رسیدی ٹکٹ

تحریر: انورساجدی
جب ریلوے کا عروج تھا تو ریل مزدور اپنے مطالبات نظر انداز ہونے پر ایک طریقہ کار اختیار کرتے تھے جس کا نام تھا ”گوسلو“ یعنی آہستہ چلنا ہر کام میں تاخیر سے کام لینا تاکہ انتظامیہ مجبور ہوکر ان کے مطالبات منظور کرے اس وقت پاکستان کے سرکاری ملازمین اسی گوسلو کے طریقہ کار پر کارفرما ہیں باقی ملک میں باالعموم اور صوبہ بلوچستان میں باالخصوص طویل عرصہ سے سرکاری ملازمین ہڑتال اور نیم ہڑتال پر ہیں حتیٰ کہ بڑے افسران بھی اسی رنگ میں رنگ گئے ہیں اعلیٰ بیوروکریٹ احکامات جاری کرتے ہیں لیکن نیچے ان احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوتا اس کی وجہ سے بلوچستان کے سرکاری ادارے ترقیاتی منصوبے اور ان پر عملدرآمد جامد ہوکر رہ گئے ہیں۔
دو روز قبل چیف سیکریٹری بلوچستان نے گوادر میں ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سست روی پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اوپر کے احکامات کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر چیز تاخیر کا شکار ہے نہ جانے یہ فیصلہ کس نے کیا تھا کہ گوادر میں زیرتعمیر پروجیکٹس کے صدر دفاتر کراچی میں ہونے چاہئیں جب دفاتر کراچی میں ہونگے تو گوادر کے پروجیکٹ کیسے چلیں گے۔
بلوچستان میں بیڈ گورننس ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور کوئی بھی حکومت اسے حل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی اس کے اسباب و عوامل تو بہت ہیں لیکن بڑی وجہ اختیارات کی پیچیدگی ہے ظاہری طور پر وزیراعلیٰ اور کابینہ کو جملہ اختیارات حاصل ہیں لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے بلوچستان میں حالیہ ادوار میں جتنے بھی چیف منسٹرز آئے ہیں انہیں کسی بڑے شہر کے میئرکے اختیارات بھی حاصل نہیں رہے اس لئے وہاں پر دو طرح کے فیصلے ہوتے رہے ہیں ایک کابینہ کرتی رہی ہے اور ایک سپرکابینہ، تمام کلیدی فیصلے سپر کابینہ کے ذمہ ہیں اس وجہ سے اکثر وزیراعلیٰ پریشانی اور ابہام کا شکار رہتے ہیں ایک اور وجہ لمبی چوڑی کابینہ کے اختلافات ہیں وزراء میں ہم آہنگی نہیں ہے ہر ایک وزیراعلیٰ کو اپنی طرف کھینچ کر مرضی کے فیصلے کروانے کی کوشش کرتے ہیں آج تک واضح نہیں ہوسکا کہ کابینہ کے اختیارات کیا ہیں؟
بلوچستان کی نسبت باقی صوبوں کے حالات مختلف ہیں لیکن ایک یکسانیت بھی موجود ہوتی ہے مثال کے طور پر پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہیں لیکن وہاں پر تمام فیصلے وزیراعظم خود کرتے ہیں ہر ویک اینڈ پر لاہور جاکر وزیراعظم نئی تقرریاں اور تبادلے کرتے ہیں اسی طرح ترقیاتی منصوبوں کی منظوری بھی وہ خود دیتے ہیں پنجاب میں وزیراعظم کے سوا مرکز کی عمومی مداخلت کم ہے اسی طرح صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ بھی نمائشی ہیں وہاں کے تمام چیدہ چیدہ فیصلے وزیراعظم کی اپنی صوابدید پر ہیں شروع میں سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک ان فیصلوں میں شریک ہوتے تھے لیکن وزیراعظم نے بڑھتے ہوئے اختلافات اور ناپسندیدہ اقدامات کی وجہ سے آج کل پرویز خٹک کو کھڈے لائن لگادیا ہے وہ گھر کے اندر سے بھی کمزور ہورہے ہیں ان کے بھائی لیاقت خٹک انہیں چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں۔
سب سے دلچسپ صورتحال سندھ میں ہے یہاں پر زرداری کی حکمرانی ہے لیکن بعض فیصلے مراد علی شاہ چوری چھپے خود کرتے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں طاقت کے عناصر کی حمایت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے عہدے پر قائم ہیں۔
جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو وہاں پر 1997ء کے بعد سے صورتحال دگردوں ہے چونکہ یہ ایک حساس علاقہ ہے جہاں مرکز کے بہت سارے اسٹرٹیجگ مفادات وابستہ ہیں اس لئے وہاں پر یہ افورڈ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی اڑیل یا سخت گیر قسم کا وزیراعلیٰ آئے وہاں پر مومن قسمکا وزیراعلیٰ درکار ہوتا ہے اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ایک الگ جماعت باپ کے نام سے بنانے کا تجربہ کیا گیاجام کمال خان عالیانی نئے انتظام کے پہلے وزیراعلیٰ تھے وہ باپ پارٹی کی صدارت کے عہدے پر بھی فائز رہے جام صاحب کا تجربہ ناکام رہا اس کی وجہ ان کی اضطراری اور ضدی طبیعت تھی اگرچہ صحیح صورتحال کا ادراک نہیں ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ بعض فیصلوں اور سہولیات کی فراہمی میں انہوں نے تاخیر سے کام لیا ہوگا ساڑھے تین سال برداشت کرنے کے بعد جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو ان کی چھٹی کا فیصلہ کرلیا گیا حالانکہ جام صاحب ڈسپلن کے پابند تھے اور ان کی سخت گیری بھی مشہور تھی اس کے باوجود وہ گڈ گورننس دینے اور ترقیاتی عمل تیز کرنے میں ناکام رہے ان کی جگہ میرعبدالقدوس بزنجو کو لایا گیا ہے وہ نرم طبیعت کے مومن قسم وزیراعلیٰ ہیں لیکن وہ بھی کوئی مثبت تبدیلی لانے میں یقینی طور پر کامیاب نہیں ہونگے کیونکہ انہیں درمیانہ درجہ کی بے لگام بیوروکریسی کا سامنا ہے جو گوسلو کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہے حالانکہ چیف سیکریٹری ایک متحرک افسر ہیں اور انہوں نے کشمیر سمیت کئی علاقوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن بلوچستان میں وہ بھی روایتی سست روی کا خاتمہ نہ کرسکے کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کی بنیادی وجہ بے تحاشہ کرپشن ہے ماضی میں کئی ایسے منصوبے کاغذوں پر بنائے گئے جن کا کوئی حقیقی وجود نہیں تھا لیکن اس ضمن میں کبھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی نیب نے چند کیسز ضرور پکڑے لیکن بیشتر ملزمان بالآخر چھوٹ گئے صوبائی حکومت کا محکمہ اینٹی کرپشن قطعی متحرک نہیں ہے اگرچہ کرپشن کا کوئی رسیدی ثبوت نہیں ہوتا لیکن صاف ظاہر ہے کہ صوبے کا ترقیاتی بجٹ کھربوں میں ہے تو کوئی میگا پروجیکٹ یا عوامی منصوبے کیوں نظر نہیں آتے۔
کرپشن کے مسئلہ پر بلوچستان میں ایک پراسرار خاموشی چھائی ہوئی ہے سب ایک دوسرے کا پردہ رکھ رہے ہیں۔
اگر گورننس ٹھیک ہوتی انتظامیہ متحرک ہوتی تو گوادر جیسے دھرنے کی نوبت پیش نہ آتی انتظامیہ کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ مولانا ہدایت الرحمن کو مسائل کی طرف توجہ دلانے کیلئے ایک ماہ تک روزانہ ہزاروں افراد کو سڑکوں پر لانا پڑا بھلا سارے بلوچستان میں یہ کام کون کرسکتا ہے صوبہ کے بیشتر علاقوں میں لوگ کسمپرسی اور بے چارگی کا شکار ہیں لیکن کوئی توجہ نہیں انتظامیہ حالات کی خرابی کا بہانہ بناکر کافی عرصہ پہلے حکومتی رٹ کو ایک طرف رکھ کر بھول چکی ہے قانون کے نفاذ اور قانون کی حکمرانی نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ہر جگہ اور ہر مقام پر مسلح جتھے اور چھوٹے چھوٹے وار لارڈ پیدا ہوچکے ہیں وہ متوازی حکومت چلاکر عام آدمی کی زندگی اجیرن بنارہے ہیں حتیٰ کہ حکومتی رٹ صوبائی دارالحکومت میں بھی صحیح معنوں میں قائم نہیں ہے کوئٹہ کی گلی گلی میں بدامنی سرایت کرچکی ہے اگر رٹ ہوتی تو طویل عرصہ سے جاری جنسی ہراسانی جنم نہ لیتی اگرایک دارالحکومت سنبھالا نہیں جاتا جہاں قدم قدم پر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود ہیں تو اتنا بڑا صوبہ کیسے کنٹرول میں آئے گا۔
کئی لوگوں کو خدشتہ ہے کہ جام صاحب کی طرح قدوس بزنجو کو بھی ڈیڑھ سال کی باقی ماندہ مدت پوری کرنے نہیں دی جائیگی وزراء کے گروہوں کے درمیان اختلافات سراٹھا رہے ہیں اور آئندہ تین ماہ تک وہی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے جو جام صاحب کے آخری دنوں میں پیدا ہوئی تھی جب کہ بلوچستان کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی اگر حکومت نے ٹال مٹول سے کام لیا تو گوادر جیسے دھرنے دیگر علاقوں میں بھی شروع ہوسکتے ہیں کیونکہ بلوچستان کی خوابدیدہ انتظامیہ کو جگانے کیلئے غیر معمولی احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔
حالات کی سنگینی کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چند سال کے دوران دو معزز اراکین اسمبلی ایوان کے اندر اپنے کپڑے اتار کر بے لباس ہوچکے ہیں لیکن حکومتوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا اس سے بڑھ کر احتجاج اور کیا ہوسکتا ہے بلوچستان کا دیرینہ پیچیدہ اور حل طلب مسئلہ عامیانہ اقدامات کے ذریعے حل نہیں ہوسکتا اس کیلئے مرکز کو سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے خاص طور پر سیاسی جماعت بنانے بگاڑنے اور انتخابات کو کنٹرول کرکے اپنے لوگ لانے کا مسئلہ بند کرنا پڑے گا جب تک بلوچستان کو وفاقی یونٹ سمجھ کر اس کے وسائل اور اختیارات نہیں دیئے جائیں گے کاسمیٹک اقدامات اور طاقت کے استعمال سے یہ مسئلہ زیادہ گھمبیر شکل اختیار کرے گا۔