منشیات اور بلوچستان

تحریر:جیئندساجدی
موریا خاندان سے تعلق رکھنے والے بادشاہ اشوک کو بہت سے ماہر تاریخ دنیا کا سب سے انوکھا اور بہترین بادشاہ تصور کرتے ہیں۔موریائی سطلنت کی بنیاد اشوک کے دادا چندرگپت موریا نے 321 B.Cیعنی آج سے دو ہزار سال قبل رکھی تھی۔موریا سلطنت میں موجودہ افغانستان،پاکستان،مشرقی بنگال،شمالی وسطی ہندوستان اورنیپال شامل تھے۔نامور ہندوستانی رہنما جواہرلال نہرو اپنی کتاب ”بھارت ایک کھوج“ میں لکھتے ہیں کہ جب بادشاہ اشوک نے 232 B.C میں تخت سنبھالا تو موجودہ ہندوستان کے دور دراز مشرقی علاقہ کلنگ اورجنوب میں تامل ناڈو ان کی سلطنت کا حصہ نہیں تھے۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہر خواہشمند بادشاہ کی طرح اشوک کی بھی یہی خواہش رہی ہوگی کہ وہ کلنگ اور تامل ناڈو کو فتح کرکے ایک نئی تاریخ رقم کریں اور پہلی مرتبہ بھارت کو ایک بادشاہ اور ایک انتظامیہ کے زیر اثر لائیں۔غالباً اسی غرض سے اشوک نے کلنگ پر فوجی چڑھائی کی اور فتح یاب بھی ہوئے لیکن کلنگ سخت مذاحمت کے بعد فتح ہوا خود اشوک اپنی چٹان نوشتہ میں یہ لکھتے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے تھے اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ قیدی بنائے گئے تھے۔
اس جنگ کے بعد اشوک کی سوچنے اور سمجھنے کے زوایئے میں کافی فرق آیا ہے ان کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ کسی بھی ملک یا سلطنت کو جبراً قبضہ کرنے کیلئے بہت سا ناحق خون بہانا پڑتا ہے جس میں بے شمار بچے یتیم،ہزاروں عورتیں بیوہ اور کئی بوڑھے والدین بے سہارا ہوجاتے ہیں۔جنگ کے بھیانک انجام دیکھنے کے بعد اشوک نے اپنی خارجہ پالیسی مکمل طور پر تبدیل کی اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ کسی پڑوسی ریاست پر کبھی فوجی چڑھائی نہیں کریں گے۔اس کے بعد انہوں نے بدھ مت مذہب کو بھی قبول کیا جس کا اہم ستون آہنسہ یعنی کہ کسی جاندار چیز کو نقصان نہیں پہنچانا ہوتا ہے۔بدھ مت مذہب کو نہ صرف اشوک نے قبول کیا بلکہ اس کے فروغ کیلئے اپنی ریاستی وسائل بھی استعمال کئے اور بیرونی ممالک وہ سپاہیوں کے بجائے بدھ تبلیغی مونک بجھواتے تھے اور ان کی وجہ سے بدھ مت ہندوستان کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک جیسے کہ افغانستان،چین اور سری لنکا میں بھی پھیلا۔تاریخ میں ایسے کمی ہی طاقتور بادشاہ،فوجی سربراہ اورجمہوری نمائندے گزرے ہیں جنہوں نے بادشاہ اشوک کو اپنا رول ماڈل بنایا ہواور اکثر نے ہٹلر اورمیزولینی جیسی جابرانہ اور سامراجانہ پالیسیوں کو ہی ترجیح دی ہے۔ان کو انسانی جانوں کا نقصان اور معاشی بدحالی سے کوئی غرض نہیں رہا ہے اوران کا مقصد محض اپنی سیاسی اور معاشی مفادات کو فروغ دینا تھا اس حوالے سے معروف بائیں بازو کے رہنما چی گویرا نے کہا تھا کہ سامراجی سوچ رکھنا ایک ایسا مرض ہے جس کے بعد انسان انسان نہیں رہتا بلکہ ایک وحشی درندہ بن جاتا ہے اور اس کی درندگی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔
سامراجی قوتوں کی تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو چی گویرا کی بات سو فیصد درست ثابت ہوتی ہے۔سامراجی طاقتیں مقامی آبادی پر غالب ہونے کے بعد ایسی ایسی جابرانہ اور ظالمانہ پالیسیاں بناتے تھے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں میں کھبی بھی ان کی حکومت کو ختم کرنے کیلئے سقط نہ ہو۔سامراجی قوتوں نے مقامی افراد کی نسل کشی کیلئے طبی امراض کو بھی پھیلایا ہے۔ان کو تخلیقی تعلیم سے بھی محروم رکھا گیا اور ان کے دماغوں کو قابو میں رکھنے کیلئے ایک مخصوص قسم کی بھی تعلیم دی جس کے تحت مقامی لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ فرنگی کوئی حملہ آور نہیں اور نہ ہی لوٹ مار کی غرض سے ان کے وطن آئے ہیں بلکہ وہ ان کی ملکی ترقی،ان کی پسماندگی کو دور کرنے اور انہیں تہذیب یافتہ بنانے کیلئے آئیں ہیں۔جب سفید فام یورپی آباد کار شمالی امریکہ گئے تھے تو جنگ میں قتل وغارت کے علاوہ انہوں نے مقامی آبادی میں (Small Pox) نامی مرض کو بھی عام کیا جس کی وجہ سے لاکھوں مقامی سرخ انڈین مارے گئے۔اس کے علاوہ انہیں تخلیقی تعلیم سے بھی دور رکھا گیا اور اپنے قبضے کو جائز قرار دینے کیلئے ان کو اپنے طرز کی دینی تعلیم بھی دینے کی کوشش کی گئی اور عیسائی پادریوں نے مقامی افراد کو یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی کہ یہ یورپی آباد کاروں کا نظام ان کے ملک پر رائج نہیں بلکہ یہ خدا کا راج کرتا نظام ہے۔مقامی افراد کے ذہنوں کو قابو کرنے کیلئے مذہبی لٹریچر کا استعمال اسپین نے اپنی جنوبی امریکی کالونیوں میں کیا،فرانس نے اپنے شمالی،افریقہ کی کالونیوں میں اورسلطنت عثمانیہ (ترکی) نے مشرق وسطیٰ میں کیا۔
لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود اکثر نوآباد کار ریاستوں میں سامراجی قوتوں کو مختلف بڑی اور چھوٹی مذاحمتی تحریکوں کا سامنا کرنا پڑا اور جب انسانی دماغ ان کے طاقت کے خوف اور پروپیگنڈہ کی زد میں نہیں آئے تو سامراجی طاقتوں نے منشیات کا بھی سہارا لیا۔ایک امریکی لکھاری لکھتے ہیں کہ جب سفید فام یورپی امریکہ گئے تو اپنے ساتھ پانی سے زیادہ شراب اور دیگر منشیات لیکر گئے تھے اورمقامی افراد میں ان کا پھیلاؤ کیا تاکہ مقامی افراد کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت محدود رہے اور وہ کبھی بھی ان کی حکومت کو چیلنج نہیں کرسکیں۔منشیات کو مفتوحہ آبادی پر عام کرنے کا ایک اور مقصد منافع خوری بھی تھا۔اکثر سامراجی طاقتوں کو اپنی اشیا کے فروخت کیلئے مارکیٹوں کی ضرورت تھی اکثر یہی مارکیٹیں وہ اپنی کالونیوں میں قائم کرتے تھے اور مقامی افراد میں نشے کی لت کو عام کرتے تھے۔منشیات کا کاروبار اتنا فائدہ مند ثابت ہوا کہ برطانیہ نے اس کیلئے چین سے دو جنگیں بھی لڑیں جسے ماہرین Opium Wars کے نام سے یاد کرتے ہیں اس جنگ کا پس منظر کچھ یہ تھا کہ برطانیہ میں چین سے درآمد کی گئی چائے کی بڑی طلب تھی اوراس کی درآمد کی وجہ سے چین برطانیہ کاروبار میں چین کا پلڑا بھاری تھا برطانیہ کے پاس ایسی کوئی اشیاء نہیں تھی جس کو درآمد کرنے کی طلب چین میں تھی تو برطانیہ نے اپنی ہندوستانی کالونی میں افیون کی فصل کاشت کرنی شروع کردی اور اسے چین بھیجنا شروع کردیا۔منشیات ناصرف انسانی دماغ کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ انسانی صحت کیلئے بھی تباہ کن ہے۔منشیات کے عام ہونے کی وجہ سے چین میں ایڈز،گردے اوردل کے امراض،کینسر وغیرہ بھی کافی پھیلا اور کافی سماجی برائیاں بھی پھیلنے لگی اور امن وامان کی صورتحال بھی بگڑگئی۔اس وجہ سے چینی بادشاہ یوگز ہینز نے افیون کی درآمد پرپابندی لگائی اور اسے غیر قانونی قرار دیا اس کے رد عمل میں برطانیہ نے1849ء میں چین پر حملہ اور ہانگ کانگ پر بھی قبضہ کیا اس کے مضافات میں انہوں نے افیون کی کاشت شروع کی 1856ء میں برطانیہ اور فرانس نے دوسری مرتبہ چین پر حملہ کیا اور شکست خوردہ چینی بادشاہ کو مجبور کیا کہ وہ افیون کی تجارت کو قانونی حیثیت دے۔
دوسری عالمی جنگ عظیم کے بعد جنوبی امریکہ یا لاطینی امریکی براعظم اکثر امریکہ کے زیر اثر رہا ہے۔ان ممالک میں امریکہ جمہوری حکمرانوں کو دور کرکے اکثر اپنے مسلط کردہ آمروں کے ذریعے حکومت کرتا تھا وہاں کی مقامی لوگوں میں امریکہ اور اس کے کٹھ پتلی نمائندے نے منشیات کو عام کیا تھا تاکہ انقلابی تحریکوں کو قابو میں رکھا جاسکے۔لیکن نکارا گوا نامی لاطینی ریاست میں سوشلسٹ انقلاب آیا تو امریکہ نے سوشلسٹ انقلابیوں پر یہ الزام عائد کیا کہ نکارا گوا کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے سندنستہ (Sandinsta) نامی بائیں بازو کی جماعت نے منشیات کے کاروبار کا سہارا لیکر اپنے وسائل بڑھائے جن کو استعمال کرکے انہوں نے نکاراگوا میں حکومت کا تختہ الٹا دیا۔اس کے بعد امریکہ نے لاطینی امریکہ میں (War on Drugs) نامی مہم کا آغاز کیا ان سوشلسٹ انقلابیوں کو ختم کرنے کیلئے دائیں بازو کے ایک گروپ Contras نے جنم لیا جس کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل تھی امریکی کانگریس نے بظاہر تو Contras کی فنڈنگ ختم کی لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر رونلڈریگن نے ان کی مالی مدد جاری رکھی۔نکاراگوا کی نئی حکومت نے امریکی سی آئی اے پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ Contrasکی مدد کیلئے امریکی سی آئی اے نے خود Contrasکو کاروبار کرنے کیلئے منشیات فراہم کئے تھے،اس موضوع پر ایک امریکی تحقیقی صحافی گیری ویب نے اپنی کتاب ”Dark Alliance:The CIA,the Contras and the Crack Cocaine Explosion“ جو 1998ء میں شائع ہوئی تھی انہوں نے یہ لکھا تھا کہ واقعی امریکی سی آئی اے نے Contrasکو کوکین فراہم کی تھی تاکہ وہ اپنے وسائل میں اضافہ کرسکے اور نکاراگوا کی بائیں بازو والی حکومت سے مذاحمت کرتے رہیں۔گیری ویب کی موت 2005ء میں ہوئی تھی جس کی وجہ خودکشی بتائی گئی ہے لیکن بہت سے لوگ ان کی موت کی وجہ کو متنازع سمجھتے ہیں۔لہٰذا تاریخ کا جائزہ لیکر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ منشیات کو طاقتور سامراجی قوتوں نے ایک کارآمد ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔کبھی اسے مقامی افراد کے ذہنوں کو محدود رکھنے کیلئے استعمال کیا گیا تو کبھی اپنا سرمایہ بڑھانے کیلئے تو کبھی CIAکی طرح اسے مقامی تحریکوں کو کمزور کرنے کیلئے اور اپنے احمقانہ گروپس کے سرمایہ کو بڑھانے کیلئے استعمال کیا گیا ہے سماجی میڈیا میں کچھ ایسی پوسٹیں دیکھنے کو ملی ہیں جس میں نوجوان بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں منشیات فروش کیخلاف مہم چلارہے ہیں۔اگر کوئی سامراجانہ سوچ رکھ کر منشیات کو پاکستانی بلوچستان میں عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو یہ نہایتی حماقت والا اقدام ہے اور اس کے نتائج بھیانک ثابت ہونگے۔اس سے قبل بھی ایرانی بلوچستان میں ایرانی سرکار پر یہ الزام تھا کہ مغربی بلوچستان میں ایرانی سرکار نے جان بوجھ کر منشیات کو عام کیا تاکہ وہاں کے لوگوں کے ذہنوں کو محدود رکھ سکیں لیکن تاحال وہاں کوئی امن نہیں ہے منشیات کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتی ممکن ہے یہ منشیات بلوچستان سے نکل کر ملک بھر میں پھیل جائے۔اسی لئے لوگوں کے ذہنوں کو قابورکھنے کے بجائے بلوچستان کے مقامی لوگوں کو ان کے جائز سیاسی،سماجی اورمعاشی حقوق دیئے جائیں۔اس سورش کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ یہی ہے۔