واجہ مستی خان کی گرفتاری + آئیں مولانا ہاتھ ملائیں

تحریر: انورساجدی
واجہ یوسف مستی خان اس وقت بہ لحاظ عمر اور تجربہ سینئر ترین بلوچ سیاسی قائد ہیں وہ پیرانہ سالی اور کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود کئی سالوں سے بلوچستان اور کراچی کی بلوچ آبادی کے لئے ناقابل فراموش جدوجہد کر رہے ہیں انہوں نے ملیر کی زمینوں کو ہتھیانے گوٹھوں اور قبرستانوں کو مسمار کرنے والے ارب پتی لینڈ مافیا کے سرغنہ ملک ریاض خلاف انڈیجئس الائنس بنا کر بے مثال جدوجہد کی اسی دوران انہوں نے بلوچ یکجہتی کونسل کے تحت بھی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی گوادر کی انتظامیہ نے واجہ یوسف مستی خان کو گرفتار کر کے اپنی پرانی روایت کو تازہ کیا ہے لیکن بلوچستان کی حکومت واجہ کی قدرو منزلت طویل جدوجہد اور قربانیوں سے آگاہ نہیں ہے اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس نے جلتی ہوئی آگ کو ہوا دی ہے اور اس کا نتیجہ ایک اور مزاحمتی تحریک کی صورت میں نکلے گا۔
واجہ یوسف کا تعارف لکھنا اتنا ضروری نہیں ہے لیکن معلوم ہونا چاہئے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی مصائب و آلام میں گزاری ہے وہ 1975ء میں ڈاکٹر عبدالحکیم لہڑی کے ہمراہ افغانستان گئے اور جلاوطنی کی زندگی گزاری وہ حیدر آباد سازش کیس کے تحت بھی قیدوبند کی زندگی گزار چکے ہیں۔
انہوں نے سیاسی زندگی کا آغاز نیپ سے کیا اور ہمیشہ ثابت قدم رہے انہیں ملیر پر بحریہ ٹاؤن کے قبضہ کے وقت اربوں روپے کی پیشکش کی گئی لیکن اس مرد قلندر نے یہ پیشکش ٹھکرا دی حالانکہ وہ کینسر کے مریض تھے اور باہر جا کر اپنا علاج کروا سکتے تھے لیکن انہوں نے بلوچ قوم کے مفاد کو مقدم رکھا اور شائد لوگوں کو معلوم نہیں کہ یہ سفید ریش بزرگ مالی طورپر بھی بہت کمزور ہیں ایک بڑے کاروباری خاندان کا رکن ہونے کے باوجود وہ علاج کی غرض سے باہر جانے کی پوزیشن میں نہیں کوئی وقت تھا کہ برما کے پورے ملک اور سیاست پر مستی خان خاندان کا راج تھا گورگیج قبیلہ سے تعلق رکھنے والا یہ خاندان برما کی آزادی سے پہلے وہاں گیا تھا اور اسے برما کے چند ایک دولت مند خاندانوں میں شمار کیا جاتا تھا لیکن 1960ء کی دہائی میں وہاں پر مارشل لاء کے نفاذ اور ربڑ کے باغات کو قومی ملکیت میں لئے جانے کے بعد اس خاندان کو واپس کراچی آنا پڑا۔
ایکد فعہ واجہ یوسف نے مجھے بتایا کہ بھٹو صاحب ان کے والد سے ملنے ہمارے گھر آئے تھے انہوں نے واجہ اکبر مستی خان سے کہا کہ آپ یوسف کی باتیں چھوڑیں آپ نے برما میں بڑا اچھا وقت گزارا ہے مستی خان خاندان اور بھٹو خاندان کے طویل تعلقات رہے ہیں لہذا آپ کاروبار کو توسیع دیں میں آپ کی بھرپور مدد کروں گا اس پر یوسف نے کہا کہ بابا اگر آپ نے بھٹو کی مدد لی تو میرا منہ نہیں دیکھو گے ہم مراعات کے عیوض اپنی قوم سے غداری نہیں کر سکتے ہم بلوچوں کے لئے جیئں گے اور انہی کی خاطر مریں گے لیکن سمجھوتہ نہیں کریں گے اس انکار کے بعد بھٹو صاحب نے انتقامی کارروائیاں کیں اگر واجہ یوسف کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ملک ریاض کی پیشکش کے بعد اس کا ایمان ضرور متزلزل ہوتا لیکن وہ ثابت قدم رہے۔
کچھ عرصہ قبل بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام اسلام آباد میں جو کانفرنس ہوئی اس سے واجہ یوسف کا خطاب حقیقت کا آئینہ تھا انہوں نے سیاسی جماعتوں کی جو درگت بنائی ان کے علاوہ اور کوئی لیڈر یہ جرات نہیں کر سکتا تھا۔
حال ہی میں واجہ یوسف گوادر کو حق دو تحریک کے لیڈر مولانا ہدایت الرحمان کی دعوت پر ”گوادر“ گئے غالباً مولانا کو واجہ یوسف کا پس منظر معلوم نہیں تھا اور وہ ان کے جوش خطابت اظہار بیان اور نظریات سے اچھی طرح واقف نہیں تھے اگر ہوتے تو انہیں نہ بلاتے واجہ یوسف کا بنیادی سبجیکٹ بلوچ اور بلوچستان ہے وہ ایک سیاسی اسکالر ہیں انہیں تاریخ اور جیوپولیٹیکل جزئیات کا اچھی طرح علم ہے اس لئے جب وہ گوادر میں خطاب کر رہے تھے تو انہوں نے بلوچ قوم کے پریشان دفتری اوراق کھول کر رکھے اور یاد دلایا کہ الحاق کس طرح ہوا تھا اور اس کے بعد کس طرح مظالم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اس آتشین تقریر کے باوجود یہ توقع نہیں تھی کہ بلوچستان حکومت انہیں اس پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود گرفتار کرے گی گرفتاری بھی بغاوت اور غداری کے الزام میں کی گئی ہے یہ کوئی عام واقعہ نہیں ہے اگر انہیں جلد رہا نہ کیا گیا تو بلوچستان کے اندر شورش کو مزید ہوا ملے گی جس کا فائدہ کم از کم حکومت کو نہیں ملے گا۔
غداری کا مقدمہ مولانا ہدایت الرحمان پر بھی قائم کیا گیا ہے جس کے بعد مولانا کے لئے سنہرا موقع ہے کہ وہ ایک حقیقی قوم پرست رہنماء کے طور پر مزید مقبولیت حاصل کریں۔
میں نے مولانا پر جو کالم لکھا تھا کئی دوستوں نے اس کا گلہ کیا ہے لیکن میری معروضیات ہیں کہ مولانا اگر ایک قومی لیڈر بننا چاہتے ہیں تو ان شرائط کو پورا کریں۔
(1 جماعت اسلامی سے فوری طور پر استعفیٰ دیں اور اعلان کریں کہ ان کا جینا مرنا اپنی سرزمین کے ساتھ ہے اور وہ یہاں کے مظلوم اور مقہور عوام کے حقوق کے حصول کو واحد ہدف بنائیں گے۔
(2میں نے کافی عرصہ پہلے لکھا تھا کہ نام نہاد سیاستدانوں کی ناکامی کے بعد بنیادی حقوق کی بنیاد پر ایک پر امن تحریک کی ضرورت ہے مولانا نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس بنیاد پر تحریک چلا سکتے ہیں ان میں جو صلاحیت ہے باقی لوگوں میں نہیں۔
(3 مولانا کو عوام کے سامنے گلزمین کا حلف اٹھانا ہوگا کہ وہ اپنے مقصد سے کسی صورت میں روگردانی نہیں کریں گے یقین مانیں کہ اس کے بعد جو حمایت انہیں بلوچستان کے طول و عرض سے ملے گی وہ بے مثال ہوگی بے نظیر ہوگی البتہ انہیں بے شمار مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا بڑی بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑے گا جن میں قیدوبند اور زندگی کی بازی بھی شامل ہے۔
(4 مولانا کو ایک چارٹر بنانا ہوگا جس کے تحت ان بلوچستان دشمن اقدامات کو چیلنج کرنا ہوگا جو حکومت اٹھا رہی ہے جس کے تحت وہ نہ صرف ساحل وسائل پر مکمل قبضہ کرنا چاہتی ہے بلکہ مکران ڈویژن اور لسبیلہ میں ڈیموگرافی تبدیل لانا چاہتی ہے۔
(5 اگر اپنی جدوجہد کے دوران مولانا اپنی گلزمین پر فدا ہو گئے تو ان کا شمار بھی بڑے زعما کے ساتھ ہوگا وہ ایک قومی ہیرو بن جائیں گے۔
(6اور آخری بات اگر مولانا نے ایسا کیا تو ہم جیسے لوگ بھی ان کی پیروی اور رہنمائی کو سعادت سمجھ کر قبول کریں گے اور نہ سہی ان کے اسٹیج پر آ کر ان کے نظریات افکار کو تقویت پہنچائیں گے۔
(7 اگر مولانا نے حمل کلمتی کی تابندہ روایت پر عمل کرتے ہوئے ساحل کا دفاع کیا توبلوچستان کی سیاست کا رخ تبدیل ہو جائیگا۔
(8مولانا اعلان کریں کہ وہ پارلیمانی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے اور ان کا مقصد گوادر کی صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کرنا نہیں ہے وہ کسی کو بھی کھڑا کر دیں وہ ضرور کامیاب ہو گا لیکن اپنی زندگی گلزمین کی خاطر واقف کر دیں۔