پرواز کی نئی تیاری

تحریر:انورساجدی
وزیراعظم عمران خان ایک بڑے معرکہ کی تیاری کررہا ہے اگرچہ فارن فنڈنگ کیس ان کے سرپرتلوار کی مانند لٹک رہا ہے جو8برس سے زیرالتوأ ہے اور انہوں نے تاخیری حربے استعمال کرکے اسے روک رکھا ہے لیکن اگر صلح نہ ہوئی تو الیکشن کمیشن آئندہ کچھ عرصہ تک فیصلہ سنادے گا بظاہر کپتان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کا بچنا مشکل نظرآتا ہے لیکن جس طرح انہوں نے غیرمرعی طاقتوں کے تعاون سے ایک سیدھے سادے کیس کو لٹکا رکھا ہے کوئی بعید نہیں کہ اس کا فیصلہ مزید تاخیر کا شکار ہوجائے لیکن فارن فنڈنگ کیس ترپ کا ایسا پتہ ہے جو طاقتور عناصر اس کے ذریعے کپتان کو گھر بھیج کر اپنے مقاصد پورے کرسکتے ہیں تحریک انصاف کے زعما کا خیال ہے کہ اگرالیکشن کمیشن کا فیصلہ خلاف بھی آجائے تو اسے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرکے مزید وقت گزارا جاسکتا ہے تاہم ان تمام باتوں کا انحصار عمران خان اور طاقت کے عناصر کے درمیان تعلقات پر ہے اگرصلح نہ ہوئی تو دونوں طرف ترکش کے زہرآلود تیر ایک دوسرے کیخلاف آزمائے جائیں گے متعدد مبصرین خیال آرائی کررہے ہیں مارچ میں کپتان ایک خطرناک فیصلہ کرکے ایک بڑا رسک لیں گے یہ ایسا جوا ہوگا جس کا کوئی بھی نتیجہ نکل سکتا ہے مارچ سے پہلے ایک بڑی زورآزمائی ہوگی جبکہ مارچ میں مولانا بھی ایک زبردست مارچ کریں گے اس مرتبہ اس مارچ کو زیادہ حمایت اور قوت حاصل ہوگی البتہ عمران خان کی سرکار پوری کوشش کرے گی کہ مارچ لاہور اور اٹک سے آگے نہ بڑھے اس مقصد کیلئے پنجاب اور پشتونخوا کی صوبائی فورسز اورفیڈرل فورسز کو پوری قوت کے ساتھ استعمال کیاجائے گا لیکن مولانا کے سامنے ٹی ایل پی کی مثال موجود ہے جس نے جی ٹی روڈ پر پولیس اور رینجرز کو ناکوں چنے چبوائے تھے مولانا اور ان کی پرائیویٹ فورس انصارالارم بھرپور طاقت کے ساتھ مقابلہ کیلئے آئیں گے البتہ یہ خدشہ موجود ہے کہ لاہور یا اس کی مضافات میں طاقت کا بے رحمانہ استعمال ہوا تو ن لیگی متوالے بھاگ جائیں گے اس جماعت نے آج تک زیادہ مار نہیں کھائی اس کا ورکرزکیڈر ایسی صورتحال کا تجربہ نہیں رکھتا جبکہ اس پارٹی کے بیشتر لوگ متوسط طبقہ کے تاجروں اور کاروباری شخصیات پرمشتمل ہے جو ووٹ تو دیدیتا ہے مار برداشت نہیں کرتا۔ویسے تو عجیب وغریب صورتحال ہے مقتدرہ ایک طرف نوازشریف سے گفت وشنید میں مصروف ہے دوسری جانب اس نے پیپلزپارٹی کو بھی آن بورڈ لیا ہے لیکن دونوں جماعتوں کو صحیح صورتحال کاادراک نہیں ہے آیامقتدرہ عمران خان کو نیچا دکھاکر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے یا وہ واقعی کپتان سے عاجز آچکا ہے خاص طور پر وہ بدترین معاشی صورتحال سے پریشان ہے اور اس کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ حکومت ریاست کو معاشی بحران سے نکالنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
بدقسمتی سے سیاسی صورتحال ماضی کی طرح بن گئی ہے جمہوریت کی مضبوطی استحکام اور آئین کی بالادستی دوبارہ پیچھے چلی گئی ہیں وہی صف بندی ہے جو ماضی میں ہوتی رہی ہے اور حسب سابق اپوزیشن عریضہ گزار ہے کہ اس کے سرپر ہاتھ رکھاجائے البتہ زرداری ان ہاؤس تبدیلی اور ن لیگ فوری انتخابات چاہتی ہے زرداری کا خیال ہے کہ فوری انتخابات سے ایک انتشار کی کیفیت پیدا ہوگی لیکن ن لیگ کا موقف ہے کہ اگر فوری طور پر انتخابات نہ ہوئے تو آئندہ بجٹ تک حکومت کو ڈیفالٹ کرنا پڑے گا جس کے نتیجے میں ایسی مشکلات پیداہونگی کہ انہیں کوئی بھی حل نہیں کرسکے گا ادھر تحریک انصاف ممکنہ طور پر پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ ہے اسے اپنی بدترین ہار کا خدشہ لاحق ہے عمران خان کو مشورہ دیاگیا ہے کہ بزدار کو ہٹائے بغیر بلدیاتی انتخابات کا نتیجہ 60فیصد ن لیگ کے حق میں نکلے گا اگرپنجاب کے بلدیاتی ادارے تحریک انصاف کے ہاتھ نہ لگے تو سمجھو کہ آئندہ جنرل الیکشن بھی اسکے ہاتھ سے نکل جائیں گے زیادہ امکان یہی ہے کہ حکومت کسی بھی صورت میں بلدیاتی انتخابات کو موخر کرکے جان بچانے کی کوشش کرے گی یہ تمام معاملات ایک طرف اور اقتصادی زبوں حالی سب پر بھاری ہے کیونکہ حکومت کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہ لاکھوں پنشنرز کی ادائیگی کردے اسکے باوجود حکومتی ترجمان اور وزیرخزانہ شوکت ترین مژدہ سنارہے ہیں کہ معیشت نے اٹھنا شروع کردیا ہے اور منی بجٹ کے باوجود کہاجارہا ہے کہ مہنگائی کی لہر میں جلد کمی آئیگی حکومت کے یہ سارے دعوے کھوکھلے ہیں ایسے بیانات کا مقصد اپنے کارکنوں اور عوام کو تسلیاں دینے کے سوا کچھ نہیں ہے ایسی طفل تسلیوں کے باوجود ق لیگ ہری جھنڈی دکھانے والی ہے حالانکہ وہ خالصتاً ادھر کی جماعت ہے اور اشاروں کے بغیر کوئی قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں لیکن پرویز الٰہی نے زرداری سے اپنے معاملات طے کرلئے ہیں جونہی الیکشن کا اعلان ہوگا دونوں جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا اعلان کریں گی جو ایک طرح سے انتخابی اتحاد ہوگا ایک ایسا اتحاد سندھ میں قائم ہونے جارہا ہے جو پیپلزپارٹی مخالفین پر مشتمل ہوگا لیکن زیادہ ترامکان یہی ہے کہ سرپرستی سے محروم ہونے کے بعد تحریک انصاف کوئی قابل در نتائج حاصل نہیں کرسکے گی جبکہ ایم کیو ایم شہری علاقوں میں پہلے سے زیادہ نتائج حاصل کرے گی تاکہ بہ وقت ضرورت کام آسکے اس اتحاد میں جی ڈی اے بھی شامل ہوگی علاقائی بندوبست کے تحت سندھ میں جے یو آئی بھی جی ڈی اے کی اتحادی رہے گی اس جماعت کا خیال ہے کہ لاڑکانہ سمیت بالائی سندھ میں وہ جی ڈی اے سے مل کر پیپلزپارٹی کوٹف ٹائم دے گی اسی لئے مولانا زرداری سے سردمہری برت رہے ہیں لیکن یہ محض خوش فہمی ہے پیپلزپارٹی سندھ میں کم وبیش پرانی پوزیشن دوبارہ حاصل کرے گی بہرحال جو بھی ہوگا وہ اوپر کے محفر ناموں کے بغیر نہیں ہوگا۔
عمران خان کو جو چیلنج درپیش ہیں ان کی وجہ سے ان کی شخصیت کے پوشیدہ پہلو ایک ایک کرکے سامنے آرہے ہیں انہوں نے حال ہی میں برطانیہ کی ایک لابی فرم کی خدمات حاصل کی ہیں جس نے مشورہ دیا ہے کہ وزیراعظم اسلام دین اور ریاست مدینہ کی باتیں ہر تقریر اور گفتگو میں کریں کیونکہ اسلام کے بارے میں پاکستانی عوام بہت جذباتی ہیں جس سے وزیراعظم کی شخصیت اورپارٹی کو فائدہ ہوگا یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم آج کل ریاست مدینہ کی باتیں زیادہ کرنے لگے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ٹائیگر معیشتیں ریاست مدینہ کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں لیکن لابی فرم نے وزیراعظم کو یہ نہیں بتایا کہ خالی خولی نعرے کب تک چلیں گے کیونکہ پاکستان کا سارا نظام سود پر استوار ہے وہ مالیاتی اعتبار سے قلاش ہے اور وہ آئی ایم ایف قرض دینے والے دیگراداروں کامحتاج ہے اس صورتحال میں مدینہ کا غیرسودی نظام کیسے قائم ہوسکتا ہے بالآخرخالی فولی نعروں کا پول کھل جائے گا اور عوام منفی ردعمل دکھائیں گے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ عمران خان کو نوازشریف کی طرح نکالنا آسان نہیں ہے عمران خان کو گوروں کی زبان پر عبور حاصل ہے اگر انہیں وقت سے پہلے نکال دیا تو وہ ساری دنیا سر پر اٹھالیں گے اور انکشاف پہ انکشاف کرتے جائیں گے جس کی وجہ سے مقتدرہ کو بہت مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا عالمی میڈیا انہیں ہاتھوں ہاتھ لے گا اور ان کے انٹرویوز شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہونگے جس کی وجہ سے کہرام برپا ہوگا چنانچہ انکو گھر بھیجنے کیلئے ایک موثر حکمت عملی تیار کیاجارہا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ کپتان شدید ناکامی سے دوچار ہیں اگروہ اپنی مدت پوری کرگئے تو ریاست میں انتشار پھیلے گا اور لوگ باہر آکر لوٹ مار شروع کردیں گے اس کی پہلی مثال حیدرآباد کے قریب یوریا سے لوڈ ایک ٹرک کو لوٹنے کا واقعہ ہے۔مہنگائی اور بیروزگاری نے سنگین صورتحال اختیار کرلی ہے یہ اپوزیشن تو فرینڈلی مخالف کررہی ہے اگر یہ سنجیدہ ہوجائے پہیہ جام ہڑتال کی کال دے اور مہنگائی کے مسئلہ پر عوام کو بلائے تو سڑکوں پر آنے کیلئے یہ نہایت موذوں وقت ہے لیکن اپوزیشن کو بھی ایمپائر کے اشارے کا انتظار ہے اس کے بغیر وہ کوئی رسک لینے کیلئے تیار نہیں ہے جبکہ فریقین کے پاس وقت کم ہے اگرمارچ تک تبدیلی نہ آئی تو ڈیڑھ سال بعد عام انتخابات کاانتظار کرنا پڑے گا اور یہ معلوم نہیں کہ تب تک کیا بندوبست کیاجائیگا اور معاملات کس جماعت سے طے ہونگے۔
البتہ یہ طے ہے کہ بلوچستان میں باپ کی بجائے ایک نئی کنگز پارٹی کی ضرورت پڑے گی صوبائی حکومت میں شامل مخلوط جماعتوں کے بیشتر اراکین باپ پارٹی کو چھوڑ کر پرواز کیلئے تیار ہیں الیکشن سے قبل جس دن نگران حکومت کے قیام کا اعلان ہوا تو وزیراعلیٰ سمیت کئی اراکین پیپلزپارٹی اور بعض ن لیگ میں شمولیت اختیار کرلیں گے اگرمقتدرہ کو الگ سے کسی کنگز پارٹی کی ضرورت پڑی تو اس کے لئے نیا بندوبست کرناپڑے گا۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں