مولانا کے نام ایک خط

تحریر: منّان صمد
بےباک و حق گو مولانا ہدایت الرحمان!
آپ کا تعلق اُس جزباتی قوم سے ہے جن کیلئے اگر آپ حقِ نعرہ بلند کریں تو آپکو آسمان کی بیکراں وسعتوں میں پرواز کیلئے اُڑا دیتی ہے اور اگر آپ نے یکایک اس قوم کی نمائندگی کچھ مدت کیلئے ترک کرکے اپنی عوامی جدوجہد کو آزمانے کی سعی کی تو یہ قوم دھڑام سے آپ کو زمین پر گرا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ اس قوم میں اعتدال نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے۔ یہ قوم محض لامتنائی بلندی اور پستی کے نہ ختم ہونے والے دائرے میں دھنس کر رہ گئی ہے۔
مزاحمت کی علامت مولانا!
یہ انتہائی مسرت کن امر ہے کہ بلوچستان کی زرخیز سرزمین دنیا کی اُن دھرتیوں میں سے ایک ہے جو قوم پرست بچے، جوان، عورت اور بوڑھوں کے ساتھ ساتھ آپ جیسے ”نیشنلسٹ مولانا“ بھی پیدا کررہی ہے جو اپنی قوم کی رنج و غم، درد و الم، ظلم و جور، مصائب و آلام، سختیوں و رنجشوں اور اذیتوں و ناانصافیوں کو اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا کر مزاحمت کی خوشبو کو دیس کے نگر نگر میں پھیلا رہے ہیں اور اِس مزاحمتی مہک کو قید کرنا اب محال ہوکر رہ گیا ہے۔
نڑر اور بہادر مولانا!
آپ نے گوادر جیسے پورٹ سٹی میں 32 روز بدستور مزاحمت کی خوشبو کو برقرار رکھا، اپنی سرزمین کیلئے اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار رہے۔ اپنی ستم رسیدہ عوام کی خاطر موت کا گلے لگانے کیلئے آمادہ رہے۔ قومی بقا کی تحفظ کیلئے پرسرِپیار رہے۔ حتٰی کہ آپ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، کئی بار آپکو دھمکیاں ملیں، آپکو غداری اور ملک دشمنی کے سرٹیفیکٹ سے بھی نوازا گیا لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ اس قوم نے بدلے میں آپکو فقط ناامیدیوں اور مایوسیوں کے حصار میں رکھا، آپ کے خلاف ہرزہ سرائی کی، آپ پر من گھڑت الزامات کے تیر برسائے، بے جا تنقید اور کردار کشی کی حدیں پار کیں، حیرانگی کی بات یہ ہے کہ آپکے خلاف تخریبی تنقید کی بھٹی اب بھی سلگ رہا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
بےخوف اور دلیر مولانا!
سوشل میڈیا میں وزیراعلٰی بلوچستان قدوس بزنجو کی ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں وہ دھرنے میں شریک چند خواتین اور بچوں میں پانچ پانچ ہزار کے نوٹ تقسیم کررہے ہیں اور صارفین وزیراعلٰی کے اس ذاتی عمل کو حق دو تحریک کے چارٹر آف ڈیمانڈ سے نتھی کررہے ہیں جو ایک غیر ذمہ دارانہ اور غیر سیاسی رویہ ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پیسے بانٹنے کے دوران آپ وہاں کھڑے خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ اس معاملے میں مداخلت نہ کرکے آپ نے دل ہی دل میں شاید وہی سوچا تھا جو ابھی میں سوچ رہا ہوں کہ یہ ہمارے ہی تو ٹیکس کے پیسے ہیں اور اِن پیسوں کو لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اِن پیسوں کو بھکاریوں کی طرح بانٹا جارہا تھا، دراصل دھرنے کے شرکاء کو اپنے ٹیکس و وسائل کے پیسوں کو زبردستی چھین لینا چاہیے تھا۔
باہمت اور بلند حوصلہ مولانا!
ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ”حق دو تحریک“ کی روپ میں جاری احتجاجی دھرنے کے خاتمے پر قوم کی ردِعمل سے آپ کو یاسیت، قنوطیت، بےتکی تنقید، کردارکشی، دشنام طرازی، بہتان تراشی اور لعن طن کے سوا کچھ نہیں ملا اور ہم اس امر سے بھی بخوبی آشنا ہیں کہ باوجود اِن سب کے، آپکی طرف سے مظلوم بلوچوں کی حقوق کی پاسداری کی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے جو انتہائی خوش آئند ہے، ہماری تو آرزو و تمنا یہی ہے کہ آپ کے حوصلے پہاڑ کی طرح بلند رہیں اور اُمید کا چراغ اپنی پوری آب و تاب سے جلتا رہے۔ مولانا! ہمیں آپکی نیت پر رتی بھر بھی شک نہیں، بس بلا روک ٹوک مزاحمت کی مہک کو بکھیرتے رہو اور عوامی جدوجہد کی شمع بجھنے نہ پائے۔
عوامی مسیحا مولانا!
آپ کے مطالبات پر عمل درآمد کیا جائے گا یا نہیں، وہ بعد کی بات ہے لیکن اس سُخن میں کوئی شبہ نہیں کہ گوادر کی کوکھ سے جنم لینے والی آپکی حق دو تحریک نے بلوچستان میں سیاسی فکر اور شعوری بیداری کی ازسرِ نو داغ بیل ڈالی۔ گوادر میں پہلی بار نہ صرف سمندر ٹھاٹیں مار رہا تھا بلکہ عوامی سیلاب کی لہریں بھی بلاجھجک موجزن تھے جس کے باعث مقتدر حلقوں میں خاصی ہلچل برپا تھا اور اُنکی نیندیں حرام ہوچکی تھیں۔ سب سے بڑھ کر اس تحریک کی وجہ سے عالمی سطح پر سی پیک منصوبے کے ترقی کے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور دنیا کے سامنے گوادر کی پسماندگی اور بےبسی کی تصویر مزید نمودار ہوگئی، اس تحریک نے مکران میں خوف و ہراس پر مبنی کھڑی عمارت کو بھی منہدم کرکے مکمل ملیامیٹ کیا اور عوامی مزاحمت کی شاہراہ کو مزید استوار کیا۔
امید کا محور و عزم کا پیکر مولانا!
بلوچستان کے چپے چپے میں حال ہی میں احتجاج کی لہریں تیزی سے دوڑ رہی ہیں، بارڈر برادری، ماہیگیر، طلبا و طالبات، ینگ ڈاکٹرز، محکمہ بلدیہ کے ملازمین، سول سیکریٹریٹ اسٹاف یونین، نصیرآباد کے گرین بیلٹ کے کاشتکار، آواران کے گھریلو خواتین، لاپتہ افراد کے لواحقین سب سراپا احتجاج ہیں۔ آپ سے استدعا ہے کہ اپنی ”حق دو تحریک“ کا دائرہ وسیع کرکے بلوچستان کے ستائے ہوئے تمام مظاہرین کو اپنے ”ملین مارچ“ جیسے آئندہ لائحہ عمل میں شامل کرائیں، اتحاد کا دامن دھام کر ایک باقائدہ منظم شکل میں عوامی طاقت اور پاور شو کا مظاہرہ کریں اور اِس استحصالی نظام کی کھوکھلی جڑوں کو ہمیشہ کیلئے اُکھاڑ کر پھینک دیں۔