کچھ خوش الحانی + کچھ خوش گمانی

تحریر: انورساجدی
مریم نواز تین دفعہ وزیراعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی ہیں وہ اس وقت ملک کی مقبول ترین جماعت ن لیگ کی عملی قائد ہیں ان کی عوامی شخصیت کے کئی پہلو ابھی تک عوام سے پوشیدہ تھے مثال کے طور پر لوگ ان کی خوش الحانی سے بالکل واقف نہیں تھے حال ہی میں جب جاتی امراء میں ان کے صاحبزادہ جنید صفدر کی کئی دن تک شادی کی تقریبات منعقد ہوئیں تو اس وقت انکی والدہ محترمہ نے کئی پرسوز نغمے چیڑھے جس سے معلوم ہوا کہ سیاست کے علاوہ موسیقی خاص طور پر انڈین موسیقی سے انہیں خاص لگاؤ ہے انہوں نے جو گیت گائے وہ بھارتی فلموں کے شہرہ آفاق گانے تھے ان کے علاوہ ان کے چچا شہباز شریف اور کزن حمزہ شہباز نے بھی گلوکاری کے جوہر دکھائے میاں شہباز شریف نے البتہ 1960ء کی دہائی کی مقبول فلم ارمان کا ایک گیت سنایا اکیلے نہ جانا غالباً جب یہ گانا ریلیز ہوا تھا تو آتش جوان تھا‘ حمزہ اور خود دولہا جنید صفدر نے بھی لوگوں کو اپنی آوازوں سے محظوظ کیا شریف خاندان چونکہ آباؤ اجداد سے اسکریپ کا کام کرتے تھے لہٰذا اس کاروبار کے حوالے سے مخالفین اسے لوہار کہتے تھے حالانکہ وہ صنعت کار تھے مرحوم حکیم بلوچ نے نواز شریف کے دور اقتدار کو سلسلہ ”آہینہ“ یعنی لوہاروں کے دورسے معنون کیا تھا جیسے کہ سلطنت مغلیہ خاندان غلامان وغیرہ‘ بی بی مریم کے ہندوستانی گیت سن کر مجھے خیال آیا کہ ایک خاتون جو آئندہ چل کر مملکت خداداد کی وزیراعظم بن سکتی ہیں دشمن قرار دیئے جانے والے ملک کے فلمی گیت کسی خوف و خطر کے بغیر گارہی ہیں اگر بلوچستان کا کوئی شخص صرف انڈیا کا نام اپنی زبان پر لائے تو اس پر غداری ”را“ اور بھارتی ایجنٹ کا لیبل چسپاں کردیا جاتا ہے یہی ہے وہ فرق جو اس ملک میں شروع سے ابھی تک روا رکھا جاتا ہے‘ فرق صاف ظاہر ہے کہ اگر ٹی ایل پی لاہور میں 10 پولیس اہلکاروں کو قتل کرے اور جی ٹی روڈ پر سینکڑوں گاڑیاں نذر آتش کرے تو ان کے لئے معافی ہے اس سے معاہدہ کیا جاتا ہے اس کے خلاف مقدمات واپس لئے جاتے ہیں اور جماعت پر پابندی ایک لمحہ میں ختم کی جاتی ہے لیکن اگر بلوچستان کا عالم دین مولانا ہدایت الرحمان بلوچ آئین کے اندر رہ کر اپنے حقوق مانگے تو اس کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کردیا جاتا ہے اگر واجہ یوسف مستی خان ناانصافی ظلم اور جبر کے حقائق بیان کرے تو ان پر بغاوت اور غداری کے مقدمات قائم کئے جاتے ہیں جنرل پرویز مشرف کے دور میں سیالکوٹ کے خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں ایسی تقریر کی کہ آج تک اس کی نظیر نہیں ملتی لیکن انہی خواجہ صاحب کو وزیر دفاع بنایا جاتا ہے۔
ایوب خان کے دور میں میر غوث بخش بزنجو پر غداری کا مقدمہ اس لئے قائم کیا گیا کہ ان کی جیب سے جو کرنسی نوٹ نکلا تھا اس پر کسی نے لکھا تھا
ون یونٹ توڑ دو
2005ء میں نواب اکبر خان نے آئین کے دائرے کے اندر رہ کر مطالبہ کیا تھا کہ بلوچستان کے ساحل وسائل کو یہاں کے عوام کا حق قرار دیا جائے تو ایک سال بعد بمباری کرکے انہیں شہید کردیا گیا۔
حیدرآباد سازش کیس کیا تھا‘ ریاست کے بارے میں الزامات جھوٹے تھے یہی وجہ ہے کہ ضیاء الحق نے برسر اقتدار آکر اس کیس کو ایک سیکنڈ میں ختم کردیا تھا بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان ایک پکے مسلم لیگی تھے قیام پاکستان کی تحریک میں انہوں نے بھرپور حصہ لیا تھا لیکن انہیں اگرتلہ کیس بناکر غدار قرار دیا گیا بعد ازاں ریاست نے انہیں 1970ء کا الیکشن لڑنے دیا جس میں انہوں نے اکثریت حاصل کی جب حکمرانوں نے بنگالیوں کو حکومت دینے سے انکار کیا تو 16 دسمبر کو پاکستان دولخت ہوا۔
اگر دیکھا جائے تو اس وقت بات شیخ مجیب کے چھ نکات اور حیدرآباد سازش کیس سے آگے نکل چکی ہے عوام کی طویل جدوجہد کے بعد یہ ممکن نہ رہا کہ کرنسی نوٹ پر کچھ لکھنے سے کوئی غدار ٹھہرے یا آئینی مطالبات پر مولانا ہدایت الرحمان کو غدار قرار دیکر تختہ دار پر لٹکادیا جائے ویسے خدشہ تو ہے اگر مولانا نے اپنی تحریک کو آگے بڑھایا اور انہوں نے بلوچستان کے سارے وسائل عوام کے حوالے کرنے یا سوئی گیس کی 70 سالہ آمدنی کو واگزار کرنے کی بات کی تو آخری حربہ یہی ہوگا کہ انہیں غیر ملکی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دیکر واجب گردن زدنی ٹھہرایا جائے اگرچہ مولانا کی موجودہ تحریک گوادر سے متعلق چند نکات تک محدود ہے لیکن انہوں نے تحریک کا نام بدل کر اسے بلوچستان تک وسعت دینے کا جو اعلان کیا ہے وہ آگے جاکر حکمرانوں کے لئے قابل قبول نہ ہوگا۔ سیدھی بات یہ ہے کہ مجھے ذاتی طور پر اب بھی مولانا کے حوالے سے خدشات درپیش ہیں اور میرا خیال ہے کہ جماعت اسلامی انہیں بہت دور جانے نہیں دے گی لیکن مولانا نے اپنے حالیہ خطاب میں جن مسائل کا ذکر کیا ہے اگر انہیں باقاعدہ ایجنڈے کی شکل دیدی تو ایک انقلابی ہیجان برپا ہوگا مولانا نے اس خطاب میں لاپتہ افرادپٹ فیڈر کینال کے کمانڈ ایریا میں کسانوں پر ہونے والے مظالم اور گوادر سے کوئٹہ تک ملین مارچ کا جو عندیہ دیا ہے وہ بلوچستان کے مجبور عوام کے لئے مژدہ جاں افزاء کی حیثیت رکھتے ہیں جس دن وہ کوئٹہ میں ملین مارچ لانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ عوامی قوت کا ایسا اظہار ہوگا جو بلوچستان میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا‘ البتہ مولانا کا یہ کہنا خطرناک ہے کہ مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں وہ لانگ مارچ لیکر اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے اور وہاں پہنچ کر حکمرانوں سے پوچھیں گے کہ ہمیں رکھنا ہے کہ نہیں رکھنا اگر رکھنا ہے تو ہمیں عزت و احترام اور برابری کی بنیاد پر حقوق دیں ورنہ صاف صاف کہیں کہ ہم آپ کو رکھنا نہیں چاہتے مولانا کے اس خطاب نے عوام میں زندگی کی نئی لہر دوڑا دی ہے اگر انہوں نے جماعتی وابستگی کو طاق پر رکھ کر آگے چلنے کی کوشش کی تو یہ اندازہ درست ثابت ہوگا کہ حکمرانوں نے گزشتہ مردم شماری میں بے ایمانی سے کام لیکر آبادی کم ظاہر کی ہے اگرڈیڑھ لاکھ کے ضلع گوادر میں سوا لاکھ لوگ جمع ہوسکتے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ آبادی کہیں زیادہ ہے اسے جان بوجھ کر کم دکھایا گیا ہے‘ نہ صرف آبادی کم شمار کی گئی ہے بلکہ رقبہ کے لحاظ سے بھی انصاف سے کام نہیں لیا جارہا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان پاکستان کے کل رقبہ کا 43 فیصد ہے تو رقبہ شمار کرتے ہوئے کشمیر شمالی علاقہ جات اور سابق فاٹا کواکٹھے جاتاہے حالانکہ پاکستان کے جوبندوبستی علاقہ ہے بلوچستان اس کا 50 فیصد ہے‘ ان دنوں ایک تصویر وائرل ہورہی ہے جو سوئی کے ایک شخص کی ہے وہ کہہ رہا ہے کہ لکڑیاں کاٹنے کی وجہ سے اسے سردیوں کے موسم میں بھی گرمی لگ رہی ہے وہ لکڑیاں کاٹنے پر اس لئے مجبور ہے کہ جہاں سے گیس نکلتی ہے وہاں گیس فراہم نہیں کی جارہی‘ کوئی سوچے ظلم زیادتی اور ناانصافی کی کوئی حد ہوتی ہے دنیا بھر میں ناانصافیاں حد سے بڑھ جائیں تو اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکلتا ہے۔
اگر حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو جس طرح پارلیمانی پارٹیاں عوام کی حمایت سے محروم ہوئیں پھر ایسا مرحلہ آجائے گا کہ حالات کو کنٹرول کرنے والا کوئی نہ ہوگا یاد رکھنے کی بات ہے کہ ڈاکٹر مالک کی حکومت آخری سیاسی حکومت تھی چاہے وہ جیسے بھی قائم ہوئی تھی اس کے بعد کوئی سیاسی حکومت نہیں آئے گی بلکہ ایک مصنوعی ہائبرڈ نظام کے تحت ناکام تجربات کا سلسلہ جاری رہے گا‘ ہر چند ماہ کے بعد وزیراعلیٰ تبدیل ہونگے جبکہ کابینہ میں وہی پرانے چہرے نظر آئیں گے ان سے حالات میں کیا بہتری آئے گی کیونکہ گزشتہ کئی برسوں میں ثابت ہوا ہے کہ ایسے لوگوں کو لانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جو ”یس مین“”یس سر“ ”جی سر“ کا کردار ادا کریں یہ دھکا اسٹارٹ نظام بلوچستان کے مسئلہ کو حل کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوگا‘ لاوا مزید ابلے گا تاوقتیکہ پورا آتش فشاں پھٹ جائے حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ 1970ء نہیں ہے یہ ڈیجیٹل دور ہے کوئی ظلم اور ناانصافی عالمی برادری سے چھپ نہیں سکتا اگر کوئی یہ سمجھے کہ طاقت کے بے رحمانہ استعمال اورلاکھوں لوگوں کے قتل عام سے ایک دیرینہ قومی مسئلہ ختم ہوجائے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں‘ باریک بینی سے دیکھا جائے تو حالات تیزی کے ساتھ کروٹ بدل رہے ہیں‘ پرانے قوم پرست اور پارلیمانی سیاست کے علمبردار قوتیں کمزور ہورہی ہیں ہر جگہ سے نئی قیادت کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں وہ وقت دور نہیں جب فاٹا کے ناجائز انضمام کا مسئلہ اٹھے گا‘ ڈیورنڈ لائن اور گولڈ اسمتھ لائن کے قضیے سر اٹھائیں گے اور 15 اگست 1947 کے محضر نامہ کو بنیاد بناکر بلوچستان کے مسئلہ کو حل کرنے کا مطالبہ سامنے آئے گا اس سے کہیں بہتر ہے کہ 18 ویں ترمیم کی روح کے مطابق وفاقی وحدتوں کو وسائل اور اختیارات سونپ دیئے جائیں ورنہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو اسفند یار ولی‘ محمود خان اچکزئی‘ ڈاکٹر مالک اور اختر مینگل اور ان کی سیاست کارگر ثابت نہیں ہوگی۔
اہل بلوچستان سے دعا کی استدعا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کو جماعت اسلامی اپنے نقش قدم پر نہ لے جائے یا مولانا کے جو اپنے سر پر دادشاہ کی علامت سیاہ ذرمال باندھ لیا ہے وہ اس کی حرمت کی پاسداری کریں یہ حریت سرمچاری اور قربانی کی علامت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں