انصاف کہاں ہے؟

تحریر: انورساجدی
پاکستان کی تاریخ میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان بہت گزرے ہیں لیکن جنکو یاد کیا جاتا ہے ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے ایسے جج صاحبان میں جسٹس کارنیلس جسٹس ایم آر کیانی،جسٹس صفدر شاہ،جسٹس دراب پٹیل،جسٹس بھگوان داس اور جسٹس وقار سیٹھ خاص طور پر قابل ذکر ہیں جنہوں نے کوئی دباؤ قبول نہیں کیا کوئی ڈکٹیشن نہیں لی اور قانون اور انصاف کے مطابق فیصلے کئے
لیکن سب سے زیادہ جس جج کو یاد رکھاجاتا ہے وہ ہے جسٹس منیر انہوں نے اپنے متنازع فیصلہ کے ذریعے تاریخ کا دھارا بدل دیا اگر وہ مولوی تمیز الدین خان کی پٹیشن پر سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ نظریہ ضرورت کے تحت رد نہ کرتے تو تاریخ مختلف ہوتی
عہد حاضر میں وقار سیٹھ کے علاوہ اور کوئی منصف نظر نہیں آتا۔
ایک سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی کافی یاد کیاجاتا ہے ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ڈکٹیشن کے بغیر کوئی فیصلہ لکھتے نہیں تھے حتیٰ کہ وہ سیاست میں بھی ملوث ہوگئے2018ء کے انتخابات میں انہوں نے ووٹ ڈالا تو یہ ظاہر کرنا مناسب سمجھا کہ انہوں نے تحریک انصاف کوووٹ دیا ہے موصوف نے ایک متحرک سیاسی کارکن کی طرح کام کیا ذہین اتنے تھے کہ آخری عمر کی زاد راہ کا بندوبست کرنے کیلئے ایک دن اچانک ڈیم بنانے کا اعلان کیا اس مقصد کیلئے انہوں نے ایک فنڈ بھی قائم کیا وہ کئی ممالک گئے اور ڈیم فنڈز اکٹھا کیا لیکن عوام نے انہیں زیادہ پذیرائی نہیں بخشی آنریبل جج اتنے طرفدار تھے کہ سندھ کے وزیر شرجیل میمن،ضیاؤ الدین اسپتال میں زیر علاج تھے ان کے کمرے پر خود چھاپہ مارا اور دعویٰ کیا کہ وہاں سے شراب کی بوتل برآمد ہوئی ہے بھلا یہ کوئی چیف جسٹس کے کرنے کا کام تھا وہ علاقہ ایس ایچ او کو چھاپہ مارنے کا حکم دے سکتے تھے نہ صرف یہ جب انہوں نے سنا کہ سائیں سکندر جتوئی کا صاحبزادہ شاہ رخ لانڈھی جیل میں بند ہے تو ایک دن جیل کے اندر ان کے کمرے پر چھاپہ مارا اور ہدایات جاری کیں کہ قتل کے ملزم کو سہولیات نہ دی جائیں پانامہ سے لیکر اقامہ تک انہوں نے بڑے کارنامے انجام دیئے۔
انکے پیش او افتخار محمد چوہدری تھے کوئٹہ سے وکالت کا آغاز کیا نواب صاحب کی روز قدم بوسی کرتے تھے آخر کار ایڈووکیٹ جنرل کا عہدہ حاصل کیا کیونکہ اس کے بغیر آگے نہیں جاسکتے تھے ان کا خاندان ہریانہ سے لائل پور آیاتھا پنجاب کے سابق وزیراور مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر رانا ثناء اللہ ان کے سگے کزن ہیں لیکن ایک بھائی چوہدری اور دوسرا رانا ہے جنرل پرویز مشرف نے چوہدری صاحب کو بلاکر حکم دیا تھا کہ وہ مستعفی ہوجائیں ورنہ ان کے خلاف رمس کنڈکٹ پر ریفرنس دائر کیاجائیگا چونکہ بلوچستان کی روایات سے واقف تھے اس لئے آمر کے سامنے سرنڈر کرنے کی بجائے ڈٹ گئے جب اسلام آباد کے ججز کالونی میں ان کا گھیراؤ کیا گیا بال کھیچے گئے تو وہ بلوچستان ہاؤس میں گھس گئے اسی کو جائے پناہ بنایا مشرف کے زوال کے بعد پیپلزپارٹی نے انہیں عہدے پر بحال کیا لیکن وہ مسلم لیگ ن کا کارکن بن گئے وہ آئے دن سوموٹو لیتے تھے اور حکومت کو چلنے نہیں دیتے تھے یوسف کی مہربانی کا یہ صلہ دیا کہ انہیں عدالت بلاکر توہین عدالت پر وزارت عظمیٰ سے برخاست کردیا موصوف نے بلوچستان کا نمک کھایا تھا لیکن اس نمک کا کوئی بھی حق ادا نہیں کیا ان کا مشہور کارنامہ وہ سوموٹو تھا جو انہوں نے اداکارہ عتیقہ اوڈھو کیخلاف لیا تھا ان سے ایئرپورٹ پر مشروبات کی دوبوتل برآمد ہوئی تھی حالانکہ وہ ایکسائز کے عملے کو کارروائی کا حکم دے سکتے تھے وفا کا یہ عالم تھا کہ نواب بگٹی کو آمر پرویز مشرف نے شہید کردیا لیکن وہ تعزیت کیلئے بھی نہیں گئے ان کے دور میں مسنگ پرسنز کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی لیکن کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا بلوچستان کا نام سنتے ہی ان کے قلم کی سیاسی خشک ہوجاتی تھی
ایک چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ تھے حلف اٹھانے کے بعد اعلان کیا کہ ان کی رگوں میں بلوچ خون ہے اس لئے وہ حق وانصاف پرمبنی فیصلے کریں گے لیکن جلد ان کا بلوچ خون ٹھنڈا ہوگیا ان کے دور میں ایک بڑا کیس آرمی چیف کی توسیع کا آیا لیکن انہوں نے آئین کے مطابق فیصلہ کرنے کی بجائے یہ بارپارلیمنٹ پر ڈال دیا اور پارلیمنٹ نے نہایت خشوح وخضوع کے ساتھ ایکسٹیشن کی منظوری دیدی اس طرح توسیع جو پہلے ایک روایت تھی اس کی آئینی گنجائش پیدا ہوگئی کئی جماعتوں نے انکار کیا لیکن مسلم لیگ ن نے نہایت خاموشی کے ساتھ اس کے حق میں فیصلہ کیا حالانکہ یہ جماعت مسلسل غیر جمہوری ردیوں اور فیصلوں کیخلاف تحریک چلارہی تھی یہ توتھے ماضی کے قصے لیکن عالمی رپورٹوں کے مطابق پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جج صاحباب کیلئے مختص مراعات کے حوالے سے یہ دسویں نمبر پر ہے لیکن انصاف کی فراہمی کے لحاظ سے یہ120نمبر پر ہے بتایاجاتا ہے کہ اس وقت21لاکھ مقدمات زیرالتوا ہیں اگر یہ بات درست ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس ریاست میں عام آدمی کے ساتھ کبھی انصاف نہیں ہوسکتا اس کے برعکس سیاسی نوعیت کے مقدمات کی نہ صرف جلد شنوائی ہوتی ہے فیصلے بھی جلد ہوجاتے ہیں عام لوگ سالہا سال سے عدالتوں کا چکر لگارہے ہیں لیکن شنوائی کی نوبت نہیں آتی سوشل میڈیا پر یہ تبصرہ دیکھنے کو ملا کہ پاکستان میں انصاف کے حصول کیلئے سونے کی چابی چاہئے کیونکہ عدالت کے دروازے اسکے بغیر نہیں کھیلتے بڑے بڑے نامور وکلا لاکھوں اور کروڑوں میں فیس لیکر نہ صرف مقدمات کی جلد شنوائی کا بندوبست کرتے ہیں بلکہ اپنے موکلین کو ریلیف بھی دلاتے ہیں۔
ویسے تو غریب عوام کا سارے ملک میں ایک ہی حال ہے لیکن بلوچستان جس طرح دیگر معاملات میں نظرانداز ہے انصاف کے معاملہ میں کوسوں دور ہے یہاں پر بڑے بڑے سانحات واقعات ہوئے لیکن کسی کا بھی نوٹس نہیں لیا گیا جس کی وجہ سے یہ وسیع وعریض علاقہ مسلسل انسانی المیوں کی آماجگاہ ہے بلوچستان کے نمائندوں نے صوبائی اسمبلی سے لیکر پاکستان کی پارلیمنٹ تک ہر جگہ آواز بلند کی لیکن ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی مسنگ پرسنز کے لواحقین نے کوئٹہ سے اسلام آباد اور کراچی تک پیدل مارچ کیا لیکن انہیں انصاف نہیں ملا اس صوبہ میں بنیادی حقوق کا ریکارڈ بھی انتہائی افسوسناک ہے ہیومن رائٹ کمیشن آف پاکستان کی رپورٹوں سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں پر انسانی حقوق کا کیا حال ہے۔
نوازشریف کے دور میں جب سی پیک کا اعلان ہوا تو عمومی خیال یہی تھا کہ ترقی کا جو نیا دور شروع ہورہا ہے اس میں بلوچستان کے مفلوک الحال عوام کو کچھ نہ کچھ بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں گی مگر افسوس کہ ہورہا ہے اس کے برعکس سی پیک کے روٹ پر انسانی حقوق کی پامالی روز کا معمول بن چکی ہے حتیٰ کہ گوادر جو کہ سی پیک کا محور ہے اور جس کا ساری دنیا میں چرچہ ہے وہاں کے لوگ بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں کچھ عرصہ ہوا کہ گوادر میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے ایک تحریک کا آغاز ہوا جس نے اپنا چارڈآف ڈیمانڈ بھی مرتب کی جس کے تمام مطالبات آئین کے دائرے کے اندر ہیں لیکن حکومت سنجیدگی سے ان مطالبات پر غور کرنے سے انکاری ہے۔کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں جماعت اسلامی پر یقین نہیں ہے لیکن مولانا ہدایت الرحمن کی باتوں میں سچائی جھلکتی ہے زبردست دھرنا اور بڑی ریلی کے بعد انہوں نے کفن پوش دھرنا دیا ہے بہتر ہوگا کہ مولانا جماعتی وابستگی ترک کرکے انسانی حقوق کی تحریک کا دائرہ پورے صوبے تک پھیلائیں گوکہ یہ بہت مشکل کام ہے اور اس کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں آئیں گی حتیٰ کہ حکومت طاقت کا استعمال بھی کرے گی لیکن عزم راسخ ہوتو اچھے نتائج کی امید ہے ریاست کی دوغلی پالیسی تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ مختلف سلوک اور بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک سے اچھی طرح واضح ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو برابر کا شہری نہیں سمجھا جاتا ہے یہاں پر جائز مطالبات کو بھی مسترد کرکے طاقت استعمال کی جاتی ہے اگر گوادر کے شہری ایک بوند پانی کو ترس رہے ہیں یا ریاست انہیں بجلی ایندھن اور اشیائے خوردونوش کی فراہمی سے قاصر ہے تو لوگ احتجاج نہ کریں تو اور کیا کریں مولانا ہدایت کی تقاریر پر جوش مگر احتیاط سے عاری ہیں انہیں چاہئے کہ وہ عمل زیادہ کریں جذبات سے کام کم لیں شائد جماعت اسلامی سے وابستگی کی وجہ سے ان کے ساتھ وہ سلوک نہ کیاجائے جو عام لوگوں کے ساتھ کیاجاتا ہے لیکن یہ عارضی تحریک نہیں ہے اسے جاری رہنا چاہئے اور اس کیلئے مناسب حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے انصاف کے حصول کیلئے اعلیٰ عدلیہ کو بھی بلوچستان کے لوگوں کی حالت زار کا نوٹس لینا چاہئے کیونکہ چیف جسٹس نے ورشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں ہے وہ آزادانہ فیصلے کررہے ہیں اور ڈکٹیشن نہیں لیتے عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے حوصلہ افزا باتیں کی ہیں لیکن جو تصویر علی کرد نے دکھائی وہ کافی مختلف ہے جس کا ذکر اطہرمن اللہ نے بھی کیا۔علی کرد نے اپنے روایتی آنشین خطاب سے ریفرنس میں آگ لگادی ان کا کہنا تھا کہ ایک شخص22کروڑ عوام پر حاوی ہے انہوں نے کہا کہ انلکچوئل کلاس اور مڈل کلاس ختم ہوچکی ہے ہمارے اوپر بہت چھوٹے چھوٹے لوگ مسلط کئے گئے ہیں ریفرنس میں شریک اہم شخصیات مسلسل علی کرد کی باتوں کا جواب دیتے رہے لیکن کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔