لندن پلان‘اقتدار کے گولو اور بھولو

تحریر: انورساجدی
صوبہ پشتونخوا کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں شکست نے کپتان کو حواس باختہ کردیا ہے ایسا لگتا ہے کہ انکے قویٰ جواب دے گئے ہیں تحریک انصاف کی پوری باڈی تحلیل کردی گئی ہے جب نئے عہدیداروں کا انتخاب ہوگا تو نئے تنظیمی تنازعات کھڑے ہونگے جس سے پارٹی کو نقصان پہنچے گا تحریک انصاف کی اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کیلئے ن لیگ کو نت نئی شرارتیں سوجھی ہیں پارٹی کے چند رہنماؤں نے اچانک میاں صاحب کی واپسی کااعلان کردیا حالانکہ فی الحال ان کی واپسی کا کوئی پروگرام نہیں ہے یہ محض شوشہ فلر اور برسراقتدار جماعت کو پریشان کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے آنا تو میاں صاحب کو ہے لیکن جب اسٹیج تیار ہو استقبال کیلئے میدان خاص طور پر راولپنڈی کامیدان آراستہ ہو تو وہ ضرور آئیں گے لیکن اتنی جلدی بھی نہیں ہے ان کے آنے کا اعلان لندن جاکر خاص پیغام پہنچانے والے سابق اسپیکر ایاز صادق نے کیا ہے انہوں نے شیخی بگھاری ہے کہ وہ خود لندن جاکر میاں صاحب کو لائیں گے کسی نے نہیں پوچھا کہ ابھی تو میاں صاحب نااہل ہیں ان پر کئی مقدمات ہیں کیا وہ انہیں اڈیالہ اٹک اور کوٹ لکپھت جیل کی زینت بنانے کیلئے لارہے ہیں ایسا تو نہیں کہ لاہور یا اسلام آباد ایئرپورٹ سے اترتے ہی وہ سیدھے ایوان اقتدار جائیں گے کچھ عرصہ تو انہیں جیل کی ہوا کھانی پڑے گی جیل کے اندر مچھروں،چھپکلی اور چوہوں سے یارانہ لگانا ہوگا جب اعلیٰ عدالتیں انہیں باعزت بری کرکے مقدمات داخل دفتر کردیں گے تب وہ آزاد فضاؤں میں آسکیں گے اس کے بعد انہیں انتخابات کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا آخر کسی باقاعدہ ٹرانزیشن کے بغیر وہ براہ راست اقتدار میں نہیں آسکتے کیونکہ وہ فوجی جرنیل نہیں نہ ہی وہ آئین کو غلافوں میں بند کرکے شنجوں مارسکتے ہیں اگر وہ آیت اللہ روح اللہ خمینی ہوتے اور لندن سے پرواز کرتے تو لاہور ایئرپورٹ پر لاکھوں لوگ انکے منتظر ہوتے جی ٹی روڈ لوگوں سے بھرا ہوتا تو وہ انقلاب برپا کرسکتے تھے لیکن افسوس کہ وہ خمینی نہیں ہیں چی گویرا نہیں ہیں فڈل کاسترو نہیں ہیں بلکہ وہی میاں صاحب ہیں اور وہ اسی راستے سے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں جو1985ء میں آئے تھے کیونکہ پاکستان میں کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے اگر ان لیگی اس بات پر شادان اورفرحان ہیں کہ ڈیل ہوگئی ہے یا ہونیوالی ہے تو یہ کونسی انقلابی بات ہے اگرڈیل لینی تھی توشروع میں لیتے اتنی خواری نہ اٹھانا پڑتی جیل نہ جانا پڑتا لندن جلاوطن نہ ہونا پڑتا یہ مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے نہ لگانے پڑتے یہ تو معلوم نہیں کہ کوئی ڈیل چل رہی ہے لیکن ن لیگی رہنما اس کے شوشے چھوڑ رہے ہیں غالباً اس کا مقصد اپنے کارکنوں کو حوصلہ دینا اور تحریک انصاف کے مایوس اراکین پارلیمنٹ کو اپنی طرف آنے کی ترغیب دینا ہے اگریہ کوئی سیاسی حربہ ہے تو عدم اعتماد کی تحریک لانے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ حکومت بہت کمزور ہوگئی ہے ہاتھ تھوڑاسا سرکا ہے لیکن مکمل طور پر ہٹانہیں ہے ویسے پاکستانی سیاسی دستور کے مطابق جس کے بھی سر پر سے ہاتھ اٹھالیاجاتا ہے تو پہلے ایک فضا بنائی جاتی ہے افواہیں پھیلائی جاتی ہیں افسانے اورکہانیاں تراشی جاتی ہے میدان صحافت کے کامران خانوں کو سرکش گھوڑوں کی طرح دوڑایاجاتا ہے۔سوشل میڈیا کے شاہ سواروں کواچانک سرگرم کیاجاتا ہے جس سے سیاسی لوگ ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں کہ تبدیلی کافیصلہ کرلیا گیا ہے یہ پاکستانی حکمرانوں کاوطیرہ ہے اور برسوں بیتنے کے باوجود وہ اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لانے پر تیار نہیں کسی بلاگر نے کہا ہے کہ ٹرائیکا تبدیل ہوگیا ہے اس میں اب وزیراعظم شامل انہیں معلوم نہیں کہ درپردہ کیا ہورہا ہے اسی لئے وزیراعظم نے حال ہی میں بے بسی کے عالم میں کہا کہ نوازشریف کی واپسی کیلئے راہ ہموار کی جارہی ہے حکومت کا سربراہ ہونے کے باوجود وہ یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکے کہ کون انہیں واپس لارہاہے۔
جب سردار فاروق احمد خان لغاری بینظیر کو برطرف کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے تو ایوان اقتدار کے ہر شخص کو اس کا علم تھا صرف بینظیر اس سے بے خبر تھیں خیر اس زمانے میں تو آئین کی دفعہ58 2بی موجود تھا جس کے تحت صدر کو حکومت اور اسمبلیاں برخاست کرنے کااختیار تھا لیکن18ویں ترمیم کے بعد کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ وزیراعظم کو برطرف کرکے اسمبلیاں برخاست کرلے لہٰذا یہ ایک مشکل مسئلہ ہے کہ وزیراعظم کو کیسے گھرنہ بھیجا جائے اگر وزیراعظم کو قائل کیاجائے کہ وہ شدید ناکامی کے بعد استعفیٰ دے کر گھر جائیں تو مسئلہ آسان ہوجائے گا اگروزیراعظم اڑ گئے تو عدم اعتماد کے سوا اور کوئی راستہ نہیں یہ بات تو درست ہے کہ طاقت کے عناصر عمران خان کی پشت پناہی سے ہٹ گئے ہیں لیکن انہیں ہٹانے کا طریقہ کار سجھائی نہیں دے رہا آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ اگر ن لیگ ساتھ دے تو عدم اعتماد آسانی کے ساتھ کامیاب ہوسکتا ہے لیکن اس وقت ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہے دونوں اپنے اپنے فائدے کیلئے کام کررہی ہیں یہی وجہ ہے کہ دونوں بی ٹیم کا کردارادا کررہی ہیں ہر ایک کو خوش فہمی ہے کہ آئندہ انتخابات میں کامیابی اسی کے حصے میں آئیگی یا اگرتبدیلی پہلے آگئی تو اقتدار میں اچھا خاصا حصہ ملے گا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک سیاسی اعتبار سے 1990ء کی دہائی میں ہے
وہی کھیل وہی کھلاڑی اور وہی مات دینے والی قوتیں نبردآزما ہیں تین دہائیوں میں جمہوریت پنپ سکی اور نہ ہی پارلیمنٹ مضبوط ہوسکی90کی دہائی میں کھلے عام دھاندلی سے من پسند پارٹی کو کامیابی دلائی جاتی تھی لیکن ڈیجیٹل دور میں نئے طریقہ ایجاد کرلئے گئے ہیں انتخابات خفیہ طریقے سے انجینئر کئے جاتے ہیں اور ان کے ذریعے ایک ہائبرڈ اور کاسمیٹک نظام مسلط کردیا جاتا ہے اس کی جیتی جاگتی مثال2018ء کے انتخابات اور تحریک انصاف کی حکومت ہے لگتا ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا البتہ اس مرتبہ اقتدار کے حصہ دار زیادہ ہونگے مولانا سے وعدہ کیا گیا ہے کہ دو صوبوں کی نصف حکومتیں ان کی نذر کی جائیں گی اس ہدف کو آسان کرنے کیلئے مولانا نے مارچ کے مہینے میں اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا ہے جمعیت اس خوش گمانی میں مبتلا ہے کہ اس مرتبہ کا مارچ کامیاب ہوگا اور مولانا کو سابقہ مارچ کی طرح ناکام لوٹنا نہیں پڑے گا۔آصف علی زرداری اس وجہ سے پریشان ہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا کیونکہ مولانا اوپر کی یقین دہانیوں سے اونچی پرواز کررہے ہیں جبکہ ن لیگ کا خیال ہے کہ ریل کا انجن وہی ہے اور اس کے بغیر ایک قدم بھی آگے بڑھانہیں جاسکتا ن لیگ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک انصاف کو مات دیدی اور عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ تحریک انصاف ملک چلانے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے اس لئے ملک کے نظام اور معیشت کو چلانے کی صلاحیت صرف اسی کے پاس ہے لندن پلان بنانے سے قبل میاں صاحب نے سیاسی مفکرین کی ایک ٹیم کو یہ ذمہ داری سونپ دی تھی کہ وہ پروپیگنڈہ کے ذریعے حکومت کو دوشانے چت کردیں اس کے لئے فضا خود حکومت نے ہموار کی تھی بدترین گورننس تاریخی مہنگائی اور رشوت ستانی نے اس حکومت کو کہیں کا نہیں چھوڑا خود وزیرداخلہ شیخ رشید اعتراف کرچکے ہیں کہ چینی مافیا اور دیگر مافیازیادہ طاقتور نکلے اور حکومت انہیں کنٹرول کرنے میں ناکام رہی لہٰذا اس حکومت کی ناکامی میں اور کیا کسر رہ گئی ہے کہاجاتا ہے کہ معیشت کا اتنا برا حال ہے جو پہلے کبھی نہ تھی حتیٰ کہ1971ء میں ملک ٹوٹنے کے بعد بھی ایسی حالت نہ تھی عمران خان اپنے وزراء پر بھی کنٹرول قائم کرنے میں ناکام رہے کرپشن کے درجنوں اسکینڈل قائم ہوگئے جن سے جان چھڑانا حکومت کے بس کا کام نہیں اسی دوران ن لیگی مفکرین نے یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا ہے کہ اقتدار سے معزولی کے بعد حکومتی اکابرین اور عمران خان کی جگہ مچھ جیل ہوگی ایک بلاگر تو یہ دعویٰ کررہا تھا کہ نئے مہمانوں کی آمد سے قبل مچھ جیل کی صفائی شروع کردی گئی ہے حالانکہ مچھ جیل کو صفائی کی کیا ضرورت ہے البتہ یہ تیاری ضرور کی جاسکتی ہے کہ بیرکوں میں بڑے بڑے چوہے چھوڑے جائیں سانپ اور چھپکلی ڈالے جائیں اور خطرناک مچھروں کا رخ اس جیل کی جانب موڑا جائے اول تو یہ سارے مفروضے اور سیاسی پروپیگنڈے ہیں بالغرض محال اگرکپتان جیسی ہستی وہاں گئے تو اس علاقہ کے سابق ایم پی اے وزیراور قبائلی رہنما گیلو کبھی کبھار ان کی خدمات ضرور سرانجام دیں گے البتہ یونس ملازئی یہ فریضہ انجام نہیں دے سکیں گے جب نواب صاحب وزیراعلیٰ تھے تو گیلو ان کے دائیں طرف اور ملازئی بائیں طرف ہوتے تھے نواب صاحب کہتے تھے کہ
ایک میرا گولو ہے
ایک میرا بھولو ہے
پاکستانی طرز سیاست میں ہمیشہ گولو اور بھولو کی ضرورت ہوتی ہے ہرلیڈر کے پاس یہ مخلوق موجود ہوتی ہے جبکہ حکمران کبھی گولو اور کبھی بھولو کا انتخاب کرتے ہیں۔دیکھیں آئندہ باری نوازشریف کی ہوگی یا زرداری کی یہ فیصلہ ایمپائر نے کرنا ہے اور اس سے پہلے نوازشریف کو اپنا انقلابی بیانیہ دفن کرکے آنا ہوگا اور زرداری کو بھی اینٹ سے اینٹ بجانے جیسی باتیں ترک کرنا ہونگی کیونکہ دلی ابھی بہت دور ہے ایک خودمختار پارلیمنٹ کا قیام اور آئین کی مکمل بالادستی ابھی ایک خواب ہے اور اس کی تکمیل میں کافی عرصہ لگے گا وقت کا ستم ہے کہ کل تک نوازشریف انقلاب لارہے تھے اور آئندہ کل عمران خان انہی کا بیانیہ اپنا کر جی ٹی روڈ کو مرجع خلائق بنائے رکھیں گے وہ بھی پوچھتے پھریں گے کہ یہ میرے ساتھ کیا ہوا مجھے کیوں نکالا لیکن سننے والا کوئی نہ ہوگا یہ کم بخت بھولو اور گولو اقتدار کے چھوٹتے ہی اڑ کرغائب ہوجاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں