پسماندہ آواران اور قدوس بزنجو کیلئے امتحان

تحریر:جہانزیب عظیم
تباہ حال اور شورش زدہ آواران سے اس وقت ملک کے اکثر شہری، صحافی اور سیاسی شخصیات واقف ہیں کیونکہ بلوچستان میں جاری شورش کی وجہ سے آواران بری طرح متاثر ہوئی ہے، تشدد کے واقعات کے علاوہ 2013 کی تباہ کن زلزلے نے پہلے سے پسماندہ آواران کو مزید تباہی اور پسماندگی تک پہنچا دیا. آواران جو بنیادی ضروریات زندگی سے محروم تھا یہاں نہ بجلی تھی، نہ گیس، نہ پکی سڑکیں ،نہ بہتر تعلیمی ادارے اور نہ ہی صحت کا بہتر نظام تھا لیکن اب اس قدرتی آفت کے بعد عام غریب لوگ اپنے کچے گھروں سے بھی محروم ہوگئے، کئ اپنے پیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھے. اس تباہ کن زلزلے کے بعد ملکی میڈیا کو تھوڑی بہت رحم آئی اور انھوں نے آواران کا دورہ کیا وہاں کے حالات اور زلزلہ متاثرین کو کوریج دی، اور انہوں نے آواران کو پاکستان کا پسماندہ ترین ضلع قرار دیا.

بی بی سی سے منسلک اور نامور صحافی ریاض سہیل نے اپنے دورے کے دوران آواران کا زکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سب سے پسماندہ ترین علاقہ اپنے علاقہ تھر پار کر کو سمجھتا تھا لیکن آواران کو دیکھنے کے بعد انہیں پتہ چلا کہ آواران تو پاکستان کا پسماندہ ترین ضلع ہے یہاں بنیادی ضروریات زندگی کے سہولیات میسر نہیں ہیں یہاں پکی سڑکیں موجود نہیں ہیں، تربت کراچی روڈ پر اونٹ سڑک کے بیچ کھڑے ہیں، یعنی گاڑیوں کا آنا جانا نہ ہونے کے برابر ہے.

مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے بعد تربت کراچی روڈ کچا ہونے کی وجہ سے سفر کیلئے مزید استعمال نہ ہوسکا، اور پسماندہ آواران مکران کوسٹل ہائی وے اور آر سی ڈی شاہراہ کی آمد و رفت کی وجہ سے ایک کونے میں کٹ کر رہ گیا، اور آواران کے عوام نے چند عرصے کیلئے مشرف دور میں بنائے ہوئے بیلہ، آواران بلیک ٹاپ سڑک سے استفادہ کرسکے، لیکن یہ اب انکے کیلئے درد سر بن گئ ہے ، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے سفر کرنے کے قابل نہیں ہے. 300 کلومیٹر کے لگ بھگ کی مسافت ہے لیکن 6 سے 7 گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے. اگر وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو صاحب فوری طور اس ٹوٹی پکی سڑک کو ہٹا کر گریڈر کرنے کا حکم دیں،تو آوران کے عوام کافی دعائیں دینگے.

ویسے اخباروں اور سرکاری دفاتر میں آواران بیلہ روڑ کی مرمت اور تعمیر کیلئے کروڑوں روپوں کے فنڈز اور ٹینڈرز جاری ہوچکے ہیں لیکن وہ صرف کاغذی کاروائی کی حد تک موجود ہیں اور فنڈز کرپشن اور کک پیکس کی نظر ہو چکے ہیں.آواران 1992 میں ضلع خضدار سے الگ ہو کر ایک ضلع بن گیا تھا. لیکن آواران کو ملک کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 1985 سے نمائندگی حاصل رہی ہے، اور 1985 سے لے کر آج تک پینتیس سالوں میں صرف 1997 میں اسلم جان گچکی کے ڈھائی تین سال اور 2008 میں میر قمبر گچکی کے پانچ سالہ حکومت اور نمائندگی کے علاوہ مسلسل نمائندگی مرحوم میر عبدالمجید بزنجو اور انکے صاحبزادے میر عبدالقدوس بزنجو کے پاس رہی ہے.اس دوران میں بزنجو خاندان مسلسل حکومت کا حصہ رہ چکے ہیں اور ہر دور میں میں انکے پاس وزارت بھی رہی ہے، وہ کبھی اپوزیشن میں نہیں رہے ہیں.

آخری بار 2013 کے الیکشن میں میر عبدالقدوس بزنجو صوبائی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر، اسپیکر، قائم مقام گورنر، اور آخر میں وزارتِ اعلیٰ کی منصب تک رہ چکے ہیں،یعنی گزشتہ پینتیس سالوں میں صرف 7 یا 8 سالوں کے علاوہ علاقے کا حکمرانی اور نمائندگی بزنجو خاندان کے پاس رہی ہے، تو یقیناً آج آواران جو منظر پیش کر رہی ہے تو انکے ذمہ دار بھی وہی ہونگے، لیکن وہ اتنے بڑے اور اہم عہدوں پر براجمان ہونے کے باوجود بھی آواران اور اس کے عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کے سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں.

آواران میں آج بھی 21 ویں صدی میں نہ پکی سڑکیں ہیں، نہ بجلی، گیس، نہ کالج نہ یونیورسٹی میسر ہے، چند ایک انٹر کالجز جھاؤ، مشکے اور مالار میں غیر فعال ہیں، ایک انٹر کالج آواران ڈگری کالج کا درجہ حاصل کرنے کے باوجود سہولیات سے محروم ہے، گرلز انٹر کالج ماشی کا بلڈنگ تیار یے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال نے افتتاح بھی کیا ہے لیکن آج تک تدریسی عمل شروع نہ ہوسکا ہے.

آج بھی آواران بجلی سے محروم ہے، ایک جنریٹر صرف 4 گھنٹے کیلئے بازار کے حدود میں بجلی فراہم کر پا رہی ہے.تعلیمی نظام تباہ ہے اساتذہ غیر حاضر ہیں، سکولوں کے عمارت اب کھنڈرات میں تبدیل تبدیل ہورہے ہیں، کلسٹر بجٹ ہڑپ کئے جا رہے ہیں،نظام صحت ہیڈ کوارٹر ہاسپٹل آوران تک محدود ہے اور یہ ہاسپٹل بھی بجلی اور دیگر ضروری سہولیات سے محروم ہے، بلڈ بینک بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بیکار ہے اور آئے روز نوجوان رضا کار ایمرجنسی میں خون کے عطیات دینے ہسپتال پہچ کر کس کی جان بچانے میں حاضر ہو جاتے ہیں.

لیکن اب ایک بار پھر میر عبدالقدوس بزنجو صاحب کو موقع مل گیا ہے، بہترین موقع ملا ہے، وہ ایک بار پھر وزیر اعلیٰ منتخب ہوچکے ہیں اور دو سال کا تحویل عرصہ ہے اور انکی خوش بختی ہے انہیں فرینڈلی اپوزیشن بھی ساتھ ہے جو انہیں ہر قدم پر ساتھ دیگی، وفاق اور صوبے میں انکی اتحادی حکومت ہے سینٹ میں سربراہ انکی پارٹی کا ہے، اور انہیں ہر طرف سے حمایتی ملینگے لیکن مخالفت کرنے والے بہت کم ہونگے یا ہونگے بھی نہیں، وہ اپنے اتحادیوں اور سینٹ کی مدد سے وفاقی حکومت میں بلوچستان کیلئے بہتر انداز میں فنڈز حاصل کر سکتے ہیں،

اب کی بار ہم امید کرتے ہیں کہ قدوس بزنجو صاحب اس موقع کو غنیمت جان کر بہتر انداز میں کارکردگی کا مظاہرہ کریگی، اور گزشتہ ادوار کی کمی کوتاہیوں کا ازالہ کرائیں گے،ڈاکٹر مالک صاحب نے ڈھائی سالہ دور حکومت میں تربت کو خصوصی طور پر توجہ دے کر اپنی نمائندگی کا بہترین ثبوت دے کر قابل تعریف حد تک تبدیلی لائی اور آج تربت کا نقشہ ہی تبدیل ہوا ہے.

لہذا اب وہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوچکے ہیں، اب وہ اپنے چند منظور نظر اشخاص کو فنڈز اور ٹھیکے نوازنے کے بجائے آواران کے لئے سوچے، اپنے عوام کے لئے سوچے، اپنی سیاسی کیریئر کیلئے سوچے اور عام عوام اور علاقے کی تباہ حالی اور پسماندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے آواران میں بنیادی ضروریات زندگی کے سہولیات کو پورا کرنے کیلئے آواران کیلئے ایک بہترین میگا پراجیکٹ کا اعلان کریں، جس میں سڑکیں، بجلی، گیس، ریزیڈینشل کالجز، ٹیکنیکل کاجز، پاسپورٹ آفس، یونیورسٹی کیمپس اور مختلف تحصیل اور دور دراز علاقوں میں نئے بی ایچ یوز کا قیام شامل ہوں. تو شاید وہ آواران کی تقدیر بدلنے میں کامیاب ہوجائیں، اب نہیں تو وہ کھبی بھی کچھ نہیں کرپائیں گے،اب یہ بہانے نہیں ہونے چاہئیں کہ ڈاکٹر مالک نے کام کرنے نہیں دیا، ثناءاللہ زہری نے فنڈز نہیں دئے، جام صاحب نے فنڈز روکے تھے، کیونکہ اب ڈاکٹر مالک صاحب اسمبلی سے باہر ہیں، ثناءاللہ زہری اور جام کمال صاحب آپکے حمایتی ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں