حوا کی مجبور بیٹیاں درندوں کی بھینٹ چھڑ رہی ہیں

تحریر :مینا مجید
اکثر ہم فلموں میں دیکھتے تھے کہ پروفشنل ملزم کیسے لڑکیوں کو نوکری کا جھانسا دے کر پھنساتے ہیں اور پھر معصوم لڑکیوں کو مکمل اپنی گرفت میں لینے کے بعد بلیک میل کرتے ہیں اور اپنی من منشا غلط کام میں استعمال کرتے ہیں۔ بلکل ایسی نوعیت کا ایک دل دہلانے والا واقعہ چند دن پہلے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں رونماء ہواہے۔اس واقعہ کی متاثرین دو بہنیں ہیں پروین اور شرین۔ کچھ دن پہلے مزکورہ لڑکیوں کی والدین کو ایک ویڈیوموصول ہوتی ہے جس میں ایک لڑکاان لڑکیوں کے ساتھ ذہنی و جسمانی تشدد کر رہا ہوتا ہے والدین پولیس میں رپورٹ کرتے ہیں۔
دراصل ہدایت اللہ خلجی نامی ایک شخص نے ان لڑکیوں کو نوکری کا جھانسا دے کر چالبازی سے اپنے دام میں پھنسایا اور پھر انکی ویڈیوز بنا کر انکو بلیک میل کرنا شروع کیا اور بد قسمتی سے پچھلے کئی دنوں سے پروین لاپتہ ہے اور پولیس کی رپورٹ کی مطابق وہ افغانستان میں ہے۔
پولیس کی ریڈ سے ہدایت اللہ خلجی توپکڑا جاتا ہے اور گھر کی تلاشی سے کئی لڑکیوں کی نازیبہ فوٹوز،ویڈیوز اور سی ڈی ملتی ہیں یہ اس بات کی واضح ثبوت ہے کہ ہدایت اللہ خلجی نے نا صرف پروین اور شرین کے ساتھ یہ نازیبہ حرکت کی تھی بلکہ یہ ایک پیشہ وارانہ مجرم ہے۔ اور پتہ نہیں کتنی لڑکیوں کی زندگیاں اس درندہ صفت انسان کی بھینٹ چڑھی ہیں۔
اور یہ بات بھی واضح افشاں ہے اس پیمانے کی کہ بڑی سازش و جرم میں وہ اکیلا نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک پوری با اثر گینگ ہے جو اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔
ایسے واقعات ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد میں رپورٹ ہوتے ہیں کئی معصوم لڑکیاں مجبوری میں نوکری کی تلاش میں در در کی ٹوکریں کھاتی ہیں اور پھر غلط ہاتھوں میں چڑھ کر غلط استعمال ہوتی ہیں۔
اس میں ایک حد تک والدین کی بھی غیر ذمہ داری ہے کہ ہمیں اپنے بچوں پر مکمل نظر رکھنی چاہیے بلخصوص لڑکیوں پر اور انکے ساتھ دوستوں سا رویہ بھی رکھنا چاہیے تاکہ وہ بغیر کسی ڈر و خوف کے اپنا ہر مسئلہ والدین سے شیئر کر سکیں اور ایسے واقعات سے بچ سکیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ارد گرد بہت سے سفید پوش بھیڑیے گھوم رہے ہوتے ہیں ایسے جرائم کہیں نا کہیں انہی عزت دار اور شریف لوگوں سے جڑے ہوتے ہیں کیونکہ بیشتر واقعات میں مجرموں کو تحفظ دیتے ہے اور سیاسی طور پر انکی پشت پناہی کرتے ہیں جس سے تمام نظام کمزور ہوتا جا رہا ہے اور جس سے مجرم با آسانی قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔
ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب دور رشوت اور پیسے کا ہے جس میں سب بکتا ہے اور کچھ بھی خریداجا سکتا ہے چاہیے وہ قلم کے فیصلے ہی کیوں نا ہو ں،جہاں قلم بکنے لگے وہ معاشرہ نا انصافی اور ظلم کے شکنجوں میں ہمیشہ جکڑا ہوتاہے۔
یہ واقعہ ایک خطرناک المیہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔بلخصوص بلوچستان کے لیے میں یہ ہرگز نہیں کہوں گی کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے لیکن یہ غیر معمولی ہے کیونکہ باقی صوبوں کی نسبت بلوچستان میں ایسے واقعات بہت کم یا نا ہونے کے برابر ہوتے تھے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قبائلی نظام کی وجہ سے رپورٹ نہیں ہوتے تھے۔
البتہ بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل ہوتا آ رہا ہے لیکن ایسے ویڈیوز اور ایسی نازیبہ حرکات بلوچستان میں کوئی دشمن بھی دشمن کے لیے نہیں سوچ سکتا تھا یہ ہمارے رواج و روایت نہیں ہے۔
لیکن بد قسمتی سے یہ سب ابھی ہو رہا ہے، اب بہت فکر ہونے لگی ہے بیٹیوں کی ماں ہوکر کہ ہمیں اپنی بیٹیوں کو کیسے محفوظ کرنا ہے؟اور انکے لیے ایک ساز گار معاشرہ قائم کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
بحرحال! اس پورے واقعہ کو منظر عام پر لانے کے لیے سول سوسائٹی نے اہم کردار ادا کیا جس میں مختلف شعبہ فکر سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کی با ہمت بیٹیوں اور بیٹوں نے اس واقعہ کو سوشل میڈیا پر نا صرف ہائی لائٹ کیا بلکہ ٹوئیٹر ٹرینڈ اور احتجاج کی شکل میں ارباب اختیار کو مجبور کیا کہ اس واقعہ کا نوٹس لیں اور پروین کو بازیاب کرنے میں اپنے تمام اختیارات کو بروکار لائیں اوراس واقعے میں ملوث تمام لوگوں کو جلد از جلد منظر عام پر لائیں اور ان پر سخت قانونی کاروائی کروائیں۔
کیونکہ جس معاشر ے میں انصاف میں تاخیر ہوتی ہے وہاں مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔۔ہمیں عورتوں کے تحفظ کے لیے بہتر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس میں جنسی زیادتی کرنے والوں کی سزا پھانسی ہو، اور ایسے واقعات میں ملوث اگر“دس لوگوں کو بھی سرئے عام لٹکا دیں پھر دیکھیں کہ اس کی روک تھام ہو سکتی ہے یا نہیں“
اور اگر ہم ریاست مدینہ کے طرز ریاست کی پیروی کر رہیں ہیں تو“ریاست مدینہ میں ایسے مجرموں کا مجرم ثابت ہونے پر سر ئے عام سنگسار کیا جاتا تھا یا کوڑے لگائے جاتے تھے”مجرموں کو بلا تاخیر بر وقت سزا دی جاتی تھی ہمیں زبر جنسی کے واقعات میں جلد سزا سنانا ہوگی تاکہ ایسے درندہ صفت ذہن لوگ معاشرے میں باعث عبرت ہو ں اور ہماری بیٹیاں ایک محفوظ فضاء میں بلا خوف آزاد سانس لے سکیں۔