اپوزیشن کا کندھا حاضر ہے

تحریر: انورساجدی
پاکستانی اپوزیشن اس وقت خود سپردگی کے عالم میں ہے حسب سابق حسب روایت اور ایک بار پھر وہ استعمال ہونے اور مقتدرہ سے ہاتھ ملانے کیلئے تیار ہے اگر ثالثی کی کوشش ناکام ہوئیں صلح کی کوئی صورت نکل نہ آئی تو اپوزیشن کا اس طرح استعمال ہوگا جو 2014ء میں عمران خان کا ہوا تھا اگرچہ عمران خان نواز شریف کی حکومت گرانے میں کامیاب نہ ہو سکے تھے اس لئے عدالتی ذریعہ بروئے کار لایا گیا پاکستانی ریاست میں حکومتیں بنانے اور گرانے کا دھندا بہت پرانا ہے ابتدائی سالوں کو چھوڑ کر موجودہ عہد کے اس کھیل کا آغاز 1988ء میں ہوا تھا جب جنرل ضیاء الحق نے اپنے ہی مقرر کردہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کو برطرف کر دیا تھا 1988ء میں بے نظیر کی حکومت قائم ہوتے ہی مقتدرہ کے لیڈر غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ نے سازشیں شروع کر دی تھیں حکومت گرانے کی خاطر 1989ء میں عدم اعتماد کی تحریک بھی لائی گئی جو ناکام ہوئی اس ناکامی کے بعد صدر اسحاق نے حکومت برطرف کر دی 1990ء کے عام انتخابات میں اپوزیشن اتحاد نے نواز شریف کی سربراہی میں حکومت بنائی لیکن1993ء میں یہ حکومت برطرف کر دی گئی اسی سال ہونے والے عام انتخابات میں بے نظیر دوبارہ وزیراعظم بن گئیں لیکن صدر اور مقتدرہ نے یہ حکومت چلنے نہ دی 1996ء میں حکومت کی برطرفی کے بعد اگلے سال کے جھرلو انتخابات میں ایک بار پھر نواز شریف کو لایا گیا لیکن1999ء میں کارگل کے مسئلہ پر اختلاف ہوا اور پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹ دیا شروع میں پیپلز پارٹی نے حکومت کی برطرفی کا خیر مقدم کیا تاہم کچھ عرصہ بعد احساس ہونے پر اس نے خود کو الگ رکھا جنرل مشرف نے اپنے پیشرو جنرل ضیاء الحق کی طرح ایک نام نہاد اور ڈھکوسلہ قسم کا ریفرنڈم کروایا جس کے ذریعے انہوں نے خود کو منتخب صدر قرار دیا 2002ء میں انہوں نے ن لیگ کو توڑ کر ق لیگ کے نام سے ایک جماعت بنائی اور خلائی مخلوق کے ذریعے اس جماعت کو انتخابات جتوائے گئے لیکن یہ پھر بھی اکثریت حاصل نہ کر سکی اس لئے پیپلز پارٹی کو توڑ کر پیٹریاٹ بنائی جس کے 14ووٹوں کی مدد سے ق لیگ کی حکومت مسلط کی گئی 1988ء سے شروع ہونے والا کھیل یہاں پر آ کر رک گیا جس کے بعد مقتدرہ نے اپنا طریقہ کار تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وقت تبدیل ہو چکا تھا جنرل مشرف نے ظفر اللہ جمالی کے بعد چوہدری شجاعت اور شوکت عزیز کو بھی آزمایا لیکن عالمی مداخلت پر انہیں بے نظیر اور نواز شریف کو این آر او دینا پڑا نہ صرف یہ بلکہ امریکہ کی مداخلت سے انہیں عام انتخابات کا اعلان بھی کرنا پڑا ان انتخابات میں طویل جلاوطنی ترک کر کے محترمہ بے نظیر واپس آئیں تو 18اکتوبر2007ء کو ان کی بہت بڑی ریلی پر حملہ ہوا جس میں سینکڑوں لوگ مارے گئے تاہم بے نظیر بچ گئی چند ہفتوں کے بعد ”راکھشوں،، کے اتحاد نے بے نظیر کو کمپنی باغ راولپنڈی کے باہر کر دیا اس قتل کا الزام طالبان پر لگایا گیا اور جنرل مشرف پر معاونت کاالزام لگا اس سانحہ کے بعد ”راکھشوں،، اتحاد وقتی طور پر بے بس ہو گیا اور وہ عام انتخابات میں بڑی مداخلت نہ کر سکا لیکن اس نے پنجاب ہاتھ سے جانے نہ دیا یہ وہ موقع تھا جب ن لیگ بھی اس اتحاد کا حصہ بن گئی شروع میں تو مخلوط حکومت قائم کی گئی لیکن جلد نواز شریف نے پیپلز پارٹی کو کمبل قرار دیا اور روز کہنے لگے کہ ہماری جان چھوڑو زرداری نے حکومت تو بنائی لیکن اسے چلنے نہیں دیا گیا جنرل کیانی، نواز شریف اور افتخار محمد چوہدری نے گٹھ جوڑ کر لی گیلانی حکومت کو ختم کرنے کیلئے میمو اسکینڈل کھڑا کیا گیا جس کے مدعی نواز شریف تھے وہ زندگی میں پہلی بار کالا کوٹ پہن کر عدالت گئے لیکن کیس میں جان نہیں تھی اس لئے زرداری کی جان بخشی کر دی گئی ورنہ پروگرام یہ تھا کہ صدر پاکستان کو غداری کے الزام میں گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا جائے نواز شریف نے ججوں کی بحالی کیلئے بھی لاہور سے راولپنڈی تک مارچ کا آغاز کیا تھا لیکن راستے میں گوجرانوالہ کے مقام پر جنرل کیانی نے وکلاء تحریک کے لیڈروں کو بتایا کہ جج صاحبان بحال کر دیئے گئے ہیں جس کے بعد مارچ وہیں پر ختم کر دیا گیا زرداری کے پورے5 سال کے دوران نام نہاد قومی میڈیا نے ان کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ کیا اور ن لیگ کا آلہ کار بن کر زرداری کے خلاف عجب کرپشن کی غضب کہانیاں گھڑنے میں کامیاب ہوا جسٹس افتخار محمد چوہدری پہلے تو ہر معاملہ پر سوموٹو لیتا تھا بالآخر انہوں نے گیلانی کو برطرف کر کے دم لیا نہ صرف یہ بلکہ 2013ء کے عام انتخابات میں انہوں نے عدلیہ کی طرف سے آر او مقرر کر کے ن لیگ کی کھل کر حمایت کی اقتدار کے حصول کی خاطر نواز شریف نے میثاق جمہوریت کی دھجیاں اڑا دیں اور جمہوریت کے خلاف سازشوں کا حصہ بن گئے لیکن جلد مقتدرہ نے نواز شریف کو مسترد کر دیا کیونکہ اسے عمران خان کی صورت میں نیا گھوڑا ملا تھا 2014ء کا دھرنا اس مہرہ کے استعمال کا آغاز تھا تاوقتیکہ 2018ء کے انتخابات میں انہیں کامیاب کروایا گیا اور جنرل مشرف کی طرح دیگر جماعتوں کے اراکین لے کر عمران خان کی حکومت بنائی گئی شروع میں عمران خان ہاں میں ہاں ملاتے تھے لیکن ایک وی لاگر کے مطابق جب وہ اپنے ابا خود بن گئے تو مسائل پیدا ہو گئے بات یہ نہیں کہ عمران خان نے پرپرزے نکالے تھے یا وہ بااختیار وزیراعظم بننا چاہتے تھے اصل بات یہ ہے کہ ن لیگ نے توسیع کے کاغذ پر آنکھیں بند کر کے جس طرح انگوٹھا لگایا وہ ایک ڈیل کا نتیجہ تھا اس کے نتیجے میں نواز شریف کو لمبا چھوڑا ڈرامہ کر کے لندن بھیجا گیا اس بات کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ”مجھے کیوں نکالا“ اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کر ن لیگ نے وہی کام دہرایا جو پہلے سے اس کا خاصہ تھا یہ الگ بات کہ بطور وزیراعظم عمران خان مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہوئے اور ان کی حکومت کی پالیسیاں تباہ کن ثابت ہوئیں لیکن جب نازک وقت آیا تو اپوزیشن نے اپنے کندھا غیر جمہوری قوتوں کو پیش کر دیا پارٹیوں میں شخصی آمریت اتنی ہے کہ آج تک نواز شریف نے اپنے رہنماؤں کو یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ ان سے کن کے خفیہ رابطے ہیں اور کن شرائط پر انہوں نے حکومت کے خلاف طاقت کے عناصر کو اپنا کندھا پیش کیا ہے یہی حال مولانا صاحب کا ہے بلکہ مقتدرہ کو انہوں نے قائل کیا تھا کہ وہ ن لیگ سے خفیہ رابطے قائم کریں بلکہ محترم عبدالغفور حیدری نے راولپنڈی کے چکر لگالگا کر اس کام کیلئے خاصی محنت کی ہے مجال ہے جو مولانا صاحب نے آج تک اپنی پارٹی والوں کو آگاہ کیاہو کہ اندر کھاتہ کیا چل رہا ہے اگر مولانا صاحب حکومت نکالنے میں مخلص ہوتے تو جلسوں اور ریلیوں کی بجائے ایک ہی ہلہ میں راولپنڈی تک لانگ مارچ کر کے حکومت کی چھٹی کرا سکتے تھے بلکہ اس مرتبہ تو خالی چائے پانی کی بجائے انہیں پاپا جونز کا پیزا بھی تناول کیلئے پیش کیا جاتا جس کا گلہ مولانا نے چند ماہ قبل کیا تھا اس وقت تو عمران خان اور مقتدرہ ایک پیج پر تھے آج کل مولانا اور مقتدرہ ایک پیج پر ہیں کسی کو معلوم نہیں کہ آئندہ کا پلان کیا ہے۔
اے این پی اور بھائی آفتاب شیرپاؤ تو پی ڈی ایم کے لاحقے اورسابقے ہیں وہ ضرور مستقبل کے منصوبوں کا حصہ نہیں ہونگے کیونکہ آئندہ انتخابات کے موقع پر مذہبی کارڈ ضرور کھیلا جائیگا اس میں طالبان کا بڑا رول ہو گا بھلا اے این پی جیسی سیکولر جماعت کہاں اس منصوبے میں فٹ بیٹھے گی جبکہ پیپلز پارٹی کو یہ لوگ وقتی استعمال کے سوا کبھی ساتھ لے کر نہیں چلیں گے۔
اگر یہ بات واقعی صحیح ہے کہ عمران خان سایہ شفقت سے محروم ہو گئے ہیں تو وہ پارلیمنٹ آ کر حقیقت حال بیان کریں اور اپنی نام نہاد انا کو ایک طرف رکھ کر جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کیلئے جمہوری قوتوں کی حمایت حاصل کریں ورنہ پرانا کھیل جاری رہے گا اس ملک میں جمہوریت کا پنپنا اور پارلیمان کی بالادستی ہمیشہ خواب رہے گی ایک کاسمیٹک سسٹم ہٹا کر دوسرا قائم کیا جائیگا اور ریاست کو اسی طرح کے ہائبرڈ نظام کے ذریعے چلایا جائیگا لوگ اسی طرح بھوک اور فاقوں سے مرتے رہیں گے اور یہاں پر صحیح معنوں میں کبھی جمہوریت نہیں آ سکے گی مستقبل میں بھی سیاسی جماعتیں اپنے کاندھے پیش کرتی رہیں گی اور کسی سویلین حکومت کو اقتدار منتقل نہیں ہوگا اس تمام صورتحال میں ایک خدشہ یہ ہے کہ اگر طاقتور ملک کی ثالثی کامیاب ہوئی تو ہماری اپوزیشن نہ ادھر کی رہے گی نہ ادھر کی کیونکہ پاکستان میں زبان قول اور وعدے وعیدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے یہاں اپنے وسیع تر مفاد کیلئے ہمیشہ دوسروں کو قربان کیا جاتا رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں