مولانا کاسمجھوتہ یاسرنڈر

تحریر: انورساجدی
گزشتہ ہفتہ سفر میں گزرا اس دوران کافی سارے واقعات ہوئے جو ضابطہ تحریر میں نہیں آسکے بلوچستان کے حوالے سے اہم ترین واقعہ ایک ماہ کے کامیاب دھرنے کے بعد مولانا ہدایت الرحمن کا کامیاب سرنڈر تھا ان کے پر امن سرنڈر پر اگرچہ کسی کو اعتراض نہیں لیکن اس سرنڈر کی قدر صرف پانچ ہزار روپے مقرر کرکے انہوں نے گوادر کے عوام کی جس طرح تذلیل کروائی وہ ناقابل برداشت ہے اور جس طرح پیسہ تقسیم کرنے کی تشہیر کی گئی اس سے برا واقعہ حالیہ برسوں میں دیکھنے میں نہیں آیا۔
میں نے تو ساحل کے مسائل کو اجاگر کرنے پر پہلے ہی مولانا کا شکریہ ادا کیا تھا کم از کم دنیا نے دیکھا کہ ساحل بلوچستان کا کیا حال ہے اور وہاں کے لوگ کس طرح کی کسمپرسی اور بے چارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ہوسکتا ہے کہ دھرنے کا جو اسکرپٹ لکھا گیا تھا اس کا کلائمیکس سرنڈر ہو یا درمیان میں آکر اسکرپٹ میں ردوبدل کیا گیا ہو بہرحال مولانا نے بڑی شہرت حاصل کی اور جیسا کہ میں نے لکھا تھا ان کی کوششوں کی منتہا آئندہ سال ہونیوالے عام انتخابات میں حصہ لینا ہے تاکہ لیاری کی طرح ساحل کی نشست جماعت اسلامی کے ہاتھ لگ جائے۔
کوئی دو روز قبل ریٹائر جنرل شعیب نے مولانا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے بلاگر میں بتایا کہ انڈیا اور ”را“ نے بڑا زور لگایا لیکن مولانا نے کسی ملک دشمن کواپنے قریب پھٹکنے نہیں دیا انہوں نے یہ بھی کہا کہ مولانا کے تمام مطالبات آئینی اور جائز تھے جو پورے ہونے چاہئیں اب یہ بات مولانا کو بتانا پڑے گا کہ وہ کونسے عناصر تھے جو انڈیا اور را کے ایجنٹ تھے اور وہ مولانا کی پرامن عوامی تحریک کو ہائی جیک کرنا چاہتے تھے کیونکہ مولانا کے ارد گرد تو گوادر کے شریف اور پرامن سیاسی کارکن تھے البتہ دو بزرگ سیاسی رہنماؤں واجہ یوسف مستی خان اور ڈاکٹرعبدالحکیم لہڑی نے ضرور اسٹیج پر آکر اپنے خیالات کااظہار کیا ان کے سوا تو اور کوئی متنازع لوگ دکھائی نہیں دیئے چونکہ مولانا جماعت اسلامی کے عہدیدار ہیں اس لئے ان کی حب الوطنی پر مہرتصدیق ثبت شدہ ہے جس کی تصدیق ایک ریٹائر جرنیل نے بھی کی ہے ظاہر ہے کہ ایک محب وطن شخصیت کیسے ملک دشمن عناصر کو اپنے قریب آنے دے گا۔
ایک اور واقعہ وہ ویڈیو ہے جس میں دھرنے کے دوران ایک خواتین دیگر خواتین سے دریافت کررہی ہے کہ کیا آپ مولانا کو ووٹ دیں گے کیا آپ جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے جس کا جواب اثبات میں آیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا نے اتنی تگ ودو کیوں کی اور ان کے عزائم کیا تھے بلوچ چونکہ سادہ لوگ ہیں لہٰذا یہ بات طے ہے کہ مولانا آئندہ انتخابات میں ایک مضبوط امیدوار کے طور پر ابھریں گے اول تو ان کی کامیابی کو یقینی بنایا جائیگا تاکہ ساحل بلوچستان ”قومی دھارے“ میں آجائے دوسرا یہ کہ مولانا صرف امیدوار نہیں بنیں گے بلکہ قومی اسمبلی کی نشست پر بھی الیکشن لڑیں گے یہ نشست بڑی کار آمد ثابت ہوگی چاہے مولانا گوادر لسبیلہ کاانتخاب کریں یا کیچ کا کیچ کی نشست زبیدہ جلال کے پاس ہے غالباً یہ سوچ موجود ہے کہ ان کی جگہ کسی محرک قومی اثاثہ کو آگے لایاجائے۔
بہرحال بظاہر تو حکومت نے مولانا کا چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کرلیا ہے صرف ایک مطالبہ کو نظرانداز کیا گیا ہے جولاپتہ افراد کے بارے میں ہے اس مسئلہ کو باہمی رضا مندی کے ساتھ ایک طرف رکھ دیا ہے کہ یہ اتنا ضروری مسئلہ نہیں ہے۔
جہاں تک بلوچستان کے مسئلہ کا تعلق ہے تو یہ نہ پہلے حل ہوا اور نہ آئندہ ہوگا کیونکہ اہل بلوچستان کے لمبے چوڑے مطالبات نہیں ہیں ان کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ بلوچستان کو واگزار کیا جائے یہ بیروزگاری بارڈر کی بندش کدھر آرہے ہو کدھر جارہے ہو شروع کے مسئلے ہیں پہلے دیگر علاقوں میں یہ صورتحال تھی اب یہ گوادر یا پوری ساحلی پٹی تک آگئی ہے اس لئے وہاں کے لوگوں کو زیادہ محسوس ہورہی ہے جبکہ مجموعی طور پر حکومت کی اپنی حکمت عملی ہے اور اسے قطعی پروا نہیں کہ لوگ کیاچاہتے ہیں اور ان کی سوچ کیا ہے صدر عارف علوی نے سی پی این ای کے وفد سے بات چیت کے دوران اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دیا۔
سوال یہ تھا کہ حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کئے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت جارہی ہے تو بلوچستان میں ڈائیلاگ کی اہمیت اور ضرورت سے کیوں انکار کیاجارہا ہے البتہ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ ”ریکوڈک“ آزاد ہوگیا ہے تاہم انہوں نے اس کی تفصیل بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی وفاقی دارالحکومت میں یہ تو کہا جارہا ہے کہ ریکوڈک کے مسئلہ پر پیش رفت ہورہی ہے لیکن جو کچھ ہورہا ہے اسے صیغہ راز میں رکھاجارہا ہے لیز والی کمپنی سے گفت وشنید ہورہی ہے یا ہوچکی ہے البتہ یہ معلوم نہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اس مسئلہ کی دستاویزات پر دستخط فرماچکے ہیں یا اس کی نوبت کچھ عرصہ بعد آئے گی۔
ایک اور بات بھی خاصا پراسرار ہے کہ سعودی عرب نے اچانک مہربانیاں زیادہ کردی ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات بھی کچھ ایسا ہی کرنے والا ہے اس کی کیا وجوہات ہیں ایک دو بڑی شخصیات کے سوا اور کوئی نہیں جانتا البتہ یہ بھی ہنوز ایک سربستہ راز ہے کہ یہ معاملات ن لیگ سے معاملات طے ہونے کے بعد طے ہونگے یا موجودہ دور میں اس کی وجہ ن لیگ کے سپریم لیڈر اور طاقت کے عناصر کے وہ مذاکرات ہیں جو لندن میں جاری ہیں سننے میں آیا ہے کہ نوازشریف پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ اپوزیشن سے مل کر تحریک عدم اعتماد لائیں تاکہ آئندہ انتخابات تک ایک عبوری سیٹ اپ ملک کو چلائے لیکن نوازشریف کا موقف ہے کہ وہ صرف اس صورت میں تعاون کریں گے جب فوری طور پر عام انتخابات کا انعقاد کروایاجائے لیکن اس کی آئینی گنجائش نہیں ہے قبل از وقت عام انتخابات اس صورت میں ہوسکتے ہیں کہ حکومت عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ختم ہوجائے یاوزیراعظم خود اسمبلیاں توڑدیں یہ دونوں کام بظاہر مشکل ہیں نوازشریف ان دنوں روز ملاقاتیں کررہے ہیں تاکہ کوئی راستہ نکل سکے۔
گزشتہ ہفتہ انہوں نے ایک اہم ملاقات پی پی جنوبی پنجاب کے صدر اور سابق گورنر مخدوم احمد محمود سے کی مخدوم صاحب اور نوازشریف لندن کی ایک گلی میں رہتے ہیں اور ہمسائیہ ہیں جس گلی میں یہ لوگ رہتے ہیں وہاں پر انگریز بھی رہنے کا تصور نہیں کرسکتے اس علاقے میں غیر ملکی ارب پتی سابق حکمران اور لوٹ بار کے ذریعے بننے والے نو دولتیئے رہتے ہیں خیرمخدوم احمد محمود تو جدی پشتی رئیس اور بڑے لینڈ لارڈ ہیں ان کا فلیٹ نوازشریف سے کافی پرانا ہے سیاسی مبصرین نے سوال اٹھایا ہے کہ مخدوم صاحب زرداری سے پوچھ کر ملاقات کیلئے گئے ہیں یا یہ انکا ذاتی عمل ہے یہ بھی کہاجارہا ہے کہ ہوا کارخ دیکھ کر ساؤتھ پنجاب کے الیکیٹلز ن لیگ میں جگہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ان کا مستقبل محفوظ ہو جہانگیر ترین بھی کافی دنوں سے لندن میں موجود ہیں وہ مخدوم احمد محمود کے قریبی رشتہ دار ہیں اور دونوں کا جنوبی پنجاب کی سیاسی پر اچھا خاصا اثر ہے اگر مخدوم صاحب نے زرداری کی مرضی سے میں صاحب سے ملاقات کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے عدم اعتماد کے مسئلہ پر بات کی ہوگی اگر وہ خود گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہیں ”بڑوں“ نے ایک پیغام دے کر بھیجا ہے قومی اسمبلی میں پنجاب کی148نشستوں میں سے44کاتعلق جنوبی پنجاب سے ہے اگریہ نشستیں نوازشریف کے ہاتھ لگ جائیں تو وہ آرام وہ اکثریت حاصل کرسکتے ہیں۔
لیکن حالات کا انحصار نوازشریف اور مقتدرہ کے درمیان بات چیت کی کامیابی پر ہے کیونکہ عمران خان یونہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہیں وہ کوشش کررہے ہیں کہ ن لیگ کے صدرشہبازشریف منی لانڈرنگ کیس میں جیل جائیں اس کے علاوہ وہ اہم لابی کو تقسیم کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں یعنی وہ آسانی کے ساتھ ہارماننے والے نہیں ہیں لیکن جب ان پر سے نظر عنایت ہٹ جائے تو وہ فارن فنڈنگ کیس کے ذریعے گھر جاسکتے ہیں جبکہ مالیاتی اسکینڈل اور توشہ خانہ پر ہاتھ صاف کرنے کے معاملات تبدیلی کے بعد سراٹھائیں گے خان صاحب کو بھی شریف خاندان اور آصف علی زرداری کی طرح روز عدالتوں کے دھکے کھانے پڑیں گے اور ان کی باقی ماندہ زندگی پیشیاں بھگتنے میں گزرجائے گی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت معاشی اور معاشرتی حوالے سے کسی قسم کی بہتری آنے کا امکان بہت کم ہے یہاں عدم استحکام آئندہ بھی رہے گا معاشی بہتری کی اس لئے امید نہیں کہ دنیا پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے تیار نہیں ہے جب پیداوار محدود رہے گی تو روز گار پیدا نہیں ہوگا جبکہ ملکی وسائل کا غالب حصہ غیر پیداواری اخراجات پر صرف ہوگا۔
بلوچستان کا مسئلہ جوں کا توں رہے گا اور یہاں پر موجود انسانی المیہ میں اضافہ تو ہوگا لیکن کمی نہیں آئیگی بلوچستان میں حکومتوں کی شکست وریخت اوروزرائے اعلیٰ کی کھلونوں کی طرح تبدیلی کا عمل جاری رہے گا۔
البتہ وقتاً فوقتاً مولانا ہدایت الرحمن جیسے لوگ قسمت آزمائی کیلئے میدان میں آتے رہیں گے تاکہ لوگ بلوچستان کا اصل مسائل بھول کر ان وقتی تماشوں میں مصروف رہیں لگتا ہے کہ باپ پارٹی کے ناکام تجربہ کے بعد آئندہ انتخابات میں مختلف تجربہ کیاجائیگا جو اس وقت نام نہاد قومی جماعتیں ہیں ان کی جھولی بھی خالی جانے نہیں دی جائے گی۔