مزید تباہی

تحریر: انورساجدی
2021ء کا سال تمام ترتباہیوں،بربادیوں اور حشرسامانیوں کے ساتھ اکیلے رخصت ہوا کپتان ساتھ رخصت نہیں ہوئے اپوزیشن کے اطوار دیکھ پر یقین ہوچلا ہے کہ مزید ڈیڑھ برس کپتان اور ان کی تباہ کن حکومت کو برداشت کرنا پڑے گا یہ تو معلوم نہیں کہ میاں صاحب لندن سے واپس آکر خمینی طرز کا انقلاب لائیں گے کہ نہیں البتہ یہ خطرہ موجود ہے کہ اگربزرگوں کی سرپرستی قائم رہی تو کچھ مزید عرصہ عمرانی حکومت کو برداشت کرنا پڑے گا زیادہ سے زیادہ کیا ہوگاجون سے پہلے ایک اور بجٹ آئیگا سالانہ میزانیہ کے علاوہ 6ماہ بعد ایک اور منی بجٹ کے ذریعے پاکستانی عوام کو زندہ درگور کرنے کی کوشش کی جائے گی حکومت اور اس کے سرپرستوں کو یقین ہے کہ عوام اٹھنے والے نہیں ہیں بلکہ انہیں اٹھانے والا ہی نہیں ہے اپوزیشن کا سارا زور پارلیمنٹ کے اندر ہلڑ بازی پر ہے ہر اہم موقع پر اسپیکر کا گھیراؤ کرنا اور خاموشی کے ساتھ چلے جانا ہے اگراپوزیشن میں جان ہوتی تو وہ مہنگائی کو اشو بناکر ایک تحریک شروع کرتی عوام کو سڑکوں پرلاتی وزیراعظم ہاؤس کے باہر دھرنا دیتی اور حکومت کو چلنے نہ دیتی لیکن اپوزیشن نے معاشی مسائل خاص طور پر مہنگائی، بیروزگاری اور عوام کی بدترین حالت کو کبھی موضوع نہیں بنایا سب سے بڑی جماعت ن لیگ خوش ہے کہ جتنے مسائل بڑھیں گے حکومت کی مقبولیت گرتی جائے گی جس کے نتیجے میں آئندہ انتخابات خود بخود اس کی جھولی میں آکر گریں گے اس لئے اسے حکومت کے جانے کی جلدی نہیں آئندہ انتخابات کا انتظار ہے یہی وجہ ہے کہ ن لیگ نے پی ڈی ایم کو توڑ دیا اور وہ مسلسل وزیراعظم چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے گریزاں ہے پی ڈی ایم کے قائد مولانا نے مارچ کی ایک اور تاریخ دیدی ہے لیکن لگتا ہے کہ مارچ میں بھی کچھ نہ ہوگا اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات تک صبر کریں جس طرح ساڑھے تین سال کے صبر کا پھل بلدیاتی کامیابی کی صورت میں ملا مزید صبر کا نتیجہ آئندہ انتخابات میں دوصوبوں میں کامیابی کی صورت میں ملے گا اس لئے مولانا تندوتیز بیانات اور جلسوں میں آتشی زبان ضرور استعمال کرتے ہیں لیکن اندر سے وہ اسی راستے پر چل رہے ہیں جس راستے کا تعین بزرگوں نے کرکھا ہے مولانا درپردہ پوری طرح آن بورڈ ہیں جب مولانا نے گزشتہ دھرنا دیا تھا تو بزرگوں نے چوہدری پرویز الٰہی کو ان کے پاس بھیجا تھا وہاں پر کیا طے ہوا تھا وہ ہنوز سربستہ راز ہے اس راز کا عقدہ آئندہ ہونیوالے انتخابات کی مہم کے دوران کھلے گا جب مولانا یا پرویز الٰہی یہ راز افشاکردیں گے پشتونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو ہزیمت دینا اور مولانا کے سرپر ہاتھ رکھنا دراصل اعتماد سازی کی جان بوجھ کر کوشش تھی تاکہ آئندہ کی تیاری ابھی سے کی جائے حالانکہ جب مولانا کئی باتیں ماننے سے انکاری تھے تو بڑوں نے حضرت مولانا محمد خان شیرانی کو میدان میں اتارا تھا انہیں کئی بھولو اور گولو بھی دیئے تھے لیکن شروع کی چند سرگرمیوں کے بعد شیرانی اور ساتھی روپوش ہوگئے یا زیرزمین چلے گئے غالباً اس دوران مولانا اورمقتدرہ کی بات چیت کامیاب ہوگئی تھی یہ تو سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ جو جماعت لیڈر ہل جل شروع کردے اس کی تریاق تلاش کی جائے یہی وجہ ہے کہ جب نوازشریف نے مولانا کو اعتماد میں لئے بغیر لندن میں خوش گمانی پر مبنی مذاکرات شروع کئے تو مولانانے کافی عرصہ تک نوازشریف سے رابطہ منقطع رکھا جس پرنوازشریف کو مجبور ہوکر مولانا کو ٹیلی فون کرنا پڑا مولانا جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ اور ہے اور جو کررہے ہیں وہ باالکل مختلف ہے سردست تو یہی ظاہر ہورہا ہے کہ مولانا کو انتخابات تک تحریک چلانے کی بجائے تندوتیز بیانات تاریخوں پہ تاریخ اور ٹال مٹول کے حربے استعمال کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ خود مقتدرہ اور عمران خان کے درمیان بعض معاملات پرگفت وشنید کاسلسلہ جاری ہے لہٰذا ابھی یہ معلوم نہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا لیکن ایک حیرت کی بات یہ ہے کہ جتنی چھوٹ عمران خان کو دی جارہی ہے آج تک کسی حکمران کو نہیں دی گئی اس کی وجوہات پوشیدہ ہیں اور کسی کومعلوم نہیں عمران خان بھی وقت کو آگے دھکا دے رہے ہیں تاکہ اس سال کے آخر میں اہم ترین فیصلے کی بازی ان کے ہاتھ لگ جائے۔سیاسی مبصرین وہ وقت آنے سے پہلے عمران خان کی رخصتی دیکھ رہے ہیں لیکن ان کی رخصتی یقینی نہیں ہے اگر بڑوں کو ان کی رخصتی مطلوب ہوتی تو صرف ایک فون کال پر ق لیگ اور ایم کیو ایم حکومت سے الگ ہوجاتے باپ پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ بھی ایک منٹ کی دیر نہ لگاتے لیکن لگتا ہے کہ ابھی تک فریقین کے ایک دوسرے سے کچھ مفادات وابستہ ہیں اگر بڑے مکمل طور پر مایوس ہوجائیں تب وہ ن لیگ یاکسی اور متبادل سے حتمی مذاکرات کریں گے کئی مبصرین کو یہ خدشہ ہے کہ نومبر تک عمران خان رہ گئے اور انہوں نے حب منشا بعض نتائج اپنے حق میں کرلئے تو معاملہ الٹ بھی سکتا ہے اور چوتھی بار اقتدار میں آنے کا ن لیگی خواب چکنا چور ہوسکتا ہے خود عمران خان کاعزم زعم اور غرور یہ ہے کہ آئندہ پانچ سال بھی زمام اقتدار انکے ہاتھ میں رہے گا اس غرور کی وجہ وہ ہاتھ ہے جو ابھی تک ان کے سرپرہے اور کبھی کبھار تھوڑا ساسرک جانا ہے۔لیکن ایک بات طے ہے کہ عمران خان ایک شیطانی گروہ کے نرغے میں ہے ان کی معاشی ٹیم عالمی اداروں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کی خاطر عوام پر344ارب روپے کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے سوئی سے لیکر ڈھاکہ تک ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے حکومت کو بجلی کمپنیوں کے کھربوں روپے کا سرکولر ڈیٹ سے جان چھڑائی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے بعد حکومت نہ تو آسان شرائط پر قرضے حاصل کرسکتی ہے اور نہ ہی ضروریات پوری کرنے کیلئے کرنسی نوٹ چھاپ سکتی ہے یہ دراصل ایک نئے بحران کا آغاز ہوگا اوپر سے سعودی عرب کے قرضوں کی واپسی کا خطرہ بھی موجود ہے چین زیادہ سے زیادہ مزید مہلت دے سکتا ہے لیکن اگلی مہلت نہیں دے گا اور اپنے قرضوں کے بدلے کچھ نہ کچھ لکھوا لیگا پہلے خوش فہمی تھی کہ ریکوڈک کو بیچ کر کچھ ضروریات پوری کی جائیں گی لیکن یہ انمول اثاثہ بھی جرمانے کے بدلے بک چکا ہے آمدنی کے ذرائع بڑھنے کا امکان کم ہے کیونکہ کارخانوں کو چلانے کیلئے گیس نہیں ہے اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں بھی کمی ہورہی ہے کیونکہ بیرون ملک بھی عمران خان کی مقبولیت کا گراف تیزی کے ساتھ گررہاہے۔
آئی ایم ایف کی وجہ سے صوبہ پنجاب کا بھی دیوالیہ نکل گیا ہے کیونکہ اسے اپنے ترقیاتی بجٹ میں سے 3کھرب والے آئی ایم ایف کو دینا پڑرہے ہیں پرویز الٰہی کے دور میں پنجاب کی آمدنی سرپلس تھی جسے شہبازشریف نے اپنے خسارے والے نمائشی منصوبوں کی وجہ سے گھاٹے میں تبدیل کردیا تحریک انصاف کو خطرہ ہے کہ اگربزدار کے دور میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو نتائج ن لیگ کے حق میں نکلیں گے اس لئے بالآخر بزدار کو ہٹانے پرسنجیدگی سے غور کیاجارہاہے یہی حشر محمود خان کا بھی ہوگا کیونکہ دونوں حضرات آئندہ انتخابات تک برقرار رہے تو دو صوبوں میں تحریک انصاف کا صفایا ہوجائیگا جہاں تک میرعبدالقدوس بزنجوکا تعلق ہے تو انہوں نے ریکوڈک کی ڈیل پر انگوٹھا ثبت کرکے فرماں برداری کا ثبوت دیا ہے لیکن انتظامی بدانتظامی امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور وزراء کے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے ان کے سرپر بھی تلوار لٹک رہی ہے اس لئے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ آئندہ انتخابات تک قدوس بزنجو کو برقراررکھاجائے ان سے ایک کام لینا تھا لے لیا اس لئے اب وہ ناگزیر ضرورت نہیں۔
بدقسمتی سے عمران خان نے مہنگائی تو ولایت کی کردی ہے لیکن آمدنی میں اضافہ کاکوئی بندوبست نہیں اس لئے آنے والے وقتوں میں شرفا کی خودکشی کے واقعات میں اضافہ کا خدشہ ہے جبکہ مٹی بھر امرا کو اتنی مراعات دی جارہی ہیں کہ انکی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے یہ جو حکومت گاڑیوں کی ریکارڈ فروخت کا راگ الاپ رہی ہے یہ اسی مٹی بھر طبقہ کی خوشحالی کی طرف اشارہ ہے جس میں حکومتی اکابرین اور وزراء بھی شامل ہیں لیکن غربت کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے چند غریب اور نادار ممالک کی صف میں شامل ہوگیا ہے خدا خیر کرے اگر کپتان2028ء تک 80سال کی عمر تک برسراقتدار رہے تو پاکستان کا شمار آخری چند ممالک میں ہوگا جبکہ آبادی جو اس وقت 22کروڑ ظاہر کی گئی ہے بڑھ کر30کروڑ تک پہنچ جائیگی۔
ویسے یہ سوچنا ہی ہلاکت خیز ہے کہ تحریک انصاف 2028ء تک اقتدار میں رہے گی اگر ایسا ہوا تو تاریخی اور جغرافیائی تبدیلیاں بھی وقوع پذیر ہوسکتی ہیں کیونکہ حکیم سعید کے مقولے کے مطابق عمران خان عالمی اسٹبلشمنٹ کے نمائندہ ہیں اور انہیں ایک مشکل ایجنڈا تفویض کردیاگیاہے۔