بلوچستان کے چوتھے وسیلہ کی نیلامی

تحریر: انورساجدی
ریکوڈک کے بارے میں ان کیمرہ سیشن کے بجائے وزیراعلیٰ کو اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عوام کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا لیکن خفیہ بریفنگ سے خدشات اور تحفظات میں اضافہ ہوا ہے کمپنی بہادر سے مذاکرات تو مرکزی حکومت نے کئے لیکن معاہدہ کا سارا بوجھ ذمہ داری اور اچھے برے نتائج بلوچستان حکومت کے کھاتے میں لکھ دیئے گئے ہیں وزیراعظم کا یہ بیان کہ ریکوڈک کے جرمانہ کیلئے بلوچستان کا مالی بوجھ وفاق برداشت کرے گا ایک خوبصورت مذاق کی مانند ہے کیونکہ بلوچستان کے سب سے بڑے وسیلہ کو مرکز نے خفیہ طریقے سے نیلام کردیا ہے پھر بھی بلوچستان پر احسان جتایا جارہا ہے۔
اگرچہ تفصیلات کو پوشیدہ اور خفیہ رکھا جارہا ہے تاہم سرسری طور پر جو اطلاعات ملی ہیں ان کے مطابق بیرک گولڈ کی لیز بحال کردی گئی ہے اس کے بدلے میں جرمانہ کی رقم وصول نہیں کی جائے گی بظاہر ریکوڈک میں کام کا آغاز بلوچستان مائننگ کمپنی کرے گی تاکہ یہ ظاہر ہو کہ یہ پروجیکٹ حکومت چلارہی ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد منصوبہ لیز مالکان کے حوالے کردیا جائے گا جو نیا معاہدہ طے پایا ہے معلوم نہیں کہ اس میں بلوچستان اور پاکستان کا کیا حصہ رکھا گیا ہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ پاکستانی سیٹھوں سے جو بھاری رقم حاصل کی گئی ہے وہ کس طرح خرچ ہوگی ریکوڈک بلوچستان کا چوتھا بڑا قدرتی وسیلہ ہے جس پر مرکز نے ہاتھ ڈالا ہے پہلا وسیلہ سوئی گیس تھا جسے انگریز کمپنی کے جانے کے بعد مرکزی سرکار نے اپنی تحویل میں لیا تھا‘ 1952ء سے اب تک اس وسیلہ کو اس طرح بے دردی کے ساتھ خرچ کیا گیا جیسے بلوچستان پاکستان کا حصہ نہ ہو نہایت بے رحمانہ طریقے سے کراچی سے لیکر خیبر تک ہر جگہ پر ہر مقام ہر شہر اور ہر گاؤں تک پائپ لائنوں کے ذریعے گیس پہنچائی گئی جبکہ بلوچستان کو اس سے محروم رکھا گیا حالانکہ پائپ لائن کے ذریعے گیس کی ترسیل ایک مہنگا سودا ہے کیونکہ راستے میں گیس کی بڑی مقدار ضائع ہوجاتی ہے دنیا کے بڑے بڑے ممالک بھی اس عیاشی سے پرہیز کررہے ہیں لیکن اگر بلوچستان کی گیس کو بے رحمی کے ساتھ استعمال نہ کیا جاتا تو یہ ملکی ضروریات مزید کئی عشروں تک پورا کرسکتی تھی حکومت کی ظالمانہ پالیسی کی وجہ سے مہنگی ایل این جی درآمد کرنا پڑرہی ہے‘ سیاسی اعتبار سے زبوں حال ریاست اس کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اربوں ڈالر کی گیس منگوائے‘ ریکوڈک کے سروے کے بارے میں بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں کا کردار مبہم مشکوک اور ناقابل برداشت ہے چند رہنماؤں نے اخباری بیانات اور سوشل میڈیا پر اپنی رائے پر اکتفا کیا ہے بند اجلاس کے بعد بھی کسی نے لب کشائی سے گریز کیا کیونکہ وہ حقائق بتانے کی استعداد نہیں رکھتے یا ذاتی مفادات کی خاطر ان کے لبوں پر مہر لگی ہوئی ہے اپوزیشن کے لوگ خوفزدہ ہیں کہ اگر انہوں نے لب کشائی کی تو وہ آنے والے انتخابات میں ہائی برڈررجم سے باہر ہوجائیں گے اور ان کی جگہ زیادہ گماشتہ لوگ آجائیں گے اپوزیشن میں شامل پارلیمانی جماعتیں بھی خانہ پری کی حد تک اصل حقائق اٹھانے سے گریزاں ہیں جبکہ بی این پی اور نیشنل پارٹی بوجھ میڈیا کے بیانات تک محدود ہیں اگرچہ ثناء اللہ زہری نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کی حکومت ریکوڈ ک کی وجہ سے ختم کی گئی لیکن وہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہیں بادی النظر میں پیپلز پارٹی نے جو کچھ کیا ہے اسے اس مسئلہ پر بولنے کا حق نہیں کیونکہ اسی کے دور حکومت میں تحتتیان کمپنی کی لیز منسوخ کی گئی اور اس نے اب تک نہیں بتایا کہ اصل وجوہات کیا تھیں اگر پیپلز پارٹی سپریم کورٹ کے فیصلہ کو جواز بنائے تو یہ فیصلہ اب تک برقرار ہے اس کے باوجود موجودہ حکومت نے یوٹرن لیکر اسے نظر انداز کیوں کیا یا اگر ثناء اللہ کے بقول کوئی دباؤ تھا تو صاف بتادیں کہ دباؤ کس کی طرف سے تھا‘ اسی طرح پیپلز پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو بتائے کہ کس کے دباؤ پر لیز منسوخ کی گئی اور یہ بھی بتائے کہ اس نے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو بلاکر ڈرامہ کیوں رچایا سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم اس فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ انہوں نے لیز کنسل کرکے ریکوڈک کو بچایا وقت آگیا ہے کہ وہ حقائق طشت ازبام کردیں‘ ان تمام باتوں سے قطع نظر اصل بات یہ ہے کہ ریکوڈک بلوچستان کے ہاتھ سے چلا گیا ہے ہزار توجیع پیش کی جائے کہ عالمی عدالت میں مقدمہ ہار جانے اور بھاری جرمانے کی وجہ سے مجبوراً سونے کی یہ کان پرانی کمپنی کو دینا پڑگئی یہ قابل قبول نہیں ہے۔
ریکوڈک بلوچستان کا چوتھا بڑا وسیلہ ہے جو کسی بھی وجہ سے بلوچستان کا نہ رہا‘ پہلا وسیلہ سوئی گیس تھا جس پر مرکز نے قبضہ کرلیا‘ تیسرا سیندک تھا جسے وفاق نے چین کو بطور تحفہ دیدیا اس کے بعد گوادر پورٹ یعنی ساحل کو چین کے حوالے کیا‘ مشرف کے دور میں اگرچہ پورٹ کی ناقص تعمیر چین نے کی تھی لیکن پورٹ کو چلانے کی ذمہ داری سنگاپور کو دی گئی تھی سنگاپور غیر معیاری پورٹ کو چلانے میں ناکام رہا جس کے بعد یہ پورٹ چین کے حوالے کردیا گیا جو طویل عرصہ کے بعد بھی اسے چلانے میں ناکام ہے گوادر پورٹ کا معاملہ بھی خاصا پراسرار ہے ایک عشرہ گزرجانے کے باوجود پورٹ کو ملک کے دیگر حصوں سے لنک نہیں کیا گیا البتہ پورٹ کی آڑ میں وفاق نے پوری ساحلی پٹی کی زمینوں کو ہڑپ کرلیا‘ وفاق کے کیا مقاصد ہیں یہ کوئی پوشیدہ عمل نہیں ہے اس کی سنجیدگی کا یہ عالم یہ ہے کہ ابھی تک ساحلی پٹی کے عوام کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے ساحلی علاقہ بجلی کے نیشنل گرڈ سے بھی منسلک نہیں ہے ایران خیرات میں جو بجلی دے رہا ہے اس پر گزارا چل رہا ہے توانائی کا ایک اہم ذریعہ گیس ہے لیکن پورا علاقہ اس سے محروم ہے ابھی تو ریکوڈک کے جرمانے کا واویلا کیا جارہا ہے جس دن ایران نے اپنی گیس پائپ لائن کے جرمانے کا مطالبہ کیا تو حکمرانوں کے ہوش اُڑجائیں گے کیونکہ ایران سے پائپ لائن کے معاہدہ میں لکھ کر دیا گیا ہے کہ اگر پاکستان اس معاہدہ پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہا تو اسے بھاری جرمانہ دینا پڑے گا لیکن پاکستان کی مختلف حکومتوں نے سعودی عرب کے ڈر کی وجہ سے اور امریکی پابندیوں کے خوف کے باعث یہ منصوبہ ترک کردیا دونوں ممالک کے دباؤ کی وجہ سے ترکمانستان سے ٹاپی معاہدہ کیا گیا لیکن کمزور مالی حالات کی وجہ سے وہ منصوبہ بھی مکمل کرنا ممکن نہیں حالانکہ ایران والا منصوبہ کافی آسان تھا لیکن لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو بلاوجہ جرمانے کا شوق ہے۔
کئی لوگوں کو مستقبل قریب میں گوادر پورٹ کے فعال ہونے پر شک ہے کیونکہ مقامی حالات موافق نہیں ہیں مرکزی حکومت حالات کو قابو میں لانے کے لئے ایک بھاری بھر کم انفرااسٹرکچر بنانے میں مصروف ہے جس میں خضدار سے تربت تک روڈ کی تعمیر‘ سندھ سے بجلی کی لائن گوادر تک پہنچانا‘تربت میں ایک بڑا مرکز تعمیر کرنا اور ساحل پر مزید انتظامات شامل ہیں حکومت نے چند سالوں کے دوران اپنی افرادی قوت کئی گنا بڑھادی ہے اور اس کا پروگرام ہے کہ اسے مزید وسعت دی جائے اس مقصد کے لئے حکومت کو مکران ڈویژن میں لاکھوں ایکڑ اراضی کی ضرورت ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ مقامی آبادی اراضی کی ملکیت سے محروم ہوجائے گی معلوم نہیں کہ یہ اراضی آبادی کے توازن کو بنانے یا بگاڑنے کے لئے استعمال ہوگی یا اس کا مقصد سیکیورٹی انتظامات کو بہتر بنانا ہے۔
حکومت نے سیاسی انتظامات بھی شروع کردیئے ہیں جس کا مقصد لوگوں کی نمائندگی کے معیار کو بدلنا ہے کوئی بعید نہیں کہ لیاری کی طرح مکران ڈویژن میں ایسے نمائندوں کو سامنے لایا جائے جو حکومت کی معاونت کریں کیونکہ جو لوگ اپنے آپ کو قوم پرست کہتے ہیں انہوں نے بھی کوئی تیر نہیں مارا ہے‘ لیکن حکمرانوں کے نزدیک وہ کمزور کردار کے باوجود اعتبار کرنے کے لائق نہیں اسی لئے براہ راست اپنے نمائندے لانے کا انتظام زیر غور ہے۔
حساس ترین مکران ڈویژن کو مسخر کرنے کے لئے ایک طویل منصوبے پر کام جاری ہے اس علاقہ کی طویل سرحد ایران سے ملتی ہے حالانکہ جہاں سرحدیں ملتی ہیں وہ ایران نہیں مغربی بلوچستان ہے دوسری جانب خلیج ہے جس کا نام اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں خلیج فارس اور جبکہ عرب ریکارڈ میں بحیرہ عرب ہے جبکہ پانچ دہائی قبل خان عبدلولی خان نے اسے بحر بلوچ کا نام دیا تھا یہ بحر طاغوتی طاقتوں کے نرغے میں ہے کراچی سے بندر عبادس تک اور دوسری طرف خلیج اومان تک مقامی آبادی کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا ہے جو یورپی آباد کاروں نے امریکا کے اصل باشندوں کے ساتھ کیا تھا جتنے بھی منصوبے ہیں سارے جعلی ہیں اور اس کا مقصد مقامی لوگوں کی ترقی نہیں بلکہ اس اہم تزویراتی علاقہ پر تسلط جمانا ہے وہ وقت دور نہیں جب طاغوتی طاقتیں آپس میں ٹکرا جائیں گی اور اپنی بربادی کا سامان خود کریں گی بلوچستان کو ڈی ”پولیٹیسائز“ کرنے کا مقصد بھی علاقہ پر تصرف جمانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں