کچھ سوچنے کی ضرورت ہے دورتلک

تحریر: انورساجدی
کرنے کو باتیں بہت ہیں لکھنے کو مواد بھی کافی ہے لیکن اس وقت ریاست کی جو صورتحال ہے اور سماج زبوں حالی کے جس نہج پر ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ کس مسئلہ کو چھیڑا جائے پاکستان کو درپیش مسائل الگ اور بلوچستان کے جدا ہیں پاکستان کی موجودہ حکومت ملکی تاریخ کی ناکام ترین حکومت سمجھی جارہی ہے جو عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے صرف ڈائیلاگ بازی اور بلندوبانگ دعوے کررہی ہے چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان دنیا کا سستاترین ملک ہے انکشاف سے چند ہفتے قبل عالمی اداروں نے قراردیا تھا کہ پاکستان دنیا کا تیسرا مہنگا ترین ملک ہے جمعہ کو کراچی گرین لائن کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم نے یہ حیرت انگیز دعویٰ بھی کیا کہ ان کی حکومت جو کام کررہی ہے ترقی یافتہ ممالک بھی ایسا کام نہیں کرتے اس پر کیاتبصرہ کیا جاسکتا ہے وزیراعظم کو معلوم نہیں کہ ان کے ناکام دور میں پاکستانی سماج اخلاقی طور پر کن پستیوں میں گرچکا ہے لائل پور میں پانچ خواتین کو دکانداروں نے مل کر بے لباس کردیا کوئٹہ میں جنسی زیادتی اور استحصال کا ایک ہوش ربا اسکینڈل منظرعام پر آیا یہ بلوچستان یونیورسٹی کے اسکینڈل سے زیادہ افسوسناک اور ہولناک ہے اس طرح کے واقعات تواتر کے ساتھ ہورہے ہیں اس کے اسباب وعوامل اور وجوہات توانسانی معاشی اور معاشرتی علوم کے ماہرین ہی بتاسکتے ہیں وزیراعظم نے رواں سال میں ایک وجہ یہ بتائی تھی کہ جب خواتین رزاق برق لباس پہن کر اور پردہ کے بغیر باہر نکلتی ہیں تو سماج پر اس کے اثرات یقینی طور پر مرتب ہونگے۔
معاشرتی خرابیاں جتنی بھی ہوں اس کی سب سے بڑی وجہ کسی بھی حکومت کی نااہلی بیڈ گورننس اور سماج میں ناانصافی اور عدم مساوات کے محرکات کارفرما ہوتے ہیں ایک بات تو عام آدمی اور غیر پڑھا لکھا شخص بھی جانتا ہے کہ جب ملک کے تمام وسائل ایک فیصد نام نہاد اشرافیہ کیلئے وقف ہوں جبکہ99فیصد عوام بھوک افلاس اور بیماریوں کا شکار ہوکر مرنے پر مجبور ہوں تو ایک بغاوت کی کیفیت پیداہوجاتی ہے یہ بغاوت آگے چل کر پوسٹ انارکی اور آخر میں مکمل انار کی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
عمران خان نے اپنے طویل دھرنے کے دوران لوگوں کو روز ان ناانصافیوں سے آگاہ کیا تھا اور انہیں اکسایا تھا کہ وہ حکومت وقت کیخلاف علم بغاوت بلند کریں انہوں نے سول نافرمانی کی تحریک بھی دی تھی جس کا آغاز انہوں نے اپنے بجلی کا بل جلاکر دیا تھا آج وہ بڑے شادان ہیں کہ اوورسیز پاکستانی29ارب ڈالر کی قیمتی زرمبادلہ بھیجتے ہیں لیکن اس وقت انہوں نے ترغیب دی تھی کہ اپنی رقومات بینکنگ چینلوں کے ذریعے نہ بھیجیں عمران خان کے دھرنے میں کئی بار انکے رنگیلے وزیر شیخ رشید نے عوام سے کہا تھا کہ سب کچھ جلادو پارلیمنٹ کو بھی آگ لگادو انہوں نے پارلیمنٹ پر کئی بارلعنت بھی بھیجی تھی اس طرز عمل نے ضرور عوام میں سرایت کرلیا ہوگا نہ صرف یہ بلکہ عمران خان نے عوام کو کافی سارے سہانے سپنے دکھائے تھے لیکن برسراقتدار آنے کے بعد یہ سہانے سپنے ڈراؤنے خوابوں میں تبدیل ہوگئے بیروزگاری بڑھ گئی مہنگائی بڑھ گئی بدامنی بڑھ گئی رشوت پہلے سے زیادہ ہوگئی پچھلی حکومتوں کے دور میں وزراء پردہ کے پیچھے رہ کر ڈاکے ڈالتے تھے لیکن موجودہ عہدمیں دن دہاڑے کسی ڈرخوف اور شرم کے بغیر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں کوئی خوف خدا نہیں کوئی شرف وحیا نہیں غریب کو تاریک راہوں میں دھکیلا جارہا ہے اگرچہ سماج میں بدلاؤ کا ذمہ دار صرف عمران خان نہیں بلکہ حکمرانوں کی وہ پالیسیاں ہیں جو وہ 70سالوں سے چلارہے ہیں ان حکمرانوں نے پاکستان کو ایک غیر حقیقی اورمصنوعی ریاست بناکر چلانے کی کوشش کی ہے انہوں نے اپنے عوام کو جعلی تاریخ اور جعلی نصاب پڑھاکر ایک مصنوعی دنیا میں لے جانے کی کوشش کی ہے سماج کو غیر سیاسی بنانے کیلئے انہوں نے مسلح جھتے تشکیل دیئے مذہبی کارڈ استعمال کیا جہاد کو اپنا کارگر ہتھیار بنایا ضیاؤ الحق نے مجاہدین بنائے بینظیر نے طالبان تخلیق کئے جبکہ ایوب خان نے کشمیر میں جہاد کیلئے مجاہدین کا پہلا دستہ بنایا تھا اور تو اور1948ء میں قبائلی لشکر بھیج کر کشمیر کاچھوٹا سا حصہ حاصل کیا گیا حالانکہ اس وقت اس قفیے کو ختم کیاجاسکتا تھا لیکن اس مسئلہ کو ہمیشہ کیلئے بطور ہتھیار باقی رکھا گیا۔
1970ء میں پہلے عام انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کئے گئے شیخ مجیب کو غدار قرار دے کر انتخابی نتائج مسترد کردیئے گئے یہی ماہ یعنی دسمبر فیصلہ کن ثابت ہوا جب پاکستان ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں دولخت ہوا یہ تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ اقلیت نے اکثریت کو مجبور کیا کہ وہ الگ ہوجائے بنگال کے الگ ہونے کے بعد اس پر کسی ملال افسوس اور پیشمانی کا اظہار نہیں کیا گیا بلکہ ہوجمالو کانعرہ لگاکر سانحہ مشرقی پاکستان کو بھول جانے کی تلقین کی گئی۔
مقام افسوس کہ وہ مائنڈسیٹ جوسقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار تھا وہی نہ صرف قائم ودائم ہے بلکہ آج بھی ملک کے سیاہ وسفید کا مالک ہے اس نے بقیہ پاکستان میں بھی وہی پالیسیاں اختیار کررکھی ہیں جو اس نے بنگالی عوام کے ساتھ روا رکھی تھیں جب انہیں بلوچستان میں ناانصافیوں جبر اور زیادتیاں روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے یہ مشرقی پاکستان نہیں ہے وہاں پر تین اطراف سمندر اور ایک طرف بھارت تھا مغربی پاکستان 2ہزار کلومیٹر دور تھا جنگی رسد کے راستے مفقود تھے لیکن بلوچستان کی تھوڑی سے آبادی کی جرأت نہیں کہ وہ حق مانگنے کے بعد بغاوت کردے اوراگر بغاوت کی جرأت کی گئی تو ان تھوڑے سے لوگوں کو سیدھا کرنا اور صفحہ ہستی سے مٹانا کوئی بڑی بات نہیں اس سلسلے میں جنرل پرویز مشرف نے نواب شہید کے احتجاج پر کہا تھا کہ بازآجاؤ ہم ایسا ہٹ کریں گے کہ آپ کوپتہ نہیں چلے گا یہ1970ء نہیں ہے انہوں نے اپنی طاقت اپنے زعم اور ریاستی دبدبہ کو ثابت کرنے کیلئے ”تراتانی“ کے پہاڑوں پر بمباری کرکے نواب صاحب کو شہید کردیا تھا لیکن اس کے بعد ہوا کیا؟ یہ سب ہی جانتے ہیں جنرل پرویز مشرف جو بستر مرگ پر ایڑیا رگڑ رہا ہے انکا بہیمانہ عمل ریاستی اداروں کے گلے پڑ گیا ہے نواب صاحب کی شہادت نے جلتی چنگاری کو ہوادی تھی جو شعلوں میں تبدیل ہوچکی ہے ہزاروں لوگوں کو لاپتہ کرنے اور مارنے کے باوجود جو ”اپ رائزنگ“ نواب صاحب کے دور میں شروع ہوئی تھی وہ آگے بڑھ رہی ہے آج ساری دنیا جانتی ہے کہ بلوچستان میں کیا ہورہا ہے عالمی میڈیا بھی متوجہ ہے گزشتہ دنوں جب گوادر میں ہزاروں خواتین نے ریلی نکالی تھی تو اس کی تصاویر دنیا کے ہر ملک میں شائع ہوئی تھی گزشتہ روز یعنی جمعہ کو گوادر میں جس طرح ایک لاکھ سے زائد لوگ اکٹھے ہوئے وہ نواب صاحب کے اس نعرے کا ورد کررہے تھے کہ ہم اپنا ساحل آپ کو نہیں دیں گے ہم اپنے وسائل اور ہم اپنی سرزمین جانوں کی قربانی دیئے بغیر یوں آسانی کے ساتھ آپ کی جھولی میں نہیں ڈالیں گے گوادر ریلی میں بزرگ قوم پرست رہنما ڈاکٹرحکیم لہڑی نے بلوچ تحریک کا ایک تاریخی تناظر پیش کیا اور کہا کہ بلوچ دوہزارسالوں سے اپنے وجود بقا سرزمین اور کی جنگ لڑرہا ہے اور آج تک وقت کا جو آمر اور جابر انہیں شکست نہیں دے سکا۔
انہوں نے مولانا ہدایت الرحمن کے بارے میں ایک منطقی بات کی اور کہا کہ ماضی میں بھی بلوچ علمانے قوم کی رہنمائی میں اہم کردارادا کیاہے انہوں نے مولانا محمد عمر اور مولاناعرض محمد کی بات کی ان دونوں عظیم علماء نے الحاق کی مخالفت کی تھی حتیٰ کہ مولانا محمد عمر نے فتویٰ بھی جاری کیا تھا ہماری نئی نسل کومعلوم نہیں کہ یہ دونوں اکابرین کون تھے۔
مولانا عرض محمد جو کہ جے یو آئی رہنما حافظ حسین احمد کے والد تھے چاغی سے تعلق رکھتے تھے اگرچہ وہ نسلی اعتبار سے بلوچ نہیں تھے لیکن انہوں نے بلوچوں کی آزادی اور انگریزوں کیخلاف جدوجہد میں بے مثال کردارادا کیا انہوں نے جامع العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد واپس آکر اعلان کیا کہ وہ تاریخی جغرافیائی اور سماجی اعتبار سے بلوچ ہیں انہوں نے گریشہ میں شادی کی بلوچی زبان اپنائی اور بلوچستان کے طول وعرض میں بلوچستان کی آزادی اور خودمختاری کیلئے جنگ لڑی اسی طرح مولانا محمد عمر پڑنگ آبادی بھی دیوبند کے فارغ التحصیل تھے۔ہندوستان میں وہ مولانا بلوچ کے نام سے مشہور تھے ان کی جائے سکونت مستونگ تھا لیکن بنیادی طور پر درانی تھے انکے صاحبزادہ آیت اللہ مرحوم اپنے نام کے ساتھ درانی لکھتے تھے مولانا محمد عمر نے استعمار کیخلاف وہ جدوجہد کی کہ ان کا نام بلوچ قوم کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائیگا۔
میرصورت خان مری نے انتخاب میں کافی پہلے ایک مضمون لکھا تھا جس کانام تھا ”نیشنل کلرجی“ یعنی ”قومی عالم“ جس میں دونوں مولانا صاحبان کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر حکیم لہڑی نے مولانا ہدایت الرحمن کو بھی اسی ذیل میں شمار کیاہے اور کہا کہ وہ کسی سے بھی کم قوم پرست بلوچ نہیں ہیں ڈاکٹرصاحب کی بات سے کئی لوگ اتفاق کریں گے۔واقعی مولانا نے ایک انقلاب کا آغازکیا ہے لیکن اصل آزمائش یہ ہے کہ وہ اسے کیسے آگے بڑھائیں گے اور اپنی تاریخی جدوجہد کو کس مقام تک لے جائیں گے۔
میں نے مولانا کے سامنے جو معروضات رکھی تھیں میں انہی پر قائم ہوں اگر وہ تاریخ کے موجودہ نازک موڑ پر اگر قوم کی رہنمائی کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی زندگی بلوچستان تحریک کیلئے وقف کرنا ہوگی جس کیلئے انہیں ہر طرح کی جماعتی وابستگی سے بالاتر رہ کر کام کرنا ہوگا اگر مولانا گوادر دھرنے کے بعد کوئٹہ کی جانب ایک لانگ مارچ کااعلان کریں تو ہزاروں لوگ ان کا ساتھ دیں گے اور راستے میں عام بلوچوں کے قافلے شامل ہونگے اور جب یہ دھرنا کوئٹہ پہنچے گا تو انسانوں کے سمندر کیلئے اس شہر میں گنجائش کم پڑے گی چونکہ اس وقت سیاست میں خلاہے سماج میں خلا ہے ناانصافی محرومیاں اور انسانی تضحیک بہت بڑھ چکی ہے تو لوگوں کو ایک نجات دہندہ کی ضرورت ہے اگرمولانا ثابت قدم رہیں تو قیادت ان پر ختم ہوگی وہ اپنے عزائم اور سیاسی نظریات کو واضح کریں تو ایک ایسی تبدیلی کا آغاز ہوگا کہ اس کے بڑے دور رس نتائج برآمد ہونگے۔