جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے

تحریر: انورساجدی
جب گوئبلز نے یہ کہا تھا کہ
جھوٹ اتنا بولو کو وہ سچ لگے
تووہ ڈیجیٹل دور نہیں تھا ذرائع مواصلات محدود تھے اطلاعات کا سب سے بڑا ذریعہ ریڈیو اور اس کے بعد اخبارات تھے اس لئے اس زمانے میں جھوٹ کو کافی عرصہ تک چھپایا جاسکتا تھا مثال کے طور پر 6اگست 1945ء کو امریکہ نے جاپان پر پہلا ایٹم بم گرایا تو پہلے دن اس کی تشہیر نہیں کی گئی اس لئے میڈیا بے خبر رہا لیکن فی زمانہ ایسا ممکن نہیں ہے عوام کا شعور اور خبروں پر دسترس بھی پہلے سے بڑھ گئی ہے اس لئے جو لیڈر اگر حقائق چھپانے کی کوشش کرتا ہے تو عوام اصل حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں۔
یہ بات اب تقریباً ثابت ہوچکی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا سارا کمال پروپیگنڈہ ہے وہ سوشل میڈیا کی طاقت سے اپنی پروپیگنڈہ مشنری چلارہے ہیں جبکہ ان کی کارکردگی صفر سے بھی نیچے مائنس میں ہے منگل کے روز عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ صوبہ پشتونخواء میں صحت عامہ کی بری صورتحال ہے اسپتالوں میں ایکسرے مشین تک نہیں ہیں لیکن تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہاں کے اسپتال اور صحت کا نظام بہت اچھا ہے۔
بدعنوانی کے درجنوں اسکینڈل منظر عام پر آجانے کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ وہ ایمانداری اور دیانتداری پر مشتمل ایک برانڈ ہیں جبکہ باقی سارے لیڈر چور اور ڈاکو ہیں انہوں نے تحریک انصاف کے ترجمانوں سے کہا کہ وہ مخالفین کے سامنے برانڈ عمران خان پیش کریں اور ان کے پروپیگنڈے کا جواب دیں سبحان اللہ اتنا بلند بانگ دعوے کے اگلے ہی روز الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کو امانت میں خیانت کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ فارن فنڈنگ کیس میں 53 کاؤنٹس چھپائے گئے ان کی 33 کروڑ کی مالیت ظاہر نہیں کی گئی سنا ہے کہ وہ سارے اکاؤنٹس چھپائے گئے جن میں رقومات ناپسندیدہ ممالک اور قابل اعتراض تنظیموں کی طرف سے امدادی رقومات آئی تھیں اگر الیکشن کمیشن کو کسی غیر مرئی طاقت نے نہیں روکا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا الیکشن کمیشن کو اختیار ہے کہ وہ جرم ثابت ہوجانے پر پارٹی پر پابندی عائد کرے اور اس کے تمام عہدیداروں کو تاحیات نااہل قرار دے فارن فنڈنگ کیس2014 سے زیر التواء تھا اور کپتان نے طاقت کے بل بوتے پر اس کا فیصلہ نہیں ہونے دیا تھا اس نے جوابی وار کے طور پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف بھی درخواستیں دائر کردی تھیں اگر وہ جماعت بھی مجرم ہوئے تو ان پر بھی پابندی لگ سکتی ہے باالفرض محال تینوں جماعتوں پر پابندی لگ جائے تو عوام پر کیا فرق پڑے گا ایک وقتی بھونچال آجائے گا کچھ عرصہ کے بعد یہ لوگ نئی جماعتیں بناکر کام شروع کردیں گے جیسے کہ نیپ پر پابندی کے بعد این ڈی پی بنائی گئی اوربالآخر اے این پی قائم ہوئی یہی عمل دوہرایا جائے گا اس سلسلے میں پیپلز پارٹی فائدے میں رہے گی کہ یہ دو ناموں سے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے اگر ایک بھی بچ گئی تو کام چل جائے گا اگر پابندی لگ گئی تو تحریک انصاف کے ساتھ بہت برا ہوگا حتیٰ کہ اس کا وجود تک مٹ جائے گا کیونکہ اس جماعت کی جڑیں زمین میں پیوست نہیں ہیں بلکہ گملوں میں لگی ہوئی ہیں یہ ایک مصنوعی جماعت ہے جس کا مقصد دائیں بازو کو ربقی سیاست کو مستحکم کرنا تھا تاکہ کوئی حقیقی جماعت عوام میں سرایت نہ کرجائے عمران خان کا خیال ہے کہ عوام کو بار بار بیوقوف بنایا جاسکتا ہے اقتدار کے ابتدائی دو سالوں میں ناکامی کے بعد انہوں نے ریاست مدینہ کا شوشہ چھوڑا تاکہ سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیلا جاسکے حالانکہ اس وقت خود سعودی عرب میں بھی ریاست مدینہ کا ماڈل موجود نہیں ہے ریاست مدینہ کا خاتمہ خلفائے راشدین کے بعد ہوا تھا ملوکیت کے قیام کے بعد ریاست مدینہ کا ماڈل باقی نہیں رہا عمران خان جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں ریاست مدینہ کا قیام ناممکن ہے خاص طور پر ایسی ٹیم کے ساتھ جس کی کوئی بھی کلیسیدھی نہیں ہے لیکن انہوں نے ”گوئبلز“ کی جو ٹیم رکھی ہے وہ نہ صرف اپنی حکومت کی کامیابی کے دعوے تواتر کے ساتھ کررہی ہے بلکہ اس جھوٹ اور خوش فہمی کے سہارے تحریک انصاف کے کارکنوں کو یقین دلایا جارہا ہے کہ آئندہ حکومت بھی انہی کی ہوگی سوچا جائے تب کیا ہوگا جب اس جماعت پر سنگین بدعنوانیوں اور دردغم گوئی کی بنیاد پر پابند لگ جائے اور اس کے سارے عہدیدار سیاست اور انتخابات سے فارغ ہوجائیں بے شک تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرے گی اور فیصلے کو لٹکائے رکھے گی لیکن اس سے اس کی ساکھ اور نیک نامی کو ایسادھچکہ لگے گا وہ آئندہ ہر انتخابی دوڑ سے باہر ہوجائے گی۔
ٹیکنالوجی اتنی تیزی سے ترقی کررہی ہے کہ ہر روز دنیا کے حالات بدل جاتے ہیں 1992ء میں جب ”ارکسن“ نامی کمپنی نے موبائل فون ایجاد کیا تھا تو کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ چند سالوں کے دوران دنیا کے حالات یکسر بدل جائیں گے ”ارکسن“ کو موبائل ایجاد کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا کیونکہ جلد ”نوکیا“ دنیا پر چھا گئی نوکیا کے عروج کو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا اٹیسوجابزنے اسمارٹ فون ایجاد کیا اس نے دیکھتے ہی دیکھتے روزہ استعمال کی بے شمار چیزوں کو ضم کردیا آئی فون کے بعد اینڈرائڈ ایجاد ہوا جس نے جنوبی کوریا کی کمپنی سام سنگ کو بام عروج پر پہنچا دیا لیکن ایجادات کہاں رکنے والے تھے ساؤتھ افریقہ سے تعلق رکھنے والے مہم جوایلن مسک نے ٹیسلاکمپنی قائم کرکے بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنانا شروع کردیں چند سال کے دوران ٹیسلا ایپل کو شکست دے کر دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی ایلن مسک نے بہت جلد انفارمیشن ٹیکنالوجی میں قدم رکھنے کا اعلان کیا ہے وہ خلا میں سینکڑوں سٹلائٹ چھوڑ کر انٹر نیٹ بالکل فری فراہم کریں گے جس کے بعد ایک بہت بڑا طوفان آئے گا انٹر نیٹ کی رفتار روشنی سے بھی تیز ہوجائے گی کھربوں ڈیٹا چند سکینڈز میں منتقل ہونا ممکن ہوجائے گا لیکن یہ طوفان بہت کچھ بہا کر لے جائے گا مثال کے طور پر ہر شخص اپنا پرائیوٹ چینل اور سائٹس بناسکے گا لہٰذا کروڑوں چینلوں اور سائٹس کی موجودگی میں انہیں دیکھنا ممکن نہ ہوگا ہر گلی اور ہر بازار کے اپنے چینل اور سائٹس ہونگے اس کے نتیجے میں بہت بڑی افراتفری اور انتشار کی کیفیت پیدا ہوجائے گی دنیا کے تمام ٹی وی چینل بے کار ثابت ہونگے کیونکہ کروڑوں آرا تبصرے اور خبریں بہ یک وقت گردش کررہی ہونگی لوگوں کیلئے مشکل ہوجائے گا کہ وہ کیا کیا دیکھیں اور کیا کیا نہ دیکھیں۔
جہاں تک ایلن مسک کی کمپنی ٹیسلا کا تعلق ہے تو انہوں نے 19 ویں صدی کے عظیم موجد ٹیسلا کا نام منتخب کیا ہے ٹیسلا اور ایڈیسن عمر عصر اور عظیم موجد تھے ایڈیسن نے بجلی کا نظام ڈی سی اور ٹیسلا نے اے سی ایجاد کیا تھا وقتی طور پر ایڈمن کامیاب رہے تھے لیکن آج ساری دنیا ٹیسلا کا معترف ہے وہ اہم ایجادات کے باوجود عمر کے آخری حصے میں دیوالیہ ہوگئے تھے اور پوری زندگی ہوٹل کے ایک کمرے میں رہنے پر مجبور ہوگئے لیکن آج ڈی سی اور اے سی کے بغیر برقی نظام کا تصور ہی ناممکن ہے۔
مجھے ذاتی طور پر خدشہ ہے کہ ایلن مسک کی اہم ترین ایجادات ٹیسلا کی طرح مہم جوئی کا شکار نہ ہوجائیں اور کمپنی ٹیسلا کا انجام بھی مسٹر ٹیسلا کی طرح نہ نکلے خاص طور پر مسک نے خلا میں انسانی کالونیاں بنانے کا جو اعلان کیا ہے وہ پر خطراور بہت مہنگا کام ہے اس کے علاوہ دنیا کی تمام چیدہ چیدہ کاربنانے والی کمپنیوں نے بھی ٹیسلا کے مقابلے میں الیکٹرک گاڑیاں بنانا شروع کردی ہیں اس سے ایلن مسک کے کاروبار کو سخت مقابلے کا سامنا ہے میری خوش گمانی ہے کہ ڈیجیٹل سونامی کے دور میں بھی اخبارات قائم رہیں گے اور نئی شکل میں سامنے آئیں گے کیونکہ ضابطہ تحریر کو کوئی بھی ایجاد ختم نہیں کرسکتی کیونکہ یہ ریکارڈ ہے ریکارڈ کے بغیر ڈیٹا کی اہمیت باقی نہیں رہتی۔
بہرحال بات ہورہی تھی کہ اس ڈیجیٹل دور میں اطلاعات عمل اور طرز عمل کو کس طرح عوام سے مخفی رکھا جاسکتا ہے مثال کے طور پر پاکستان کی مرکزی حکومت کو ریکوڈک کا سودا کرنا تھا تو اس نے صوبے میں ایک بے ضرر اور شریف النفس حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ بے چوں و چراں فیصلہ کی توثیق کرے وفاقی حکومت کو معلوم تھا کہ اسمبلی میں جو لوگ بیٹھے ہیں وہ بھی فرماں بردار اور معاملہ فہم ہیں اس لئے وہ کوئی مخالفت نہیں کریں گے حکومت کو اگر کوئی خطرہ تھا تو وہ سردار اختر جان مینگل سے تھا لیکن توقع کے برخلاف انہوں نے بھی ریکوڈک کے خفیہ معاہدہ کی مشروط حمایت کردی ان کا سادہ سا مطالبہ یہ ہے کہ آمدنی کا نصف حصہ بلوچستان کو دیا جائے اس مطالبہ کو زبانی کلامی پورا کرنا حکومت کیلئے کونسا مشکل ہے وفاق نے خود سردار صاحب کے بقول 1952ء سے گیس اور ضیاؤالحق کے دور سے ابتک سیندک کی آمدنی ہڑپ کررکھی ہے بھلا وہ کہاں ریکوڈک کی آمدنی بلوچستان کو دینے چلی ہے لیکن سردار صاحب کے حیران کن طرز عمل ایک دن ضرور منظر عام پر آجائے گا اور اسے ریکوڈک کے معاہدہ کی طرح خفیہ رکھنا مشکل ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں