سیاست میں ہلچل

تحریر: انورساجدی
جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے بی بی شہید کا یہ مقولہ صوبہ پختونخواء کے بلدیاتی الیکشن میں سوفیصد سچ ثابت ہوگیا۔
عمران خان نے مولانا کی جتنی توہین تضحیک اور بے عزتی کی تھی مولانا نے اس کا بدلہ بیلٹ پیپر کے ذریعے لیا عمران خان کی نظروں کے سامنے مولانا کا داماد پشاور شہر کا میئر بن کر نظام چلائیں گے خیر حکومت ان کو چلنے تو نہیں دے گی کبھی فنڈز روک کر کبھی دیگر رکاوٹیں ڈال کر لیکن ایک منتخب نمائندے کو ہٹانا اور کام سے روکنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔
مولانا کے سمدھی سابق سینیٹر جناب غلام علی نے اپنے بیٹے کی مہم کامیابی کے ساتھ چلائی وہ چونکہ ارب پتی ہیں اس لئے دل کھول کر مال خرچ کیا اور نتیجہ کامیابی کی صورت میں ملا پشتونخواء کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج دیکھ کر مبصرین خیال آرائی کررہے ہیں کہ امپائر نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے یا وہ ”نیوٹرل“ ہوگیا ہے گویا امپائر ساتھ نہ ہوں تو کپتان کا ہر جگہ ہر الیکشن میں یہی حشر ہوگا اچھی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے صوبائی اور مرکزی رہنماؤں نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے شکست کیسے تسلیم نہ کرتے جو حشر وفاقی اور صوبائی وزراء کا ہوا ہے وہ نوشتہ دیوار ہے شبلی کوہاٹی پر تو درہ میں لوگوں کے ایک ہجوم نے حملہ کیا پتھر مارے لیکن انہوں نے فائرنگ کا ڈرامہ رچایاانتخابات کے دوران شہد والی سرکار کہیں نظر نہیں آئے انتخابی مہم کے دوران بھی یہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور مولانا کی اتنی توہین کا ارتکاب کیا کہ اس سیثابت ہوتا ہے کہ یہ شخص انسان کم اور حیوان زیادہ ہے تحریک انصاف نے پشاور میں آر اوز کو غائب کروایا تھا لیکن تین مخالف امیدواروں نے اتنے ووٹ حاصل کئے کہ تحریک انصاف اس دھاندلی کے باوجود اپنی ہار کو جیت میں تبدیل نہ کرسکی بتایا جاتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں تحریک انصاف اور اس کی صوبائی حکومت اپنی سٹی کی ناک رکھنے کیلئے ہر حربہ آزمائے گی تاکہ کچھ اضلاع میں اس کے میئر اور چیئرمین آسکیں لیکن کچھ بھی کریں پشاور ہاتھ سے نکل گیا ہے باقی تمام میئر ایک طرف اور پشاور کا میئر ایک طرف نوابشاہ میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے بڑا دعویٰ کیا ہے ان کے مطابق جو لوگ عمران خان کو لائے تھے وہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت فیل ہوگئی ہے آپ لوگ کوئی طریقہ کوئی فارمولہ دیں زرداری کے بقول انہوں نے جواب دیا کہ کوئی فارمولہ وار مولہ نہیں آپ پہلے اس حکومت کی چھٹی کریں اس کے بعد بات ہوگی۔
اگرچہ زرداری کا دعویٰ مشکوک اور سیاسی بھڑک کے زمرے میں آتا ہے اس کی تصدیق تو طاقت کے عناصر ہی کرسکتے ہیں لیکن اگر یہ بات سچ ہے تو عمران خان کو قائل جانا چاہئے کہ مکمل طور پر فیل اور فلاپ ہونے کے بعد وہ رضا کارانہ طور پر استعفیٰ دیں تاکہ ملک میں نئے انتخابات کی راہ ہموار ہوسکے دوسری صورت یہ ہے کہ اپوزیشن وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے اس بارے میں تجویز بلاول بھٹو زرداری نے اس سال کے شروع میں پیش کی تھی لیکن ن لیگ نے وقتی طور پر یہ تجویز رد کردی تھی سنا ہے کہ لندن مذاکرات میں طاقت کے عناصر اور میاں نواز شریف کے درمیان یہی بات چل رہی ہے کہ عمران کو عدم اعتماد کے ذریعے نکالا جائے ان کی جگہ کسی اور شخص کو وزیراعظم بنایا جائے تاکہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے اور نئے انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے لیکن نواز شریف کا موقف ہے کہ کسی عبوری سیٹ اپ لانے یا ان ہاؤس تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے آپ فوری طور پر عام انتخابات کروائیں کیونکہ آئندہ انتخابات تک ملک کی معاشی صورتحال اتنی خراب ہوجائے گی کہ ملک کو ڈیفالٹ کرنا پڑے گا اس اختلاف کی وجہ سے اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا یہ تو معلوم نہیں کہ زرداری سے کوئی رابطہ ہے کہ نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ زرداری کے بغیر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی اسی حوالے سی یہ بات بعید ازامکان نہیں کہ بہ یک وقت نواز شریف اور زرداری سے رابطے چل رہے ہوں اگر امپائر نیوٹرل ہوں اور وہ یہ بات تسلیم کررہے ہوں کہ ہمارا انتخاب غلط ثابت ہوا ہے جس کے ذریعے ملک نہیں چل سکتا تو پھر ٹیم کو بدلنا ناگزیر ہے کپتان چونکہ ضدی طبیعت کے مالک ہیں اس لئے وہ آسانی کے ساتھ ہار ماننے والے نہیں انہیں تین چار”تگڑے“ لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو سیاسی پلاننگ کے ماہر ہیں نئی صورتحال کے مقابلہ کیلئے انہوں نے بھی ضرور کوئی حکمت عملی تیار کرلی ہوگی اگر امپائر نیوٹرل ہوجائیں تو وہ تمام الیکٹیبلز ساتھ چھوڑ دیں گے جو 2018ء کے انتخابات کے موقع پر دیگر جماعتیں چھوڑ کر تحریک انصاف میں آئے تھے لوگوں کو وہ منظر ضرور یاد ہوگا کہ جہانگیر ترین اپنا جہاز بھر بھر کر ایم این اے حضرات کو اسلام آباد لارہے تھے اور تحریک انصاف میں شامل کررہے تھے۔
اگرچہ کپتان نے جہانگیر ترین کے ساتھ وفا نہ کی اور انہیں ناراض کرلیالیکن ان سے اندرکھاتہ ڈیل کرکے نہ صرف نیب سے آزاد کروایا بلکہ حال ہی میں ان کی کھاد کی فیکٹری پر واجب الادا اربوں روپے کے قرضے بھی معاف کردیئے ہیں ایک طرف کپتان روز کہتے ہیں کہ وہ کسی کو معاف نہیں کریں گے کسی لٹیرے کو این آر او نہیں دیں گے لیکن سب کی آنکھوں کے سامنے جہانگیر ترین، خسرو بختیار، پرویز خٹک، عاطف خان اور علیم خان کو معاف کردیا علیم خان نے حال ہی میں ”سماء“ ٹی وی خرید لیا ہے جس کی بدولت وہ اپنا اچھا مستقبل حاصل کرنے کی تگ و دو کررہے ہیں آثار بتا رہے ہیں کہ کپتان کو کئی محاذوں پر گھیرا جارہا ہے ان کے صادق اور امین ہونے کے فیصلے کو بھی چیلنج کردیا گیا ہے کیونکہ کپتان نے اپنی بیٹی ٹیریان کو انتخابی پیپر داخل کرتے وقت چھپادیا تھا جبکہ دونوں بیٹوں کا ذکر موجود ہے فارن فنڈنگ کیس بھی پڑا ہے اگر وہ باز نہ آئے تو اس کیس کے ذریعے ان کی چھٹی ہوسکتی ہے لیکن زرداری کے بقول لانے والوں کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ وہ اس کمبل سے کیسے جان چھڑائیں البتہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ضدی کپتان کو ہٹایا جائے اس مقصد کیلئے سب نے اپنے کندھے مقتدرہ کو پیش کردیئے ہیں نواز شریف نے لمبی چوڑی شرائط سامنے رکھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ آپ نے مجھے بے عزت کرنے کیلئے درجنوں جعلی مقدمات بنوا رکھے ہیں پہلے وہ ختم کوئے جائیں میری باعزت بریت کا بندوبست کیا جائے اس کے بعد ہی وہ تعاون کریں گے البتہ زرداری کی شرائط زیادہ نہیں ہیں انہیں معلوم ہے کہ وہ حکومت قائم کرسکیں یا نا کرسکیں گزشتہ انتخابات کی نسبت انہیں زیادہ کامیاب ملے گی جس کی وجہ سے ان کے بغیر کوئی مخلوط حکومت نہیں بن سکتی البتہ ن لیگ کو یہ توقع ہے کہ وہ مکمل اکثریت حاصل کرے گی پنجاب کی حد تک تو یہ بات درست ہے لیکن سندھ پشتونخواء اور بلوچستان میں ن لیگ کیلئے راستہ ہموار نہیں ہے البتہ ان صوبوں میں ان کے اتحادی کامیاب ہوسکتے ہیں جن کی مدد سے ن لیگ مرکز اور پنجاب میں حکومت تشکیل دے سکتی ہے البتہ ن لیگ سندھ میں جی ڈی اے اور ایم کیو ایم کو ساتھ لیکرپرانی پالیسی دہرائے گی کہ پیپلز پارٹی کو زیادہ اکثریت لینے نہ دی جائے یہ دراصل مقتدرہ کا کافی پرانا پلان ہے جس کے تحت ایک بار جام صادق علی کو وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا تھا دوسری بار پرویز مشرف ارباب غلام رحیم کو لائے تھے دیکھیں زرداری اس آزمودہ پلان کو کس طرح ناکام بنائیں گے البتہ یہ طے ہے کہ تبدیلی واپس جارہی ہے اس کے دوبارہ لوٹ کر آنے کا امکان بہت مدھم ہیں۔
کوئٹہ میں جے یو آئی کے رہبر مولانا فضل الرحمن نے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی سے اہم ملاقات کی ہے اس ملاقات کا مقصد نواب رئیسانی کو جے یو آئی میں شمولیت پر آمادہ کرنا ہے مولانا کی ملاقات سے پہلے جے یو آئی کا ایک وفد نواب صاحب سے ملا تھا جس نے انہیں باضابطہ طور پر پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تھی بظاہر تو نواب رئیسانی شمولیت کیلئے تیار تھے لیکن کچھ تحفظات حائل ہوگئے جن کے دور ہونے کے بعد ان کی شمولیت ممکن ہوگی سیاسی مبصرین نواب رئیسانی کو جے یو آئی میں لانے کے عمل کو مولانا کا سیاسی چھکا سمجھ رہے ہیں کیونکہ ان کے آنے کے بعد وہ وزیراعلیٰ کا اپنا امیدوار میدان میں اتارے گی 1970ء سے ابتک جے یو آئی بیشتر حکومتوں کا حصہ رہی ہے لیکن اس دوران اس نے اپنا وزیراعلیٰ لانے کی کوشش نہیں کی اگر نواب صاحب پارٹی میں آگئے تو پارٹی کا دیرینہ خواب پورا ہوسکتا ہے نواب رئیسانی پیپلزپارٹی کو چھوڑنے کے بعد کسی جماعت میں نہیں گئے حالانکہ کئی جماعتوں نے انہیں شمولیت کی دعوت دی ہے غالباً سردار اختر جان نے بھی انہیں بی این پی میں آنے دعوت دی تھی لیکن وہ کسی جماعت میں نہیں گئے ماضی میں وہ قوم پرستانہ سیاست کرتے رہے ہیں لیکن حالات سے مایوس ہوکر وہ ایک دینی جماعت میں جانے کا سوچ رہے ہیں جو ان کیلئے ایک نیا تجربہ ہوگا البتہ جے یو آئی کو ان کی شمولیت سے اچھی خاصی تقویت مل جائے گی۔