اٹھارویں ترمیم, سندھ حکومت اور ملیر کی عوام

تحریر ریاض بلوچ
کراچی جو آج بے ہنگم ٹریفک شوروغل کاروباری مراکز صنعتی علاقوں اور کنکریٹ سے بنی عمارتوں کا شہر نظر آتا ہے, جہاں پاکستان کے مختلف علاقوں سے اپنے بچوں کے لئے روزی روٹی کمانے کے لئے محنت مزدوری کرنے والے محنت کشوں کے ساتھ ساتھ, ملکی و غیر ملکی منشیات فروش, ڈکیت, اسمگلر اور مختلف مافیاز کے لوگ رہتے ہیں.کراچی جہاں کچھ عرصہ قبل خوف کی حکمرانی تھی, بوری بند لاشوں اور ٹارگٹ کلنگ میں بیگناہ لوگ مارے جاتے تھے وہ کراچی اپنی تاریخ کے ایک بہت بڑے حصے میں امن, بھائی چارے محبت خوشحالی اور سبزہ زار کھیتوں پر مشتمل ماحولیاتی آلودگی سے پاک ماحول کی بھی علامت رہی ہے.کبھی یہ شہر مختلف قبائل کے دور دور آباد گوٹھوں اور سمندر کنارے آباد مچھیروں کی چھوٹی بستیوں پر مشتمل ایک پر سکون شہر تھا. جہاں میدانی علاقوں اور خاص طور پر ملیر کے علاقے میں کلمتی, جوکھیہ,گبول اور دیگر قبائل کے لوگ کھیتی باڑی اور گلہ بانی کرتے اور سمندری علاقوں میں رہنے والے جت,جاموٹ اور مختلف بلوچ قبائل ماہیگیری اور سمندری بیوپار کرکے اپنا گذر بسر کرتے تھے.
میدانی علاقوں میں خاص طور پر ملیر اپنے لہلاتے کھیتوں اور باغات کی وجہ سے خوشحال تھا بلکہ اپنے صحت بخش ماحول کی وجہ سے مشہور تھا. اس وقت کے حکیم و طبیب اپنے مریضوں کو صحتیابی کے لئے ملیر میں کچھ دن قیام کرنے کا مشورہ دیتے تھے. سندھ کے مشہور تاریخ دان پیر علی محمد راشدی اور حسام الدین راشدی نے اپنی سندھی تصانیف اھی ڈینھن اھی شیھن اور اھی ڈوتھی اھی ڈینھن میں اس صحت بخش ماحول و پرسکون کراچی کا ذکر بڑے خوبصورت الفاظ میں کیا ہے.ایسی خوبصورت اور خوشحال دھرتی پر مشکل وقت بھی آتے رہے اْس وقت کے زورآور حملہ آوروں نے کراچی کی دھرتی کو ہتھیانے کی کوششیں بھی کیں. سندھ اور مکران پر قبضہ کرنے والے ہر حکمران نے کراچی میں آباد قبائل کو زیر کرنے کی کوشش کی جن میں سے کچھ کامیاب ہوئے اور کچھ نے اپنے آرزؤں کی ارتھی اْٹھائی اور اپنے دل میں دفن کرکے واپس لوٹ گئے.قیام پاکستان کے بعد کراچی سے ہندو, پارسی اور دیگر غیر مسلم کمیونٹیز کے ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا اور انکی جگہ پر ہندستان سے آنے والے مہاجرین آباد ہوئے. جن کو کلیم کے نام پر شہر کی بڑی بڑی عمارتیں اور زمینیں دی گئیں, حکومت کی طرف مختلف کالونیاں بنا کر مہاجریں کو مفت میں دی گئیں, لیکن کراچی کے مقامی قبائل کے گوٹھوں کو مالکانہ حقوق آج تک دستاب نہیں ہیں. بہرحال کراچی کے جس سرسبز حصے کو ملیر کہتے ہیں وہ انہیں قبائل کے پاس محفوظ تھا جو صدیوں سے یہاں آباد تھے. آہستہ آہستہ کراچی کی آبادی بڑھنے لگی اور کراچی کا مرکزی حصہ تنگ ہونے لگا تو ملیر کی زمیں یہاں کے قدیم باشندوں سے چھیننے کی کوششیں شروع ہوئی اور مختلف حکومتی ادوار میں مختلف منصوبے بنا کر ترقی کے نام پر ملیر کی زمین پر قبضہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا. اس کی مختصر مضمون کے زریعے اْس کی مکمل کہانی کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا. اس طویل تاریخ کو چہوڑ کر اگر ہم صرف گذشتہ بیس سال کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں مشرف دور میں کراچی مکمل طور پر ایک لسانی تنظیم کے قبضے میں نظر آتی ہے, اس تنظیم کے کارکن جب چاہے سڑک بند کریں, جب چاہے بازار بند کرائیں, چوراہوں پر سر عام گولیاں چلائیں یا انتخابات کے دوران مخالف امیدوار کے پولنگ ایجنٹ اغوا کریں انکو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا تھا لیکن ایسی آمریت میں بھی لیاری اور ملیر کی عوام انکے سامنے ڈٹی رہی اور یہاں سے کبھی لسانی تنظیم کے امیدوار کامیاب نہ ہوسکے. بلکہ کراچی میں صرف لیاری اور ملیر میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوتے تھے کراچی کے دیگر علاقوں میں لسانی تنظیم اور جماعت اسلامی کے علاوہ پیپلز پارٹی کو ایک کونسلر کی نشست بھی نہیں ملتی تھی.اْس مشکل دور میں ملیر سے پیپلز پارٹی کے رہنما عبداللہ مراد اس لسانی تنظیم کے سامنے سیسہ پلائی کے دیوار کے مانند کھڑے رہے اور پرویز مشرف کے مکمل مدد حاصل ہونے کے باوجود اْس لسانی تنظیم کو ملیر میں داخل ہونے نہیں دیا. لیکن ملیر کے عوام کی بدقسمتی کہیں کہ عبداللہ مراد کو 2004 میں شہید کیا گیا. اس دوران کراچی کراچی میں 12 مئی 2007 کو پیپلز پارٹی اور دیگر تنظیموں کی بلاوے پر سپریم کورٹ کے معزول چیف جسٹس افتخار چودھری کے استقبال کے لئے ملک بھر سے سیاسی کارکن جمع ہوئے تو ان پر لسانی تنظیم کے کارکنوں نے دن دہاڑے فائرنگ کرکے سیکڑوں افراد کو قتل کردیا لیکن اْس حملے کیدوران جو لوگ عبداللہ مراد کے گاؤں صدیق میتگ پہنچے انکو بلوچوں نے پناہ دیکر انکی جان بچائی.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کراچی کیقدیمی باشندوں نے نہ ہر دور میں نہ صرف اپنی سرزمین کی حفاظت کی ہے بلکہ مشرف کے دور آمریت میں کراچی میں پیپلز پارٹی کے وجود کو قائم رکھنے کے لئے قربانیاں بھی دیں. یہ اور بات ہے کہ پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آتے ہی اْس فاشسٹ تنظیم سے مفاہمت کی اور ایک بار پہر انکو کراچی کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا. اقتدار میں شراکت کے باوجود ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی حکومت کے لئے درد سر بنی رہی اور کراچی میں پیپلز پارٹی کے تعینات کئے گئے افسران کے لئے کام کرنا مشکل بنایا گیا. اس کے حل کے لئے ایک بار پہر لیاری اور ملیر کے کچھ نادان و بیروزگار نوجوانوں کو قربانی کا جانور بنایا گیا, انہیں اپنے حقیقی رہنما و راہشون سے الگ کرکے جعلی منشیات فروش سرداروں کے حوالے کیا گیا اور پہر انہیں اپنے مقاصد کے لئے کبھی ایم کیو ایم تو کبھی اے این پی سے دست و گریبان کیا گیا. اس گھناؤنے سیاسی جنگ میں گناہگاروں کے ساتھ کئی ایسے بے گناہ بلوچوں, مہاجر, پختون اور سندھی مزدوروں کی جانوں کا زیاں ہوا جو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے کراچی میں آئے تھے.بھرحال حکمران طبقات کی جنگ جب ختم ہوئی اور آپس میں شیر و شکر ہوئے تو ان آلہ کار بلوچ نوجوانوں کا بھی صفایا کیا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اپنے کمانڈر سردار کو پہچاننے سے انکار کردیا. دوسری طرف ایم کیو ایم بھی اپنی مقررہ حدود سے تجاوز کرنے لگی تو اسکو بنانے والوں نے جس تیزی سے اْسے بنایا تھا اس سے سیکہیں زیادہ پھڑتی سے تقریبن ختم کردیا نتیجہ یہ نکلا کہ اب پیپلز پارٹی کو کراچی میں روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں رہا. اس کے بعد پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو اٹھارویں ترمیم کیزریعے جو قوت میسر ہوئی ہے وہ تمام قوت انہوں نے ملیر کی کی زمین حاصل کرنے اور ملیر کے مقامی قبائل کو زیر کرنے کے لئے آزمانا شروع کردیا. اس دوران سندھ کے حکمران طبقات نے بحریا ٹاؤن کا سہولتکار و وکیل بن کر ملیر کی ہزاروں ایکڑ زمین پر قبضہ کیا, مزاحمت کرنے والوں کو راؤ انوار کے زریعے حراسان کرنا روز کا معمول بن گیا. بزرگ سیاستدان یوسف مستی خان اپنے چند ہم خیال ساتھیوں کے ہمراہ اندیجینئس رائٹس الائنس کے پلیٹ فارم سے بحریا ٹاؤن اور دیگر بڑے رہائشی منصوبوں کے خلاف مسلسل آٹھ سال سے احتجاج کرتے رہے ہیں, اس کے علاوہ سندھ کی قومپرست جماعتوں نے رواں سال ایک بڑا احتجاج کیا لیکن سندھ حکومت نے الٹا احتجاج کرنے والوں کے خلاف مقدمے دائر کئے. ماما فیض محمد گبول اور جن دیگر مقامی لوگوں نے اپنی زمین فروخت نہیں کی انکی اربوں روپے کی زمین عدلیہ کے حکم کے باوجود ہتہیالی گئی اور سندھ کی اشرافیہ و انتظامیہ نے اس میں کیا کردار ادا کیا وہ اس علاقے کے لوگ ہی جانتے ہیں! ابھی عوام بحریا ٹاؤن سے ہی پریشان تھی کہ گذشتہ سال دسمبر میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملیر ایکسپریس کا سنگ بنیاد رکھا, اس منصوبے کے تحت چھ لین پر مشتمل دورویہ ایکسپرس وے 39 کلو میٹر طویل سڑک قیوم آباد سے شروع ہوکر ملیر کے علاقے کاٹھوڑ تک ملیر ندی کے دائیں کنارے پر تعمیر کیا جا رہا ہے. اس منصوبے سے ملیر کے 24 قدیمی گوٹھ, زرعی زمینیں, باغات اور پانی کے کنوے متاثر ہونے کا خدشہ ہے. مقامی عوام نے ملیر ایکسپریس وے کا نقشہ سامنے آتے ہی احتجاج کیا, اس وقت ملیر کے منتخب نمائندوں سے ملاقات کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ نے ملیر ایکسپریس وے کا روٹ تبدیل کرنے کا اعلان کیا لیکن بعد ازاں دوبارہ وہی متنازعہ روٹ پر کام شروع کیا گیا. جس پر ایک بار پھر عوام کے ساتھ ملیر کے منتخب نمائندوں نے پارٹی کو خط لکھ کر منصوبے سے ہونے والے نقصانات اور مقامی آبادی کی اقلیت میں تبدیل ہونے کا خدشہ ظاہر کیا لیکن سندھ حکومت نے اپنے فیصلہ بدلنے سے انکار کرتے ہوئے کہا روٹ تبدیل کرنے سے سینیب میں مقدمہ دائر ہوگا اس لئے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے. عجیب منطق ہے اسی ملیر میں بحریا ٹاؤن عدلیہ کی کی مقرر کردہ 17 ہزار ایکڑ زمین کی جگہ 55 ہزار ایکڑ سے زائد زمین پر تعمیرات کرتی ہے اور سندھ حکومت اپنی انتظامیہ کے زریعے سرعام اس قبضہ گیریت کو تحفظ دیتی ہے اس پر کوئی مقدمہ دائر نہیں ہوتا لیکن ایک جمہوری حکومت عوامی امنگوں کے مطابق ملیر ایکسپریس وے کا روٹ تبدیل کرنے سے اس اسلئے کتراتی ہے کہ نیب اس پر پر مقدمہ دائر کریگا.

اپنا تبصرہ بھیجیں