عالمی سیاست اور گوادر بندرگاہ

تحریر: صدیق کھتیران
پچھلے ڈیڑھ سو سال سے دنیا کی دفاعی اورمعاشی حکمت عملی کا دارومدار سمندری بندرگاہوں اور اس سے جڑی پائیدار شاہراہوں پر ہوتا آیا ہے۔روس کی دفاعی لائین اسکی زمینی وسعت رہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس کا رقبہ ساٹھ لاکھ مربع میل ہے جس میں 75 فی صد علاقہ براعظم ایشیا کے اندر ہے جبکہ اس خطے کی آبادی اس کے کل آبادی کا صرف 22 فی صد ہے۔ مگر اس کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس کی ایک ہی موثر بندر گاہ ولادی واسٹک ہے جو کہ شدید سرد موسم اور پانی جمنے کی وجہ سے سال میں پانچ سے چھ ماہ بند رہتی ہے۔دوسری بندر گاہ اس کی آج کل یوکرین اور مالدوا کے سرحدی تنازعے کی زد میں ہے۔آگے چل کر اس کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تیل اور گیس جوکہ یورپ کو جاتا ہے شدید خطرے سے دوچار ہے۔ایک تو متبادل توانائی دوسرا شیل گیس کی ساحلی علاقوں بشمول مکران اور وسیع امریکی ساحلوں میں دریافت ہے۔اس گیس کو آسانی سے مائع اور پھر ٹرانسپورٹ کرکے واپس گیس میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔شیل گیس کی اس دریافت نے امریکہ کیلئے ایک سو سال تک توانائی کا مسلہ حل کردیا ہے۔مگر روسی معیشت کے لیئے نیا چیلنج کھڑا کردیا ہے۔لہزا اس کے پاس متبادل کے طورپر گوادر اور استنمبول کی بندر گاہیں رہ گئی ہیں تاکہ وہ اپنا تیل و گیس بمع پیداوار چین،انڈیا ودیگر افروایشیائی ممالک کو بحرہند کے ذریعے سے بھیج سکے۔اسی طرح چین جس کی سمندی ترسیل کا دارومدار آبنائے ملائیکا پر ہے جہاں سے روزانہ بارہ ملین بیرل تیل گزاراجاتا ہے۔اس کے اطراف سنگاپور، ملیشا، ویت نام اور انڈونیشیا جیسے کاروباری رقیب صنعتی ممالک رہتے ہیں۔ جوکہ اپنے تئیں خود ایک غیر محفوظ راستہ ہے۔جبکہ چین کی اپنی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ سے بڑھ چکی ہے۔اس کی ذراعت صنعتی آلودگی کی وجہ سے کمزور ہوتی جارہی ہے۔وہ اپنی آبادی کو تین اطراف یعنی، سنٹرل ایشیا جس کی مجموعی آبادی ستر اسی لاکھ، برما اور بلوچستان جیسے کم آبادی والے علاقوں میں بسانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ایسے میں اس کو گوادر بندرگاہ کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک تو آبنائے ملائیکا پر سے انحصار کو کم کرسکے دوسرا رسد کے اخراجات کو قابو میں لاسکے۔ اسی طرح ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے چالیس پچاس سال میں چین معیشت اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے امریکہ سے آگے نکل چکا ہوگا۔جس کی بحری فوج بین القوامی سمندروں میں اپنے بحری بیڑے لاچکی ہوگی۔ دوسری طرف امریکہ کیلئے بڑھتی ہوئی میکسیکوئن ہسپانوی آبادی ایک درد سر بنتی جارہی ہے۔اگلے پچاس برسوں میں یہ آبادی امریکہ اور میکسکو کے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں کا فرق مٹادے گی۔ جبکہ ٹیکنالوجی کی وسعت نے امریکہ سے انڈسٹریلائزیشن کے قائدانہ کردار کو بھی گھنادیا ہے۔ادھر جاپان اور یورپ جیسے صنعتی خطے اپنی بوڑھی آبادی اور کم نئی نسل کی پیدائش کے سبب شدید سماجی مسلوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہندوستان کو افغانستان، مڈل ایسٹ، سنرل ایشیا جس کی تجارت ایک اندازے کے مطابق با آسانی ایک سو بلین ڈالر سالانہ ہوسکتی ہے اس کو بھی گوادر کی بندرگاہ کی اتنی ہی ضرورت ہے۔ مگر ہم ہیں کہ بلوچستان اور ساحل کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ اکیسویں صدی تجارت اور صنعتی مصنوعات کی ہے اور اسکے لیئے بندرگاہیں اور اربانائزڈ مراکز کی ضروت ہے۔ترقی یافتہ ممالک کے تھنک ٹینک ان مرکزوں کو اپنی دسترس میں لانے کیلئے طرح طرح کے منصوبے بنارہے ہیں۔ چنانچہ نیشنلزم اور قومی فکر ہی بڑی طاقتوں کی للچاتی نظروں سے اپنے اپنے علاقوں کوبچا کر رکھ سکتی ہے آخر میں اتنی گزارش ہے کہ پاکستان میں 3800 کلو میٹرز پر چودہ موٹرویز بنائی گئی ہیں مگر پلاننگ کمیشن کی منصوبہ بندی پرہرگز حیرت نہیں ہوتی جس نے ابھی تک ایک بھی کلو میٹر موٹروے بلوچستان میں نہیں بنائی۔وجہ صرف ایک ہے بیگانگی کی حد تک ناہموار قومی سوچ اور اس کے نتیجے میں شدید ناہموار ترقی۔ گوادر کی آبادی آج بھی پینے کے پانی اور بجلی کو ترس رہی ہے۔ وہاں کے مرد و زن یا تو آئے روز ہڑتالوں اور دھرنوں پر ہیں یا پھر لاپتہ ہوکر گمشدہ افراد کی فہرستوں میں اپنا اندارج کرا رہے ہیں۔