ہیرونک تاریخی پس منظر

تحریر۔ اکرم علی بلوچ
ہیرونک کی تاریخ پر چھپنے والے اپنے پہلے کالم میں میں نے جس چشمے "کورجو” کا ذکر کیا تھا اس کے ساتھ میں نے کچھ ہندوؤں کا بھی ذکر کیا تھا۔ ان ہندوؤں کے بارے میں ایک موقف یہ بھی ہے کہ یہ لوگ مقامی نہیں تھے بلکہ کاروبار کی غرض سے ہیرونک اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دوکاندار تھے جن کے اپنے خاندان ان کے آبائی علاقوں میں ہی مقیم تھے۔ بلوچ ان ہندوؤں کو“بکال”کہہ کے پکارتے تھے۔ دوکانداری بلوچ روایت میں عیب سمجھی جاتی تھی اس لئے ہندوؤں کے جانے کے بعد جن بلوچوں نے یہ کاروبار سنبھالا انہیں بھی بکال پکارا جانے لگا۔ ہندوؤں کی موجودگی کے آثار آج بھی موجود ہیں جیسے کہ ہیرونک کے کچھ مقامات پر اس وقت مرنے والے ہندوؤں کو رسماً جلایا جاتا تھا اور ان کی راکھ کو کسی مٹکے میں رکھا جاتا تھا۔ اس وقت کے شمشان گھاٹوں پر ٹوٹے ہوئے مٹی کے مٹکوں کی ٹھیکریاں آج بھی بہت سارے مقامات پر موجود ہیں۔
ساٹھ کی دہائی میں بلوچستان سے سمندر راستے کے ذریعے دوبئی پہنچنے والے ہیرونک کے کچھ نوجوانوں کی ملاقات ان آخری دکاندار ہندوؤں سے ہوئی جو کھبی ہیرونک میں رہتے تھے۔ ان نوجوانوں میں سے سیٹھ ہاشم، محمد ولد فیض محمد اور دیگر ابھی بھی حیات ہیں۔ جن سے ان حقائق کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
جن ہندوؤں کا ذکر انہوں نے کیا ان میں سے ایک کا نام صودان تھا۔ جیسے مقامی لوگ صوبان پکاتے تھے جبکہ دوسرے ہندو کا نام کراکرداس تھا جسے مقامی لوگ چاکرداس پکاتے تھے۔ محمد ولد فیض محمد کے بقول صودان ان کا دوست تھا اور صودان ان سے ہندوؤں کی ہیرونک میں موجودگی کے قصے کرتا تھا۔ ہندوؤں کے دکان دو مقامات پر تھی جن کے آثار آج بھی اورمندہ اور دوردستان میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
ہندوؤں کے بعد دکانداری کرنے والے شخص سیٹھ ہاشم جو انتہائی ملنسار اور خوش اخلاق مہشور ہیں اور ہیرونک میں مہمان نوازی کی روایت کے آمین ہیں۔
گوادر کے پاکستاں بننے سے پہلے جب یہ عمان کے ماتحت تھا اور یہاں عمان آرمی کی بھرتی ہوا کرتی تھی تو سیٹھ ہاشم اس بھرتی میں شامل ہونا چاہتے تھے لیکن باوجہ وہ ایسا نہ کر پائے اور وہیں کسی کام پہ لگ گئے۔ کچھ عرصہ کام کرکے انہوں نے تقریبا تین سو روپے جوڈ لئے جو کہ اس زمانے میں کافی رقم تصور کی جاتی تھی اور کراچی چلے گئے۔ وہاں سے انہوں نے پرچون کا سامان لیا اور ہیرونک کے علاقے دوردستان میں اپنی دکانداری شروع کی۔
لفظ ہیرونک کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے۔ کچھ روایات کے مطابق لفظ "اروک” سے نکلا ہے جس کے معنی "اونٹ کے بچے” کے ہیں۔ جبکہ سابق پارلیمیٹرین "محمد حسین انکا” کے مطابق یہ لفظ "کورجو” کا پرانا نام ہے اور ان کے مطابق یہ لفظ کسی ہندی لفظ سے مشابہ ہے۔
"کورجو” نامی چشمہ جو "درنگ” کے مقام سے پھوٹتا ہے۔ اس کے بارے مقامی بزگ افراد کا کہنا ہے کہ اگر کبھی درنگ کا پانی سوکھ جاتا تھا تو کاریز بنائے جاتے تھے۔ اس وقت کے بنائے ہوئے کاریزوں کے آثار ابھی بھی اورمندو کے نزدیک دیکھے جا سکتے ہیں۔
2001 میں شائع ہونے والی Mobility and Access studies, village profiling
ورلڈ بینک اور NRSP
کی طرف سے profile and sitution analysis نامی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت کے ہیرونک کے بزرگ ترین شخص "کہدہ حسین” جن کی عمر پچانوے سال تھی کے مطابق وہ پچھلی سات نسلوں تک کے زمانے سے واقف ہیں اور ان کے مطابق یہ لوگ میری کلات کلگ میں جو کہ تربت سے بیس کلو میٹر شمال مغرب میں موجود ہے، پانی کی کمی کی وجہ سے اور ہیرونک میں موجود "کورجو” نامی چشمہ ان کے لئے باعث کشش بنا تو ہجرت کرکے ہیرونک آئے۔
میری کلات کلگ سے تعلق رکھنے کی بنا پر کچھ لوگوں کو کلگی کہا جاتا ہے۔ جو دراصل کوئی بلوچ ذات نہیں ہے بلکہ علاقے کی نسبت سے رکھا گیا ایک نام ہے۔
مندرجہ بالا رپورٹ کے مطابق کسی زمانے میں انڈیا سے تشریف لانے والے ملا مراد نے یہاں آکر تبلیغ اسلام پر بہت کام کیا اور انمٹ نقوش چھوڑے۔ انہوں نے ہیرونک اور آس پاس کے دوسرے گاؤں مثلا ہوشاب، تجابان، کرکی، کلگ، سامی، شاپک اور دیگر میں بھی اسلام کی روشنی پھیلائی۔
آج سے تقریبا ایک صدی پیشتر ہیرونک کے لوگ خانہ بدوش تھے۔ اور موسمی شدت، پانی کی فراہمی اور دوسرے عوامل کے تحت ہیرونک کے آس پاس کے علاقوں میں جگہیں تبدیل کرتے رہتے تھے۔ ان علاقوں میں موکوک، یکمچی، باز مچی، شردوئی، گرداس، اورمندو، گزنی گر، اور گودری گر قابل ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ مختلف ادوار میں ہیرونک کے لوگ ہیرونک سے دوسرے علاقوں میں ہجرت کرکے آباد ہوتے تھے جیسے ہوشاب، تجابان، شاپک وغیرہ جبکہ کہ کچھ لوگ تربت شہر میں بھی جاکر آباد ہوئے۔
ہیرونک میں آبادکاری کا سلسلہ گرداس کے قریب درائی کچ سے شروع ہوا۔ یہاں سے لوگ جنوب میں پہاڑی کے دامن میں واقع دوردستان آباد ہوئے۔ اس وقت کے بزگ شخص واجہ معیار کے مطابق دوردستان میں کل گرانے ایک سو چھبیس تھے۔ اسی زمانے میں یہاں پر مستری باران دستور جو کہ سامی کلگ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے پہلی عبادت گاہ تعمیر کی۔ یہ عبادت گاہ آج بھی موجود ہے۔ دوردستان کے جنوبی پہاڑی دامن میں ایک دیہات بنی جس کا نام "بست” تھا اور بعد میں "بستی” نام سے مشہور ہوا اور یہی بستی جدید ہیرونک کی سب سے پہلے آبادکاری تھی۔ اس بستی کو واحد بخش پلکگ سے بھی جانا جاتا رہا ہے۔ بستی کے جنوب میں واقع پرانا تربت کراچی روڑ پر ایک شخص "بی بگر عیسی” نے ریسٹورنٹ کھولا۔ جس کے پاس پانی کا ایک کنواں بھی تھا۔ لوگ یہاں پانی بھرنے کی غرض سے آتے تھے۔ جبکہ بعد میں واحد بخش جن کے نام واحدبخش پلکگ بسائی گئی، نے بھی ایک کنواں کھودا اور ساتھ سیٹھ ہاشم نے بھی کنواں کھودا جہاں سے پانی کی ضروریات کو پورا کیا گیا۔ جب بستی کی آبادی بڑھی تو وہاں "بازار” بنا۔ آہستہ آہستہ”کمبی” نام کا اور دیگر بازار بنے۔ جبکہ جدید ہیرونک میں ظریف بازار کے نام سے بھی ایک بازار بن چکی ہے۔
ہیرونک کے مقامی لوگوں میں کھیلوں کا بھی کافی رجحان پایا جاتا تھا جن میں "پوری” جو ہاکی سے ملتا جلتا کھیل ہے، "جھی” کبڈی سے ملتا جلتا کھیل اور دیگر کھیلیں مختلف ادوار میں کھیلے گئے ہیں۔ جھی کے کھیل میں نوجوان اور بوڑھے حصہ لیتے تھے۔ ہیرونک سے تعلق رکھنے والے ایک پہلوان "یوسف ملا مزار” کا نام قابل ذکر ہے جو "جھی” کے کھیل میں کافی مہارت رکھتے تھے اور انھوں نے علاقے میں اس کھیل کے حوالے سے بہت نام کمایا تھا۔ آج بھی بوڑھے بزگ ان کے کھیل کی تعریف کرتے رہتے ہیں۔
اگر ادب کی بات کی جائے تو "کلو عومر” کا نام مقامی سطح پر مقبول ہے۔ جن کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ایک مزاحیہ شاعر تھے اور جہاں تک راقم کی ذاتی معلومات کا تعلق ہے تو وہ بلوچی زبان کے ایک بہترین مزاحیہ شاعر گزرے ہیں۔ اگرچہ ان کی شاعری مطلوبہ حالت میں میسر نہیں ہے لیکن بہت سارے لوگوں کے پاس ان کی شاعری ابھی بھی محفوظ ہے جیسے شائع کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ قیمتی سرمائے کو ہمیشہ کے لئے ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔
کھجوروں کے باغات مکران کی خاص پہچان ہیں اور ہیرونک بھی اس حوالے سے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ ہیرونک میں کھجوروں کے کئی بڑے باغات ہیں لیکن سب سے پرانے باغ کا تعین کرنا بھی آسان نہیں۔ اس وقت کے بزرگ ترین شخص واجہ معیار کے مطابق "زیک” نامی باغ جس کے "پیڑ ناہ” ( پہلے پکنے والی کھجور کی قسم جسے مقامی لوگ سب سے پرانا کھجور کا درخت تصور کرتے ہیں) قد میں سب سے بڑے تھے اس لئے ہیرونک کا پہلا کھجوروں کا باغ زیک ہے۔
زیک کے نزدیک "گندآپ” میں آج سے تقریبا پچیس سال پہلے کھجوروں کے کچھ مزید باغات بھی موجود تھے جو پانی کی کمی کی بنا پر ختم ہو چکے ہیں۔ یہ باغات گچکی سرداروں کی ملکیت تھے جو بعد میں ان کے نگرانی کرنے والوں کو تفویض کر دیئے گئے تھے۔
ہیرونک میں بلوچوں کے مختلف ذیلی قبیلے آباد ہیں جن میں کلگی، سامی بلوچ، کہدائی، گورنگ زئی، سوپک، گچکی، کونڈو، کٹوار، اسکانی، جاموٹ، سنگر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
سامی بلوچ اور کلگی بلوچ چونکہ شاہد علاقے کی نسبت رکھے نام ہیں اور بزرگ محمد ولد لقمان کے مطابق یہ دونوں رند قبائل سے تعلق رکھتے ہیں البتہ ان کے ذیلی قبائل کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
اسی طرح گورنگ زئی بھی کوئی ذیلی قبیلہ نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر ملازئی بلوچ ہیں اور یہ لوگ پنجگور تسپ سے کسی زمانے میں ہیرونک آکر آباد ہوئے تھے۔ اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگ آج بھی پنجگور تسپ شہر میں آباد ہیں۔ ہیرونک میں ملازئی تسپ میں اپنے رشتہ داروں کو جانتے ہیں۔
"سوپک” ساسولی قبائل سے تعلق رکھتے ہیں اور جو قلات ڈیویڑن سے ہیرونک آکر آباد ہوئے تھے۔
"جاموٹ” جو کہ ہوت قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور بیلہ سے ہیرونک آکر آباد ہوئے تھے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر اور انتہائی مثبت کی بات ہے کہ مندرجہ بالا تمام قبائل اپنی ذیلی شاخ کے بجائے خود کو "بلوچ” کہلوانا ذیادہ پسند کرتے ہیں۔
تاریخی حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مقامی لوگوں کے پاس نایاب نوادرات ایسی ہیں جو کافی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان نوادرات میں ریاست قلات کے سکے، مہریں، اور برتن بھی شامل ہیں۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ سکے اور مہریں قلات محمود خان کے زمانے کی ہیں جو ریاست قلات کا بادشاہ تھا۔ برتنوں کے حوالے سے مقامی لوگوں کے موقف مختلف ہیں اور ان کے مطابق یہ برتن شاہد سندھ، انڈیا یا ریاست قلات سے لائے گئے تھے۔
ہیرونک میں بجلی کا نظام 1997 میں لایا گیا تھا۔ ہیرونک میں PTCL فون منظور گچکی نے اپنے پارٹی ورکر عبدالغفور واحدبخش کو تحفے کے طور پر منظور کرایا۔ 2001 میں ٹیلی فون کے کنکشن صرف ساٹھ گھروں میں تھی۔
1998 کی مردم شماری میں ہیرونک کی کل آبادی 5290 تھی۔ 2729 مرد اور 2561 خواتین تھے۔
ہیرونک، مکران اور بلوچستان کی تاریخ انتہائی دلچسپ ہیں۔ مورخین کو چاہئے تاریخ پر مزید تحقیقات کرکے آنے والے نسلوں کے لئے بلوچ ارتقاء کو سمجھنے کے لئے اپنی خدمات سرانجام دیں۔