ڈاکٹر کہور بلوچ زندگی اور جدوجہد

تحریر؛محمد صدیق کھیتران
ڈاکٹر کہور بلوچ سے دوستی زمانہ طالب علمی سے کوئی لگ بھگ چاردھائیوں سے چلی آرہی تھی۔ان کے ساتھ تعلق اسٹوڈنٹس پالیٹکس سے ہے جب آپ بلوچ طلبا تنظیم BSO کے وائس چیئرمین تھے۔ڈاکٹر صاحب کی سیاسی اور عملی زندگی کو ہم تین ادوار میں تقسیم دیکھتے ہیں۔ایک ان کا دور زمانہ طالب علمی کا تھا جب وہ طالب علم لیڈر ہوا کرتے تھے دوسرا دور جب انہوں نے صوبائی سول سروس کا امتحان پاس کرکے بلوچستان سیکریٹیریئٹ (secretariate) میں ملازمت اختیار کی اور تیسرا دور ان کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد کا ہے جب انہوں نے واپس اپنے ہم خیال دوستوں سے مل کر نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا ہے۔
انہوں نے زمانہ طالب علمی میں کتاب اور نظریاتی فکر کو لے کر سیاست کی۔ بلوچ طلبا کی سیاست میں
(Intellectual capacity) کو بڑھانے پر کام کیا اس کو ایک روائتی اور بے سمت جاگیردارانہ نیشنلزم سے نکال کر سائینٹفک ترقی پسند اور سوشلسٹ نظریات کی سمت دی۔سیاست کی (orientation) کو نچلے اور درمیانے طبقے کی معاشی مشکلات سے جوڑا۔ مجھے یاد ہے جام غلام قادر کے دور وزارت اعلئی میں جیوانی کی عوام کے پینے کے پانی کے ایک مظاہرے پر تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں کئی ہلاکتیں ہوگئی تھیں۔ تب ہم سب طلبا نے ڈاکٹر کی سربراہی میں کراچی میں مظاہرے کیئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو پولیس کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ لیاری کے ایک دو مظاہرین پولیس کی گولیاں لگنے کی وجہ سے جابحق بھی ہوگئے تھے۔ اس دور میں ڈاکٹر صاحب نے باقاعدہ BSO کے ہر زون میں اسٹڈی سرکلز (study circles) شروع کروادیے تھے۔ جس کی بدولت سیاسی کارکنوں کی مناسب کھیپ تیار ہوگئی تھی اور ساتھ ہی تنظیم کے اندر خود اعتمادی (self confidence) اور خوداختیاری (self reliance) میں بہتری آئی۔نظریاتی بالیدگی (Ideological clarity) بڑھنے لگی۔روائتی فیوڈل قوتوں سے فاصلے بڑھنے لگے۔اس دوران تنظیم میں تحفظات (Reservations) اور پولرائزیشن (Polarization) ابھرنے لگی جوکہ آگے چل کر تنظیم میں تقسیم (Split) کا باعث بنی۔دوسری طرف سوویت یونین کے انہدام (collapse) اور افغان انقلاب کی پسپائی(Defeat) کے بعدسوشلسٹ نظریات زیادہ متحرک نہ رہے۔ مجموعی طور پر نظریاتی سیاست جمود (Dormant mode) میں آگئی تھی۔ادھر ملک میں جنرل ضیا کے حادثے کے بعد ہیبرڈ جمہوریت (Hybrid democracy) کے ماڈل نے تشکیل پائی۔تمام لبرل،ترقی پسند، نیشنلسٹ اور مزہبی پارٹیوں نے اسی کو اپنی منزل سمجھ کر حصے بانٹنا شروع کردئیے۔ سب نے مل کر نا صرف گنگا میں ہاتھ دھوئے بلکہ غوطے مارنا شروع کر دیئے۔ ہبرائڈ جمہوریت کا مقصد ہی کرپشن میں بالہاظ طاقت حصہ دینا تھا جبکہ اس کے پیچھے نیشنل اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا مقصد "اسٹیٹس کو” کو برقرار رکھنا تھا۔ حلقے کی سیاست لاکھوں اور کروڑوں کا کھیل بن گء۔ایسے میں مایوس ڈاکٹر کہور بلوچ نے PCS کی تیاری کی اور امتحان میں کامیاب ہو کر صوبے میں سول ملازمت اختیار کرلی۔ مگرانہوں نے اپنے نظریات کا سودا نہیں کیا۔ علم اور آگاہی سے تعلق جاری رکھا۔گھر کو حرام اور رشوت کے سامان کی بجائے ہزاروں کتب پر مشتمل لائبریری سے بھر دیا۔ محدود آمدنی پر بھروسہ کیئے رکھا۔اور اپنے ہم عصر ساتھیوں کواپنے کردار سے ثابت کر کیدکھایا کہ غریب صوبے میں بد عنوانی سے دور رہ کرایمانداری سے بھی جیا جاسکتا ہے، اپنے عمل سے شائستگی اورعلم میں وسعت لائی جا سکتی ہے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی جاسکتی ہے۔اس دوران آپ لکھتے بھی رہے اور دوستوں کو (Intellectual feed back) بھی دیتے رہے۔ اب تک تین کتابوں کا مواد اپنی تکمیل تک پہنچ چکا تھا امید ہے طباعت کے مراحل طے کرکے جلد ہی بک اسٹالوں پر آجائینگی۔تین سال پہلے آپ نے اپنی ساٹھ سال کی ملازمت سیکریٹری کی سحح پر پہنچ کر پوری کی اور عزت کے ساتھ گھر چلے گئے۔ نا تو (Auditable) اور ناہی (Accountable departments) نے
ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی نوٹسز بھیجے۔اسی طرح ناہی کسی نظریاتی مخالف نے کردار پر کوئی اسکینڈل کھڑا کیا۔ ملازمت سے فارغ ہونے پر نیشنل پارٹی کو اپنے خیالات کے نزدیک پاکر اس کے کاراواں میں شامل ہو گئے۔ اور واپس نوجوانوں کی نظریاتی کمی
(Intellectual deficiency)
کو دور کرنے کیلئے پہلا اسٹڈی سرکل (study circle) بلوچستان یونیورسٹی کے طلبا کو دیا، اسی دوران رکھنی میں ادبی میلے (litrature festival) میں شرکت کی اور تیسرا لیکچر کراچی یونیورسٹی کے طلبا کو دیا۔اپنے متمع نظر کو پیش کرنے کیلئے تربت،پنجگور، خضدار اور گوادر کا پندرہ روزہ دورہ کیا۔نیشنل پارٹی کی حالیہ قومی کانگرس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔پارٹی کی ریسرچ اور لٹریسی جیسے مرکزی سیکرٹر ی کی اہم زمہ داری اپنے کندھوں پر لی۔ان کی سوچ کا محور نیشنلزم، ترقی پسند سوچ، عالم گیریت (Globalization)،روشن خیالی، رواداری، بقائے باہمی، رول آف لا(Rule of law) اور انسانی حقوق (Human rights) پر مبنی جمہوری معاشرے
(Democratic) society)
کی تشکیل تھا جہاں انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کو روکا جاسکے۔

سقراط نے کیا خوب کہا تھا انسانی زندگی قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے اس کی حفاظت بہت ضروری مگر موت بھی کوئی اتنی بھیانک چیز نہیں ہے بلکہ ایک ایسی گہری نیند ہے جس میں صرف خواب آنا بند ہوجاتے ہیں۔ڈاکٹر کہور بلوچ قوم کیلئے اپنے پیشرووں رازق بگٹی، فدا بلوچ، مولابخش دشتی،حبیب جالب بلوچ،،غلام محمد بلوچ، حاصل بزنجو، غوث بخش بزنجو، حسین عنقا، گل خان نصیر اوربانک کریمہ کی طرح اپنے وطن کے خاک نشینوں کیلئیخواب دیکھتے دیکھتے میٹھی نیند میں چلے گئے۔
ڈاکٹرصاحب سے ان کی زندگی کے آخری دنوں میں ایک نشست ہوئی تھی وہ فرما رہے تھے آج چالیس سال کے عرصے بعد سرد جنگ(Cold War) بھی ختم ہو گئی۔روس بھی سمٹ گیا ہے۔امریکہ بھی افغانستان سے چلاگیاہے۔ لینن کا کیمونسٹ ملک ناصحیح ماوزے تنگ کا کیمونسٹ ملک گوادر تک پہنچ بھی گیا ہے۔ جس کیلئے روس کے عظیم فاتح دی پیٹر گریٹ "The Peter Great” نے 1725 میں مرنے سے پہلے اپنے جانشینوں کو وصیت کی تھی کہ اگر عالمی طاقت بننا ہے تو گوادر (ہند) یا پھر استنمبول کے سمندر تک رسائی حاصل کرو۔ انگلینڈ کے میکنڈر Mackinder بابائیجیوگرافی نے 1940 میں اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ دنیا کا مستقبل یوریشیا(Eurasia) پر قائم ہے کیونکہ یوریشیا ہی دنیا کی انٹرپرائز ہوگا جس میں بڑاکردارسنٹرل ایشیا کا ہوگا جوکہ بحرہند یعنی گوادر کے پچھواڑے
(Back yard)
پر واقع ہے۔ مشہور زمانہ جیوپالیٹیکس (Geopolitics) کے استاد پروفیسر رابرڈ ڈی کپلان
(Rober D-Kaplan)
نیاپنی شہراہ آفاق کتاب
(The revenge of Geography)
میں لکھا ہے کہ جدید دور میں وہ ملک ورلڈ پاور
(World power)
کا درجہ پاسکتا ہے جو دو بحر پر
(Two Oceans ) جنگی حرب
(Naval Force) میں
کے ساتھ اپنا اثر قائم کرے گا جیساکہ امریکہ نے بحر اسود اور بحرالکاہل سے قائم کر رکھا ہے۔ مگر دنیا کی تیل اور انرجی کی ستر فی صد ترسیل تو بحرہند سے ہوتی ہے اسلئے اب سب سے زیادہ اہمیت بھی اسی بحر کو حاصل ہوگی۔تاہم بحر ہند میں گوادر کی اہمیت نہر سویز، نہر پانامہ، آبنائے جبرالٹر، آبنائے ملاکا (Strait of Malacca) اور آبنائے حرمز سے بھی زیادہ ہے۔ اسی طرح جیوگرافی کے
Tim Marshall
اپنی کتاب
(The prisoners of Geography)
میں لکھتا ہے پاکستان کے رقبے کا پینتالیس فی صد بلوچستان ہے اس کے بغیر پاکستان کا وجود بے معنی رہ جاتا ہے۔ امریکی صدربائیڈن نے بھی اپنی حالیہ ایک نشری تقریر میں واضح اشارہ دیا ہے کہ آیندہ عالمی دفاعی حکمت عملی اس خطے پر مرکوز رہے گی۔ بہرحال چین کی مدد سے گوادر کا سمندری پورٹ بھی بن گیا ہے سڑکیں بھی کسی حد تک بن گئی ہیں۔ مگر ملکی نظام اسی جگہ پر ساقط کھڑا ہے۔آج بھی جام غلام قادر کے پوتے جام کمال کے وزارت اعلئی کے دور میں جیوانی اور گوادر میں عوام پینے کے پانی کیلئے مظاہرے کررہی ہے۔ ملک میں ضیا کی بجائے وقت کے جنرلوں کا ہیبرائڈ سسٹم کام ابھی تک کامیابی سے کام کررہا ہے۔ بلوچستان اور افغانستان میں برادر کشی اسی سطح پر جاری ہے۔آج بھی سیاسی نظام میں کرپٹ وار لاڑڈز
(War lords)
اور فیوڈل طبقہ (Feudal class) حصہ دار ہیں۔ بی ایس او اور دیگر طلبا تنظیموں میں کئی کئی گروپس اسی طرح موجود ہیں۔ ابھی بھی NAP کے ٹوٹنے کے بعد کئی سیاسی پارٹیاں ایک ہی منشور کی کاپیاں لے کر سیاست کررہی ہیں۔ مگرعام آدمی اسی طرح معاشی کرب میں مبتلا ہے جو آج سے ستر سال پہلے تھا جبکہ فیوڈل چاہے لفٹ (left) کا ہو یا پھر رائٹ (Right) کا ہو وہ بہرحال اس نظام سے اپنا حصہ وصول کررہا ہے۔سیاسی کلچر اسی مقام پر کھڑا ہے کہ مقامی وزیر قسم کھا کر کہتا ہے میں نے اپنے حلقے کا بجٹ تو نہیں کھایا ہے مگر باقی غریب بلوچستان کی لوٹ مار میراپیدائشی حق بنتا ہے۔نوجوانوں کو حالات کی بہتری کیلئے واپس اپنے نظریات سے جڑنا ہوگا اور اپنی بقا کیلئے علم و آگاہی کے ہتھیار سے لیس ہوکر سیاسی میدان میں آنا ہوگا۔یہی ڈاکٹر کا خواب تھا اس کو مرنے نہیں دینا ہے۔رہ گئی بات سوئی گیس اور سینڈک کے ختم ہوتے معدنی وسائل کی،یہ تو ہونا ہی تھا ہمیشہ وہ قومیں لٹتی رہتی ہیں جن میں علم اور اتحاد کی کمی ہو۔سی پیک کی بنیاد گوادر تھا مگر تین سو منصوبوں میں سے بلوچستان کو صرف آٹھ منصوبے مل سکے۔ ریکوڈک کے مدفون سونے کے خزانے کا بھی یہی حال ہوگا۔طرح طرح کے جواز بناکراس کوبھی جلد ہی طاقتوراپنے قبضے میں لے لینگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں