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا جہاں تک ٹی ٹی پی کے جرائم کا تعلق ہے تو اس کی فہرست بڑی طویل ہے 70 ہزار سویلین آبادی پانچ ہزار جوانوں، آرمی پبلک ہائی سکول کے 158 سے زائد بچوں کا بہیمانہ قتل بظاہر معافی کے لائق جرائم نہیں ہیں ٹی ٹی پی پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کا الزام بھی ہے۔
تنظیم کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے نہ صرف محترمہ کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی بلکہ بلاول کو بھی دھمکی دی کہ طالبان جلد انہیں اپنی والدہ کے پاس بھیج دیں گے۔
ساڑھے پانچ گھنٹہ طویل بریفنگ میں وزیراعظم عمران خان حسب معمول غیر حاضر تھے حالانکہ تمام مسلح تنظیموں سے مذاکرات کا آئیڈیا انہوں نے پیش کیا تھا ان کی حکومت اس سلسلے میں اس لئے پیش رفت نہیں کر سکی کہ اس میں گفت و شنید اور مخالفین کو ساتھ ملانے کی صلاحیت نہیں ہے تحریک طالبان سے عمران خان کی ہمدردی کافی پرانی بات ہے وہ پاکستانی اپوزیشن سے زیادہ نفرت اور طالبان سے کافی حد تک محبت کرتے ہیں پاکستانی طالبان ہوں یا افغانی طالبان ان کی وکالت وہ کافی عرصہ سے کر رہے ہیں حتیٰ کہ بعض عناصر نے انہیں طالبان خان کا نام تک دیا آج کل وہ اس لئے اتراتے ہیں کہ افغانستان کی صورتحال جنگ اور طالبان کی کامیابی کے مارے میں انہوں نے جو پیشنگوئی کی تھی وہ درست ثابت ہوئی جس کا اظہار وہ ہر پلیٹ فارم پر کرتے ہیں تحریک طالبان سے خفیہ مذاکرات کی منظوری کے بعد یہ سوال اٹھا ہے کہ الطاف حسین کی مہاجر قومی موومنٹ اور بلوچ تنظیموں نے کیا قصور کیا ہے کہ ان پر نہ صرف پابندیاں برقرار ہیں بلکہ ان سے بات چیت کے دروازے بھی بند ہیں ایم کیو ایم کے موجودہ سربراہ خالد مقبول صدیقی نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں برمحل مطالبہ کیا کہ ایم کیو ایم پر پابندی ہٹالی جائے اور بحیثیت جماعت کام کرنے کی اجازت دی جائے گو کہ الطاف حسین کی سربراہی میں اس جماعت نے کراچی اور حیدر آباد میں بڑے پیمانے پر لوگوں کا قتل عام کیا لیکن اب جبکہ دیگر مسلح اور انتہاء پسند تنظیموں کو قومی دھارے میں شامل کیا جا رہا ہے تو لگے ہاتھوں اس جماعت کے بھی سارے گناہ اور جرائم معاف کئے جائیں ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے بانی الطاف حسین پر عائد پابندی دور نہیں ہو سکتی کیونکہ آج کل وہ ”سندھو دیش“ کی تحریک سے وابستہ ہیں۔
ٹی ایل پی ہو تحریک طالبان ہو یا دیگر تنظیمیں ماضی میں ان کی کاشت خود ریاستی اداروں نے کی تھی جب مشرف کے دور میں 12اکتوبر کو کراچی کی سڑکوں پر خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی تو جنرل مشرف اسلام آباد میں ق لیگ کے زیر اہتمام ہونے والے جلسہ میں ”مکا“ لہرا کر مخالفین کو دھمکی دے رہے تھے جنرل ضیاء الحق کے بعد جنرل مشرف نے ایم کیو ایم کی غیر معمولی سرپرستی کی اہم وزارتوں کے ساتھ اسے غیر معمولی مالی امداد فراہم کی تاکہ وہ سندھ کا کنٹرول سنبھال سکے آثار بتا رہے ہیں کہ اپنی تشکیل کردہ تمام مسلح تنظیموں کو دوبارہ ساتھ ملا لیا جائیگا صرف بلوچ تنظیموں کو الگ تھلگ رکھ کر ان کی مکمل بیخ کنی کیلئے کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی ریاست ان سے روابط قائم رکھنے اور بات چیت شروع کرنے کے حق میں نہیں ہے حالانکہ کچھ عرصہ قبل شاہ زین بگٹی کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جسے جلاوطن رہنماؤں سے مذاکرات کا ٹاسک دیدیا گیا تھا لیکن اس کمیٹی نے ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں کی ایسا لگتا ہے کہ شاہ زین باہر جا کر مذاکرات کی بجئے اپنے آپ سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔
سکہ بند پاکستانی صحافیوں کے مطابق آرمی چیف نے اجلاس میں کہا کہ ملکی معیشت ٹھیک طریقے سے نہیں چل رہی ہے گویا یہ موجودہ حکومت پر برملا عدم اعتماد کا اظہار ہے آرمی چیف نے حالیہ بعض معاملات کا نہایت تحمل اور بردباری کے ساتھ سامنا کیا ہے ورنہ وہ جذباتی بھی ہو سکتے تھے اگرچہ وہ دل کی بات کسی سے کہنے پر یقین نہیں رکھتے لیکن ان کے دل کی بات بالآخر زبان پر آ ہی گئی ہے اگر ان سے منسوب یہ بات درست ہے کہ جب تک معیشت درست نہ ہو تو کوئی بھی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی سو فیصد صحیح ہے لیکن جس طرح تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان مسائل و مشکلات کی غلام گردشوں میں بھٹک رہے ہیں ریاست کے دیگر اداروں کو بھی سجھائی نہیں دے رہا ہے کہ وہ ان مشکلات پر کیسے قابو پائیں ایک آسان مگر مشکل راستہ یہ ہے کہ نئے انتخابات کا انعقاد کروایا جائے عمران خان کو بات چیت کے ذریعے قائل کیا جائے کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کی راہ ہموار کریں کیونکہ اگر اپوزیشن نے ایجی ٹیشن کا راستہ اختیار کیا تو کمزور معیشت مزید بیٹھ جائیگی لیکن پاکستان میں یہ روایت شروع سے ہی موجود نہیں ہے عمران خان اپنی ناکامی ماننے کو تیار نہیں ہے جبکہ اپوزیشن کے پاس واحد آپشن یہی ہے کہ وہ سڑکوں پر آئے اور حکومت کو چلتا کر دے۔
سردست اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کا فقدان ہے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے راستے جدا ہیں گزشتہ سال جب بلاول نے لانگ مارچ شروع کرنے کی تجویز دی تھی تو ن لیگ نے یہ تجویز رد کر دی تھی اور اسمبلی سے استعفوں کا مطالبہ کیا تھا حالانکہ بعد ازاں ن لیگ نے خود استعفوں سے احتراز کیا بلکہ کئی ضمنی انتخابات میں بھی حصہ لیا کافی سارا وقت ضائع کرنے کے بعد پی ڈی ایم کی قیادت نے پہلے دسمبر میں لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جسے اب بدل کر نومبر میں لانگ مارچ شروع کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔
پی ڈی ایم کو کم از کم تحریک لبیک کے لانگ مارچ سے سبق سیکھنا چاہئے جس نے 20ہزار کارکنوں کی مدد سے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اگر پی ڈی ایم اسی طرح کا مارچ لاہور سے اسلام آباد تک کرے تو حکومت کا قائم رہنا مشکل ہو جائیگا کیونکہ سابقہ ایک پیج بھی باقی نہیں رہا اور نہ ہی ٹرائیکا میں سابقہ ہم آہنگی موجود ہے چنانچہ یہ وقت لانگ مارچ کے لئے انتہائی موزوں ہے بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کے مارچ میں ٹی ایل پی کی نسبت زیادہ لوگ شریک ہونگے البتہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں میں اتنی جان نہیں ہے جو ٹی ایل پیل کے کارکنوں کی طرح لڑسکیں کیونکہ ن لیگ کے کارکنوں نے کبھی اس طرح کا ایجی ٹیشن نہیں کیا ہے۔
اگر واقعی پی ڈی ایم دسمبر سے پہلے لانگ مارچ کر رہی ہے تو یہ عاقلوں کیلئے ایک بڑا اشارہ ہے خاص طور پر حکومت کیلئے جو مہنگائی پر کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہے اور معاشی ناکامیوں کی کوئی توجیح بھی اس کے پاس نہیں ہے اس کے سارے منصوبے ناکام ہو چکے ہیں احتساب کا عمل دم توڑ چکا ہے جس کی وجہ سے چیئرمین نیب بیرون ملک جانے کی تیاری کر رہے ہیں اس حکومت کے دور میں جو مالیاتی اسکینڈل بنے ہیں وہ بھی کسی کارروائی کے منتظر ہیں پینڈورا باکس کے نامزد ملزمان و دیگر جماعتوں میں شامل ہونے کیلئے تگ و دو شروع کر چکے ہیں اس حکومت کے سب سے اہم وزیر شیخ رشید کی زبان بندی ہو چکی ہے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے مصطفی نواز کھوکھر سے پرانے یارانے بحال کر لئے ہیں لیکن عمران خان یوں آسانی سے جانے والے نہیں ہیں وہ آخری گیند تک مقابلہ کریں گے اور جانے سے پہلے آخری داؤ بھی کھیل جائیں گے جس کی تیاری انہوں نے کر رکھی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں