ریکوڈک کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے؟

تحریر: انورساجدی
ریکوڈک کی نیلامی یا فروخت ایسا ٹیکنیکل مسئلہ نہیں ہے کہ بلوچستان کے سادہ سے لوگ اسے سمجھ نہ سکیں یہ ایک پیچیدہ سودا ہے اپنی پیچیدگیوں کی وجہ سے اس سودے کو خفیہ رکھا جارہا ہے حالانکہ کوئی بھی سودا کبھی پوشیدہ نہیں رہ سکتا جب دال میں بہت کچھ کالا ہو تو نام نہاد ”قومی مفاد“ کا سہارالے کر چالاکیوں سے کام لیا جاتا ہے اور عوام الناس کو بیوقوف بنانے کیلئے ڈرامے کئے جاتے ہیں ایسا ہی معاملہ ریکوڈک کے مسئلہ پر بلوچستان اسمبلی کا ان کیمرہ یعنی خفیہ اجلاس تھا ماہرین نے وہ اسباب و عوامل اور مجبوریاں بتائیں جس کی وجہ سے یہ قیمتی اثاثہ سے ہاتھ دھونا پڑگئے عام آدمی کی حیثیت سے ہمیں تو علم نہیں کہ حکومت کیا کرچکی ہے اور کیا کرنے جارہی ہے لیکن ہم نے اسی کالم میں کچھ عرصہ قبل ریکوڈک کے اثاثہ کو خداحافظ کہہ دیا تھا حکومت عوام کو اتنا سادہ اور جاہل سمجھتی ہے کہ 65 کے ایوان میں ایک مسئلہ پیش کرکے اسے خفیہ قرار دے رہی ہے اہل بلوچستان کو حکومت کی مجبوریاں اور عالمی دباؤ کا نہ تو علم ہے نہ پروا وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ سونے کی کان فروخت کردی گئی وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس سودے سے بلوچستان خسارے میں رہے گا اور اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا کم از کم حکومت کو بتادینا چاہئے کہ ریکوڈک کو کس کے ہاتھ بیچا ہے آیا اسے عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد پرانی کمپنی کو دیدیا گیا ہے یا کوئی اور فریق بنا ہے۔
اگر پرانی کمپنی کو بیچا گیا ہے تومالیت کیاہے آیا جرمانہ کی ادائیگی کے بعد ریاست کیلئے بھی کچھ بچا ہے کہ نہیں ویسے تو محکوموں کو بھاؤ تاؤ کرنے یا پوچھنے کا حق نہیں ہے لیکن پارلیمنٹ کا حق ہے کہ اسے اعتماد میں لیا جائے اگر پرانی کمپنی سے سودا نہیں ہوا ہے تو تانبے اور سونے کے ذخائر کس کے ہاتھوں میں دیئے گئے ہیں اگر مرکزی سرکار اسے خود چلانے کی اہل ہوتی تو نام نہاد ایٹمی سائنسدان ثمر مبارک مند اسے چلالیتے جو 3 ارب روپے ضائع کرنے کے بعد رفوچکر ہوگئے چند ماہ قبل ایک بڑی کمپنی کیذمہ دار شخص نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ریکوڈک کا منصوبہ روبر عمل لانے کی ذمہ داری دی گئی ہے اس کے بقول مرکزی سرکار اور بلوچستان کی حکومت مل کر اسے چلائیں گے اس مقصد کیلئے ریاست کے بڑے بڑے سیٹھوں کا ایک کنسوریشم بنایا گیا تھا اور کافی سرمایہ اکٹھے کیا گیا تھا البتہ اس بات کو پوشیدہ رکھا گیا تھا کہ جمع شدہ رقم کتنے ارب ڈالر ہے اس دعوے سے قطع نظر ریکوڈک کا معاملہ کافی پراسرار اور پیچیدہ ہے امکانی طور پر بڑی توند والے سیٹھوں نے اتنی رقم نہیں دی ہوگی کہ اس سے 10 ارب ڈالر جرمانہ کی رقم ادا کی جائے اور باقی پانچ ارب ڈالر کے سرمایہ سے اس منصوبے پر کام شروع کردیا جائے۔
ایک اور اہم بات کہ جرمانہ کی رقم بلوچستان پر واجب الادا ہے یا مرکزی سرکار پر اگر بلوچستان اس کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مرکزی سرکار اس کی آڑ میں بلوچستان کے تمام وسائل یہ کہہ کر ہڑپ کرے گی کہ بلوچستان اس کا مقروض ہے یہ رقم چاہئے این ایف سی ایوارڈ سے کاٹ لی جائے یا سوئی گیس کی آمدنی سے بلوچستان برسوں تک قلاش اور سہی دست رہے گا۔
ریکوڈک کے مسئلہ پر جو کھیل کھیلا گیا وہ سمجھ سے بالاتر ہے لیز کی منسوخی سے لیکر افتخار احمد چوہدری کے فیصلہ تک اور پھر مختلف صوبائی حکومتوں کی جانب سے عالمی عدالت میں بددلی سے کیس لڑنے اور بے تحاشہ سرمایہ ضائع کرنے تک جو کچھ ہوا وہ اجتماعی آبروریزی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ماضی میں سیندک کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا آج تک چین نے یہ حساب نہیں دیا کہ وہ کتنا سونا اور کتنا تانبا نکال کر لے جاچکا ہے اور اس کی مالیت کیا ہے کسی میں جرأت نہیں کہ وہ چین سے یہ سوال پوچھ سکے کیونکہ چین ہمارا نیا آقا ہے جو ایک بے رحم ظالمانہ اور غیر جمہوری استعار ہے اس کا ظلم و زیادتی تو ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی سوا ہے چین اپنے سرمایہ کے بل بوتے پر دنیا پھر میں نیو کالونی نظام قائم کررہا ہے اور مختلف ممالک کے وسائل ہڑپ کررہا ہے وہ پہلے سیندک کو ہڑپ کرچکا ہے اور بہت جلد گوادر کو بھی ہڑپ کرے گا یا کم از کم اس کی آمدنی کا حقیر حصہ بھی بلوچستان کے حوالے نہیں کرے گا لگتا ہے کہ ریکوڈک کا مسئلہ بھی سوئی گیس کی طرح ہوگا 1952 میں یہاں سے گیس کی پیداوار شروع ہوئی لیکن آج تک کسی مرکزی سرکار نے یہ نہیں بتایا کہ ان 70 سالوں میں گیس کی کل آمدنی کیا ہوئی ہے بلوچستان پر کتنا خرچ ہوا ہے اور وفاق نے کتنا اپنے پاس رکھا ہے ماضی کے حکمران تواتر کے ساتھ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ بلوچستان معاشی اعتبار سے سہی دست ہے اسے چلانے کیلئے وفاق دل کھول کر امداد دیتا ہے یعنی یہ مرکز کی امداد کے بغیر چل نہیں سکتا پاکستانی تاریخ کے طویل ترین فوجی آمر جنرل ضیاؤالحق کوئٹہ آکر ہمیشہ یہ بتاتے تھے کہ بلوچستان ان کے دل کے بہت قریب ہے اسی لئے وہ اس صوبہ کو چلانے کیلئے دل کھول کر امداد دیتے ہیں لیکن موصوف نے کبھی نہیں بتایا کہ سوئی گیس کی آمدنی کیا ہے؟
این ایف سی ایوارڈ سے قبل وفاق نے کہنا شروع کردیا تھا کہ ڈیرہ بگٹی ضلع میں گیس کے ذخائر ختم ہونے والے ہیں لیکن حالات و واقعات نے ثابت کیا یہ جھوٹ تھا کیونکہ جب بھی نئے کنوؤں کی کھدائی کی جاتی تھی نئے ذخائر دریافت ہوتے تھے جان بوجھ کر ایک پالیسی کے تحت یہ مشہور کیا گیا کہ سندھ میں ذخائر زیادہ ہیں اور انہی سے ملک کی ضروریات پوری کی جارہی ہیں سابقہ ادوار میں دریجی میں احداثیکے دوران گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے تھے لیکن حکومت نے جان بوجھ کر انہیں نہیں نکالا تاکہ بلوچستان اضافی آمدنی کا مطالبہ نہ کرے نہ صرف یہ بلکہ سندھ اور بلوچستان کی حدود کا معاملہ بھی کھڑا کیا گیا تاکہ ذخائر سندھ کی ملکیت میں آجائیں اسی طرح جھل مگسی میں جو ذخائر ملے انہیں بھی ہاتھ نہ لگایا گیا تاکہ حد بندی کا مسئلہ کھڑا کیا جاسکے سارونہ کے ذخائر کو بھی ساتھ پردوں کے پیچھے چھپایا گیا۔
اگر واقعی ریکوڈک کا سودا کیا گیا ہے تو سردار اختر مینگل پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں یہ مسئلہ اٹھائیں سردار طاہر بزنجو سینیٹ میں موجود ہیں اسی طرح وہ بھی وہاں پر داد فریاد کرسکتے ہیں جبکہ ثناء بلوچ کا دعویٰ ہے کہ ہر ملکی و غیر ملکی مسئلہ سے آگاہ ہیں جبکہ وہ اکثر اعداد و شمار بھی پیش کرتے رہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ بلوچستان اسمبلی سے یہ پوچھیں کے دراصل ہوا کیا ہے؟ افسوس کہ معمولی مسائل آسمان سر پر اٹھانے والے ثناء بلوچ صوبائی اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس میں موجود نہیں تھے اگر وہ ہوتے تو کم از کم اصل صورتحال سے اپنی جماعت کو آگاہ کرسکتے تھے اور اس روشنی میں بی این پی مینگل لائحہ عمل بناسکتی تھی۔
دو اورشخصیات پر لازم ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کو بتائیں کہ جب انہوں نے عالمی کمپنی سے مذاکرات کئے تھے تو ان میں کیا ہوا تھا دو سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری نے انگلینڈ اور یورپ جاکر مذاکرات کئے تھے ان مذاکرات کے بعد ریکوڈک لیز پر حاصل کرنے والی کمپنی مقدمہ جیت گئی تھی اس کے ساتھ ہی ایک اور وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کو چاہئے کہ وہ عوام کو بتائیں کہ انہوں نے کن حالات میں ریکوڈک کی لیز کینسل کی تھی آیا یہ کام انہوں نے اپنے طور پر کیا تھا یا کسی دباؤ میں آکر ایسا کیا تھا۔
ایک مطالبہ جام کمال خان عالیانی سے بھی بنتا ہے کہ ان سے ریکوڈک کے بارے میں کیا گفت و شنید ہوئی تھی اور مرکزی سرکاری کا دباؤ کیا تھا۔
سب سے بڑھ کر جناب عبدالقدوس بزنجو اگر ریکوڈک کی نیلامی کی دستاویزات پر دستخط کرتے ہیں تو وہ اس کے مابعد اثرات سے کبھی بری الذمہ نہیں ہونگے کیونکہ بلوچستان کے سب سے بڑے اثاثہ کو تلف کرنا بیچ دینا یا نیلام کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اگر ریکوڈک کو خود چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو عبدالقدوس بزنجو کو بتانا ہوگا کہ وفاق کس بنیاد پر جبکہ 18 ویں ترمیم کے بعد یہ معدنی وسیلہ صوبائی ملکیت ہے ریکوڈک کو اپنے تصرف میں لارہا ہے کیا بلوچستان اسمبلی میں کوئی ایک رکن بھی ایسا نہیں جو شور مچائے کہ بلوچستان کو اس کے حق سے محروم کیا جارہا ہے۔
بے شک وفاق بعض معاملات کی نگرانی کرے لیکن اسے یہ آئینی حق حاصل نہیں کہ وہ ساحل و وسائل کو فروخت کرے بدقسمتی سے ڈاکٹر مالک بلوچ نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ چینی صدر کی اسلام آباد آمد کے موقع پر گوادرکے بارے میں جو معاہدہ ہوا تھا وہ کیا تھا بحیثیت وزیراعلیٰ یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ بلوچستان کے مفاد کو سربلند رکھتے اگران میں مقابلہ کی طاقت نہیں تھی کم از کم اصل صورتحال سے عوام کو آگاہ تو کرتے یہ بات تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ محکوم لوگوں کی آواز سنی نہیں جاتی اور ان کی قیادت کے اندر حوصلہ اور جرأت کی کمی ہوتی ہے لیکن اگر وہ پرامن سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کریں تو ریاست کے اندر دیگر سیاسی قوتیں ان کا ساتھ دے سکتی ہیں مثال کے طور پر ریکوڈک کے مسئلہ کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اٹھایا جاسکتا ہے جہاں نیشنل پارٹی اور بی این پی دونوں موجود ہیں ان جماعتوں کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ کیلئے مصلحت اور جماعتی مفادات کے تابع نہ رہیں بلکہ بلوچستان کے جائز مسائل کیلئے عوام کو متحرک کرنے کی کوشش کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں