قرض کی مئے اور اقتدار اعلیٰ کی فاقہ مستی

تحریر: راحت ملک
30دسمبر بروز جمعرات حکومت نے بلا آخر قومی اسمبلی کے اجلاس میں ضمنی /منی بجٹ پیش کردیا منی بجٹ کے ذریعے 560ارب روپے کے ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل کیا ھے سرکای موقف کے مطابق 350 ارب روپ کی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہیں جبکہ مختلف اشیاء پر ٹیکسز کی شرح میں اضافہ بھی ہوگا۔وزیر خزانہ کا استدلال ہے کہ منی بجٹ سے عام افراد و صارفین پر صرف دو ارب روپے کا مالی بوجھ پڑے گا جبکہ بقیہ تمام ٹیکس ان درآمدی اشیاء خوردونوش پر عائد ہونگے جسکا اثر ان اشیاء کو استعمال کرنے والے امیر طبقے پر پڑے گا۔اس استدلال کو تسلیم کرلیا جائے تو حکومت تسلیم کررہی ہے کہ 2020-21کے مالی بجٹ میں اس نے درآمدی اشیائے ضروریہ استعمال کرنے پر امیر طبقے پر ٹیکس عائد کرنے کی بجائے اسے چھوٹ اور رعایت دی تھی سوال یہ ہے کہ 360ارب روپے کی بالائی طبقے کو دی گئی ٹیکس رعایت/ سہولت سے ملکی وسائل میں درآنے والی کمی کو کیسے پورا کیا گیا تھا؟ نیز یہ کہ مزکورہ رعائت امیر طبقے تک محدود کیوں رکھی گئی تھی؟ کیا اسے معاشی پالیسی کے لیے حکومت کے نیو لبرل اکانومی کا وڑن مان لیا جاے؟ جو امیر طبقے کو سہولیات پہنچانے اور عام محنت کش طبقات پر سارا مالی بوجھ ڈالنے کا انسانیت دشمن نظریہ ہے۔ حالیہ ضمنی/مالی بجٹ میں نومولود بچوں کے استعمال کیلئے درآمد کئے جانے والے خشک دودھ پر 17فیصد کی شرح سے سیلز ٹیکس عائد ہورہا ہے شہری خواتین کی اکثریت بلکہ دہی خواتین کی بھی ایک بڑی تعدا بوجوہ نومولود بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے گریز کرتی ہیں اور یہ رجحان شہروں میں آباد35فیصد آبادی میں زیادہ پایا جاتا ہے جس میں کم آمدنی والے متوسط اور بالائی طبقے کے گھرانے شامل ہیں۔سوال عام آدمی کے متاثر ہونے کا نہیں بلکہ مسئلہ بچوں کے استعمال میں آنے والے دودھ فروخت کرنے والے تمام چھوٹے بڑوں تاجروں کیلئے پیدا ہوگا کیونکہ ایف بی آر سیل ٹیکس کیذریعے فروخت ہونے والی جی ایس ٹی اشیاء کی قیمت میں شرح منافع کے تناسب سے ہونے والے مرحلہ وار اضافہ پر سیل ٹیکس وصول کرتا ہے جو مختلف مراحل میں ویلیو ایڈڈ سسٹم کہلاتا ہے تاجر برادری ادا شدہ جی ایس ٹی ایڈجسٹ کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ سیل ٹیکس رجسٹرڈ ہو حتمی طور سارا سیل ٹیکس اشیاء استعما ل کندہ صارف پر منتقل ہوجاتا ہے منی بجٹ میں اسکی شرح 17فیصد تجویز کی گئی ھے یوں نومولد بچوں کا خشک دودھ اور اور دیگر ڈرامدہ شدہ غذائین سپلیمنٹ کی قیمتوں میں 17 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔حکومت کا یہ دعویٰ مکمل سچ نہیں کیونکہ ایڈجسٹمنٹ تاجر طبقے تک محدود ھے صارف کو بہر حال ٹیکس دینا ہوگا۔ اور اگر حتمی طور سارا ٹیکس قابل ٍ واپسی یا ایڈجسٹ ایبل ہے تو پھر اسے نافذ ہی کیوں کیا جارہا ہے؟ معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے لیے کوئی مناسب طریقہ اپنایا جا سکتا تھا۔واضح رہے جی ایس ٹی کی ایڈجسٹمنٹ صرف رجسٹرڈ تاجر کے لیے مختص ہے.ایڈجسٹ اپیل ہے۔نان رجسٹرڈ دجاندار کو ایک فیصد اضافی جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔دریں صورتحال میں گلی محلوں کے چھوٹے دکاندار یا تو سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن کرا کے ماہانہ ریٹرن جمع کرانے کا درد سر اپنائیں نیز سالانہ آڈٹ بھی کرائیں جس میں پائی جانے والی سہواً غلطی پر دکاندار کو لاکھوں روپے کا جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ایف بی آر کے بزرجمہر اپنی حکمت عملی معیشت کو دستاویزی بنانے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں حالانکہ معیشت کی دستاویز شکل وصورت کے لئے سیلز ٹیکس کی بجائے انکم ٹیکس کی رجسٹریشن کو تجارت کیلئے لازمی قرار دے کر بہ آسانی ہدف حاصل ہوسکتا ہے۔
منی بجٹ میں ادویات کے خام مال پر بھی ادویہ ساز فیکٹریوں کو اب17فیصد سیلز ٹیکس ادا کرنا ہوگا بالواسطہ طور پر اس اقدام سے تیار شدہ ادویہ کی قیمت میں مزید21.5فیصد اضافہ ہوگا۔ماچس پر بھی ٹیکس چھوٹ ختم کر کے اسے قابل ٹیکس اشیاء میں شامل کرلیا گیا۔درآمدی گوشت جو میکڈونکل جیسی کمپنیاں درآمد کرتی ہیں ان پر ٹیکس عائد کرنے سے اس متوسط طبقے پر بوجھ پڑے گا جو کہ شہروں میں مختلف نجی کمپنیوں میں ملازمت کرتے اور دن کے کسی پہر برگر ٹائپ فاسٹ فوڈ سے پیٹ بھرتے ہیں۔بجٹ تفصیلات عام ہونے سے حتمی طور حقائق واضح ہونگے کہ اس بجٹ سے افراد معاشرہ پر مجموعی طور پر کتنا اضافی مالی بوجھ پڑے گا؟ اور یہ کہ اس عام آدمی کی بھی رضاحت ہو جائے گی جس پر بقول وزیر خزانہ صرف2 ارب کا بوجھ پڑے گا۔کیا حکومت وضاحت کرنا پسند کرے گی کہ صارفین اور عام آدمی کے درمیان خط امتیاز کن شرائط یا بنیادوں پر کھینچا جاتا ہے؟۔کیا تمام صارفین عام آدمی نہیں؟کیا وہ وی آئی پیز ہیں؟منی بجٹ کی بد ترین صورت یہ ہے کہ یہ عوام پر 360ارب روپے کا مالی بوجھ تو ڈال رہا ہے مگر ان کی قوت خرید یا آمدن میں کسی بھی سطح پر اضافہ نہیں کر پا رہا۔
منی بجٹ کے ساتھ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی خودمختاری کے نام پر اسے ملک کے نظم واختیار سے ہی آزاد کردیا گیا ہے یہ اقدام آئی ایم ایف سے قرض کی قسط حاصل کرنے کیلئے اس کی شرائط کے تحت کیا گیا ہے اگر سٹیٹ بینک کی خود مختاری ملکی معیشت کیلئے انتہائی مفید عمل ہے تو اس پالیسی پر آئی ایم ایف کے دباؤ پر کیوں عمل ہورہا ہے؟نئی صورتحال میں سٹیٹ بینک کے گورنر محترم باقر رضا صاحب جو آئی ایم ایف کے کارندے بھی ہیں بطورگورنر سٹیٹ بینک حکومت پاکستان کے انتظامی کنٹرول سے قطعی آزاد ہونگے۔منی بجٹ کے بعد حکومت پاکستان سٹیٹ بینک سے ضرورت کے وقت کسی قسم کا قرض لینے کی مجاز نہیں ہوگی آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ حکومت سٹیٹ بینک سے بلا سود قرضے لے کر اپنے مالیاتی امور چلاتی ہے اور یہ عمل دراصل نئے کرنسی نوٹ چھاپنے کے مترادف ہے۔اب حکومت سٹیٹ بینک کی بجائے کمرشل بینکوں سے 2فیصد سود پر قرضہ حاصل کرسکے گی۔حکومت بینکوں سے جو قرضے حاصل کرے گی ان کا منفی اثر صنعتی وتجارتی سرگرمیوں پڑے گا تجارتی مقاصد کیلئے دئیے جانے والے قرضوں کی مقدار میں کمی آئے گی صنعتی وتجارتی شعبے میں مالیاتی اداروں کی سرمایہ کاری کم ہوگی تو صنعتی عمل میں انحطاط درآمدات میں تنزلی اور صنعتوں میں زوال سے منحت کش طبقے کی چھانٹی ہو گی یہ اقدام ہر اعتبار سے معیشت میں استحکام کے منافی ثابت ہوگا بلکہ جناب باقر رضا کی قیادت میں مصر کی طرح پاکستان کی معیشت کا بھی پہیہ منجمد کردیا جائے گا چنانچہ پاکستان مستقل طور پر عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنسا رہے گا اس کی قیمت انتہائی بھیانک طور پرادا کرنے کے خدشے کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد منی بجٹ ایوان زریں میں پیش تو ہوا مگر کسی مباحثے یا فیصلے کے بغیر اسے ایوان بالا کے سپرد کردیا گیا ھے جس کے پاس مالیاتی اختیارات نہیں۔ سینٹ زیادہ سے زیادہ مباحثے کے ذریعے متبادل تجاویز دے سکے گا جنہیں قبول کرنا حکومت کے لیے لازم نہیں۔ منی بجٹ منظوری کے مراحل میں ہے۔منظوری کے امکان کو یکسر رد نہیں کیا جاسکتا اس کے کئی اسباب ہیں عدم منظوری کی صورت آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط نہیں ملے گی تو معیشت جو پہلے ہی انحطاط پذیر ہے مزید گراوٹ کی شکار ہوجائے گی تاہم دوسری صورت میں قرض کی رقم معیشت کو استحکام دینے کی بجائے حکومتی معاملات بالخصوص زرمبادلہ کے حجم میں اضافے اور ادائیگیوں میں بگڑے توازن میں قدرے بہتری لا پائے گی۔کیا محض منی بجٹ کی منظوری(12جنوری2022ء) سے قبل ہی وہ واحد رکاوٹ ہے جسے عبور کرکے معاشی پالیسی کے جاری اہداف حاصل کئے جاسکیں گے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ منی بجٹ سے قبل آئی ایم ایف کی ایک اہم کڑی شرط پر ملک کے لیے طویل المعیاد منفی اثرات کی حامل قانون سازی کرکے دوسری رکاوٹ عبور کرنے پڑے گئی۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری کا بل اب ایوان بالا میں جائے گا۔ جہاں حکومت کی عددی پوزیشن‘ حزب اختلاف کے مقابل کمزور ہے ممکن ہے ایوان بالا مذکورہ بل رد کردے اس صورت میں بل کی منظوری کیلئے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانا ہوگا۔جہاں سے حکومت بل منظور تو کرائے گی لیکن شاید اس عمل میں معاملہ12جنوری سے آگے نکل جائے۔سٹیٹ بینک اس قانون کے بعد ریاست پاکستان کا واجبی سا ادارہ رہ جائے گا۔ عملاً اس پر عالمی مالیاتی نظام کی گرفت بذریعہ قانون انتہائی طاقتور ہوجائے گی۔
آئی ایم ایف کے شرط نامے میں عسکری محکمہ سے وابستہ متعدد ذیلی بینک اکاؤنٹ یا متعلقہ ذیلی منصوبوں کے سربراہوں کے نام پر بعض کمرشل بینکوں میں موجود اکاؤنٹس بھی بند کرنے کا حکم شامل ہے۔ مذکورہ تمام اکاؤنٹس آئندہ چند ماہ میں اسٹیٹ بینک یا نیشنل بینک میں منتقل کرنے ہونگے آئی ایم ایف قرص کی قسط جاری کرنے کیلئے جائزہ اجلاس میں اس شرط پر پیشرفت اور درپیش تکنیکی مشکلات ملحوظ رکھتے ہوئے ٹائم فریم میں اضافہ کرنے پرآمادہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اس شرط کا خاتمہ بعید از قیاس لگتا ہے۔
کرونا کے آغاز پر سال21-2020ء میں پاکستان کو کرونا سے نبرد آزمائی کیلئے ایک ارب ڈالر کی امداد دی گئی تھی۔ آئی ایم ایف کے حالیہ پیکج کی آخری قسط جو ایک ارب ڈالر بنتی تھی اسے کرونا کی وجوہ پر1.07ارب ڈالر کردیا گیا ہے۔اطلاعات کے مطابق قرض کی مطلوبہ قسط کے اجراء سے کرونا کیلئے دئیے گئے ایک ارب کے حسابات اور آڈٹ کی مفصل رپورٹ آئندہ ہونے والے جائزہ اجلاس میں پیش کرنی ہوگی اس خطیر رقم کے متعلق آڈیٹر جنرل پاکستان کی تحریری رپورٹ بہت تشویش ناک ہے جس میں 40کروڑ روپے کے گھپلے ظاہر کئے گئے ہیں۔ جو بے ضابطگیوں کی بجائے بدعنوان کی ذیل میں آتے ہیں عالمی مالیاتی ادارے اس خطیر رقم کا مکمل آڈٹ اور تشفی بخش جواب چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ مذکورہ چار شرائط کی تکمیل کے بغیر1.07ارب ڈالر کی آخری قسط ملنے کے امکانات محدود ہیں۔ قسط جاری ہو یا نہ ہو حکومت سٹیٹ بینک سے دستبردار ہوچکیہے‘ بجلی گیس اور دیگر اشیاء پر نئے ٹیکسز عائد ہورہے ہیں بجلی پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا نہ تھمنے والا استحصالی عمل جاری ہے۔560ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ دراصل مذکورہ اشتنائی اشیاء پر ٹیکس کے اطلاق کے ہم معنی ہے جو عوام کیلئے اذیت ناک ہوگا فرض کریں یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اگر قرض کی قسط جاری نہ ہوپائی یا اس میں تاخیر ہوئی تو صورت کتنی بھیانک ہوجائے گی؟حکومتی معاشی ناکامی مد نظر رکھتے ہوئے یہ قیاس کرنا آسان ہے کہ قرض ملے نہ ملے حکومت اور اس کی پالیسی چلتی نظر نہیں آرہی۔