بلوچستان اور گوادر کاقضیہ و قصہ کیا ہے؟

عبدالمتین اخونزادہ
ملکی رقبے کا 44 فیصد رقبے کے لحاظ سے ڈیڑھ کروڑ بہادر پختونوں اور بلوچوں کی تاریخی اہمیت کا حامل سرزمین ہے،،جسے وفاق اور مقتدرہ نے کالونی سمجھ کر غربت، محرومی،لاقانونیت اور انسانوں کے درمیان تفریق و تذلیل کے روئیے سے مسموم کیا ہے،،گوادر پاکستان کی اقتصادی شہ رگ بننے کے صلاحیتوں سے مالا مال بندرگاہ اور گیٹ وے کی حیثیت رکھتی ہے مگر فوجی جنتا اورنااہل سیاسی قیادتوں نے اسے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق رکھا گیا تھا؟
مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کی تحریک عوام الناس کی زندگیوں میں ارمانوں و آرزوؤں کی تکمیل کے لئیسنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، اکتوبر نومبر سے شروع ہونے والے عوامی تحریک پر شد و مد سے سخت و سْست رائے کا اظہار ہورہا ہے سب سے زیادہ حساس اور سخت گیر ہمارے نادان دوست قوم پرست جماعتوں کے مایوس کارکنان و دانش ور اور لبرل و سیکولر سوچ کے حامل اچھے و برے شخصیات و لیڈرشپ شامل ہیں ہلکی پھلکی سنگ باری جاری و ساری ہے کہ جناب انور ساجدی صاحب پیرانہ سالی اور احترام و دانش مندی کے باوجود اس میں کھود پڑے اور وہ بھی یکطرفہ طور پر،اس پر مکران کے ساحل سے ایک دانش ور و تجزیہ نگار دوست گلاب بلوچ کی آراء ملاحظہ فرمائیں پھر آگے بڑھتے ہیں,,,,جناب ساجدی صاحب آپ ہماری آواز بھی ہیں اور بزرگ بھی۔۔۔اس طرح مولانا ھدایت الرحمن بھی اس وقت بلوچستان کے مظلوم عوام کی آواز ہیں اور حسین واڈیلا صاحب بلوچ عوام کے بزرگ قومی رہنما۔ آج آپ نے ان دونوں کے بارے میں اپنے کالم میں جو کچھ لکھا اس کے جواب میں چند گزارشات پیشِ خدمت ہیں۔
یہ سچ ہے کہ اس ملک میں براہِ راست یا پھر میڈیا کے ذریعے اسٹبلشمنٹ نے ہر وقت لیڈر پیدا کئے اور ضرورت ختم ہونے کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیئے۔ یہ کام اب بھی جاری ہے۔ مگر آج کل لوگ اخبارات میں دانشورانہ باتوں سے زیادہ زمینی حقائق کو اور اخبار سے زیادہ سوشل میڈیا سے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
آپ نے بحالتِ مجبوری مولانا ھدایت اور حق دو عوامی تحریک کو ناکامی کا لیبل لگا کر قوم کو مایوس کرکے بلوچستان میں ہونے والے اس جبر،ظلم، بربریت اور تذلیل و استحصال کو ہمیشہ ہمیشہ قبول کرنے کے لئے مائل کرنے کی کوشش کی ہے۔
جس تحریک سے مضبوط اور طاقت ور اسٹیبلشمنٹ اور اس کے گماشتے پریشان ہیں، چین جیسے عالمی طاقت اور سی پیک کے انویسٹر روزانہ بنیاد پر وضاحت جاری بھی کرتے ہیں اور مانگتے بھی ہیں، بلوچ کو تاریکی میں رکھنے والے قوم پرستوں پر لرزا طاری ہے،اربوں کمانے والے مافیاز کی نیندیں حرام ہوئی ہیں، اس لئے کہ انہیں اس تحریک کی طاقت اور نتائج کا ادراک ہے۔ سراج الحق کی ایک تقریر اور انور ساجدی کے ایک کالم سے یہ تحریک ختم ہونے والی نہیں ہے۔ اس تحریک کے خلاف لوگ اربوں روپے خرچ کرنے کے لئے تیار بھی ہیں۔
سراج الحق، جماعت اسلامی، قوم پرست پارٹیاں، صحافی،دانشور اور ادیب ایک نہیں ہزاروں ایسے نام ، بلوچ عزت و ناموس اور حقوق کے حصول کے لئے قربان ہیں۔ مگر اس تحریک کو آنچ نہیں آنے دیں گے۔
آپ نے حسین واڈیلا پر بھی طنز کیا۔ حسین واڈیلا نے اچھی طرح اپ کو بھی پڑھا ہے اور مولانا کا بھی مطالعہ کیا ہے وہ آپ کو بھی اور مولانا کو خوب جانتے ہیں۔ شاید آپ کی زندگی کے روز و شب وہاں نہیں گزرتے جہاں حسین واڈیلا اور مولانا ھدایت الرحمن مظلوم بلوچوں کے ساتھ ایک قید خانے میں روز اذیت سے دوچار ہیں۔ آپ کے کالموں سے زیادہ مولانا ھدایت الرحمن کے کندھوں کی اہمیت حسین واڈیلا کے لئے زیادہ ہے۔اس لئے وہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
اگر آپ کو حسین واڈیلا سے ہمدردی ہوتی تو آپ ان کے پارٹی کا ان کے ساتھ ظلم کا تذکرہ کرتے،ان کو نظر انداز کرنے کے قصے چھیڑتے۔۔۔ سینیٹ کی ان ٹکٹوں کی تقسیم پر ماتم کرتے۔۔ سینیٹ،قومی و صوبائی اسمبلیوں میں رہنے والے بلوچستان کی نمائندگی کرنے والوں کا احتساب کرتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔
آپ اپنے قلم سے آج مولانا اور حسین واڈیلا کو حوصلہ دیتے، کیونکہ آپ بلوچ قوم کے عظیم دانشور ہیں۔دانشور قوم کو راستہ دکھاتا ہے، مایوسی کو امید سے بدلتا ہے، بند راستوں سے راہیں نکالتا ہے،حوصلہ دیتا ہے مگر افسوس آپ نے قوم کو پیغام دیا کہ اس تذلیل کو برداشت کرو کچھ نہیں ہونے والا۔
اگر آپ تھک چکے ہو تو کوئی بات نہیں۔ بلوچ نوجوانوں نے شعور کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر آپ انہیں حوصلہ نہیں دے سکتے تو کم سے کم انہیں مایوس مت کریں۔
مجھ سے کہتا ہے کہ سائے کی طرح ساتھ ہوں میں
یوں نہ ملنے کا نکالا ہے بہانہ کیسا!!!!
میرے خیال میں تربت کے اس نوجوان کے احساسات و جذبات جناب ساجدی صاحب کے لئے کافی ہے، میں حسین واڈیلا صاحب کو نہیں جانتا ہوں البتہ چھوٹے قد کے ہدایت الرحمان بلوچ کو خوب جانتا ہوں وہ دھن کے پکے اور مروت سے بھرپور انسان ہیں وہ گوادر کے نواحی قصبے سربندر کے رہائشی ہے اور مچھیرے باپ کے غریب زادے صاحب زادے ہیں ابھی پیچلھے سال ہی ان کے غریب باپ دینا فانی کو چھوڑ کر آخرت سدھار گئے تو ہدایت الرحمان بلوچ کی حالت دیدنی تھی کہ ان کے زندگی کا سرمایہ اور حوصلہ لٹ گیا،گوادر کے عوام بلوچستان میں سب سے زیادہ احساسِ محرومی کے شکار اور بدترین منظر غربت و فقر کے محتاج ہوگئے ہیں اور یہ سب کچھ 1990 اور دو ہزار کے دو عشروں یعنی بیس پچیس سالوں میں ان کے آنکھوں کے سامنے ان کے ساتھ دلفریب وعدے کرنے والے سیاسی جماعتوں و دغاء باز لیڈروں نے کیا ظاہر ہے کہ سول و ملٹری بیوروکریسی ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں ویسے ہی انصاف و ترقی کے بجائے دھوکہ دہی اور کرپشن کے لئے مشہور ہیں مگر سیاسی و سماجی شخصیات اور مذہبی و قبائلی رہنماؤں کے دھول و دجل وفریب سے آج ساحل مکران کے علاقے اور گوادر کی انتہائی کم ترین ابادی یعنی ابھی صرف ایک لاکھ مرد و خواتین اور بچے و بچیاں محفوظ ہونے کے بجائے برباد ہو کر رہ گئے ہیں اس لئے ہدایت الرحمان کے نعرہ مستانہ پر بیک آواز میدان عمل میں کود پڑے ابھی عشق و وفا کے امتحانات سر پر ہیں مسئلہ جماعت اسلامی سے درپیش نہیں ہے
جماعت اسلامی تو مکران کے ساحلی علاقوں اور بلوچستان کی آئینی و قانونی حقوق کی حفاظت کے لئے بھرپور عوامی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے ظلم و استہزاء سے نجات اور انسانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت و تکریم کے لئیعوامی جنگ لڑ رہی ہے،،،
گوادر کی طرح سوئی ڈیرہ بگٹی،ریکوڈک چاغی کے عوام الناس اور لورالائی وہرنائی، چمن،ایران و افغان باڈر پر واقع نصف صوبہ کے عوام مرد و خواتین اور بچے و بچیاں غربت اور بھوک کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں
صوبے کے عوام کے عوام کے لئے صوبائی خودمختاری اور 18 ویں آئینی ترمیم سے آگے بڑھ کر نئے عمرانی و سماجی معاہدے کی ضرورت ہے،کیونکہ عمرانی ارتقاء و فکری شعور کی بیداری کے نتیجے میں روایتی طریقہ کار اور طفلانہ تسلیاں کاریگر نہیں ہے؟
سمندری حیاتیات کی حفاظت اور سلامتی کے ساتھ ساتھ اسے مقامی ماہگیروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے، سندھ بلوچستان فشریز کوآپریٹو سوسائٹی کے فرسودہ اور ظالمانہ طریقے کار کو تبدیل کر کے نئے قوانین متعارف کرا? جائے، جس میں گوادر اور مکران کے ساحلی علاقوں کے عوام کی رائے و تجاویز کو قبول کیا جائے،،بلوچستان کو کالونی سمجھ کر زیر دست رکھنے کے بجائے تعمیری اور مثبت و ثمر بار پالیسیاں تشکیل دینے کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے اور نئے زمانے کے بدلتے ہوئے رحجانات وترجیحات کے مطابق اوپن مکالمہ و ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے۔بلوچ اور پشتون قبائل اور نوجوانوں و بزرگوں کی بات سننے اور قبول کرنے کارویہ و طریقہ کار اختیار کیا جائے بلوچستان یونیورسٹی اور گوادر یونیورسٹی سے لاپتہ طالب علموں کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے،،،بلوچستان حکومت کوریموٹ کنٹرول کرنے کے بجائے جمہوری حکومت کی طرزِ عمل کے مطابق پالیسیاں تشکیل دینے اور تعمیری مباحث و فیصلوں کو فعال کرنے اور آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے جماعت اسلامی نے مولانا عبدالحق بلوچ مرحوم کی قیادت میں مکران کے ساحل اور ریکوڈیک کے سونے کی حفاظت و قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لئے آئینی و دستوری جنگ لڑی ہے،ریکوڈک منصوبے پر غلط معاہدے کے خلاف سب سے پہلے مولانا عبدالحق بلوچ مرحوم نے آواز اْٹھائی،بلوچستان میں سرحدی علاقوں و اندرون صوبے میں چھاؤنیاں تو بن گئی ہیں،؟مگر کارخانوں اور فیکٹریوں کے تعمیر و ترقی اور افغانستان و ایران کے باڈررز پر کاروبار و ٹریڈ کو فعال و متحرک نہیں کرسکتے ہیں،،، جس کے باعث صوبے کے بلوچ و پشتون نوجوانوں میں مایوسی، بے روزگاری اور نفرت و بیزاری بڑھتی جارہی ہیں،اس لئے جناب ساجدی صاحب آپ خاطر جمع رکھیں ابھی مشکل گھڑی میں عوام سے ہمدردی رکھیں جناب یوسف مستی خان صاحب کی طرح جناب سراج الحق صاحب کا بھی شکریہ ادا فرمائے اور اپنے دلائل ہدایت الرحمان بلوچ اور گوادر کی انتہائی مظلومیت کے حامل عوام کو ڈرانے دھمکانے کے بجائے ظالموں اور دھوکہ بازوں کے خلاف استعمال فرمائیں چاہیے اس کا غرور و گھمنڈ آسمان تک بلند کیوں نہ ہو۔۔