کل کے لاڈلے آج کے لاڈلے

تحریر: انورساجدی
حامد میر سمیت کئی دانشور شکوہ کررہے ہیں کہ پانامہ کیس میں نوازشریف کو اپنے بیٹے سے ملنے والی تنخواہ کے دس ہزار درہم چھپانے پر نہ صرف عہدے سے معزول کردیا گیا بلکہ تاحیات نااہل بھی قراردیا گیا اگرنوازشریف اس وقت لندن میں نہ ہوتے تو کوٹ لکھپت جیل میں ہوتے اس کے برعکس ممنوعہ فنڈنگ کیس میں وزیراعظم عمران خان پر 33کروڑ روپے چھپانے کا الزام ہے لیکن لگتا ہے کہ ان پر ہاتھ ہلکا رکھا جائے گا کوئی معجزہ ہی تحریک انصاف کو تحلیل اور عمران خان کو نااہل قرار دلواسکتا ہے دوہرا معیار آئین سے ماوریٰ فیصلے اور انصاف کا فقدان شروع سے ہی اس ریاست کا مسئلہ رہا ہے جس کا آغاز جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت سے شروع ہوا تھا 1977ء میں جب ضیاؤ الحق نے مارشل لاء لگایا تو سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاء کو جائز قرار دیا جس بنچ نے یہ فیصلہ دیا اس میں کئی گبھرو جج شامل تھے اسی طرح کے ایک فیصلہ میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کوبھی جائز قرار دیا گیا اس فیصلے میں جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی شامل تھے سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو ضرورت کے مطابق آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا تھا لیکن بعدازاں چوہدری صاحب نے بغاوت کرکے مشرف کیخلاف تحریک چلائی یہ تحریک اس لئے کامیاب ہوئی کہ پنجابی ایلیٹ نے اس میں حصہ لیا اس وقت پنجابی اشرافیہ کے نمائندہ چوہدری اعتزاز احسن تھے جو اپنے آپ کو روشن خیال اور ترقی پسند سیاستدان کہتے تھے لیکن بنیادی طور پر وہ شدید قسم کے پنجابی دانشور ہیں ان کی کتاب ”انڈس ساگا“ پڑھ کر اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔
1976ء کی بات ہے کہ بھتو نے مادری زبانوں میں تعلیم شروع کرنے کیلئے لینگویج اتھارٹی بنائی اس اتھارٹی کے دو اراکین پیپلزپارٹی کے چوہدری فخر زمان اور پنجابی ادیب راجا رسالو تھے ایک اجلاس میں جب سرائیکی زبان کا مسئلہ آیا تو پیپلزپارٹی کے رہنما فخر زمان اور راجا رسالو ہم زبان ہوکر بولے کہ سرائیکی کوئی زبان نہیں ہے بلکہ یہ پنجابی زبان کی ایک بولی ہے بہت شور مچایا گیا کہ سرائیکی پنجابی سے قدیم زبان ہے اس کا لٹریچر اور شاعری پنجابی سے بڑھ کر ہے لیکن وہ نہ مانے اور لینگویج اتھارٹی کا بائیکاٹ کردیا جس کی وجہ سے یہ ادارہ ہی ختم ہوگیا افتخار چوہدری اور اعتزاز احسن نے آئین کی بالادستی اورجمہوریت کی خاطر جنرل مشرف کیخلاف بغاوت نہیں کی تھی بلکہ وہ ایک اردو مہاجر کو مزید برداشت نہیں کرسکتے تھے اور یہ پنجابی ایلیٹ کا فیصلہ تھا اس کا ثبوت یہ ہے کہ وکلا کا لانگ مارچ جب گوجرانوالہ پہنچا تو جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اعتزاز احسن کو فون کرکے اطلاع دی کہ برطرف جج بحال کردیئے گئے ہیں جس کے بعد تحریک ختم ہوگئی۔
1990ء میں جب صدر غلام اسحاق خان نے نوازشریف اور ابھرتی ہوئی اشرافیہ کے دیگر لوگوں کے دباؤ پر بینظیر حکومت برطرف کردی تو سپریم کورٹ نے ان کے فیصلے کو جائز قراردیا اس سپریم کورٹ نے 1993میں علامہ اسحاق خان کے ہاتھوں وزیراعظم نوازشریف کی برطرفی کو ناجائز قراردیدیا حالانکہ دونوں وزرائے اعظم یکسان حالات اورآئین کی ایک ہی دفعہ کے تحت برطرف ہوئے تھے۔
اگرچہ بانی پاکستان نے ڈھاکہ جاکر اعلان کیاتھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی جس کے خلاف تحریک چلی تھی لیکن کئی سال بعد ایوب خان نے مجبور ہوکر بنگالی زبان کو دوسری قومی زبان قراردیا تھا سوشل میڈیا پر ایک پرانی تصویر ملی کہ لاہور میں اس فیصلے کیخلاف ایک ریلی احتجاج کررہی ہے
مغربی پاکستان کے حکمرانوں یا دوسرے لفظوں میں پنجابی ایلیٹ نے بنگالیوں سے جان چھڑانے کیلئے جو کچھ کیا وہ تاریخ کافیصلہ ہے اور اس کے دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پنجاب نے ذوالفقار علی بھٹوکو قائد عوام اور فخر ایشیاء بنایاجونہی شکست خوردہ ریاست پیروں پر کھڑی ہوگئی تو بھٹو کو نشان عبرت بنادیا جنرل ضیاؤ الحق نے پیپلزپارٹی کے ساتھ جوکچھ کیا اس کی وجہ سے وہ ابھی تک بے حال ہے ضیاؤ الحق کا یہ سیاسی فیصلہ تھا کہ پنجاب میں کسی گھس بیٹھئے کی گنجائش نہیں ہے لہٰذا انہوں نے نوازشریف کو جانشین بناکر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا نوازشریف کافی عرصہ تک مقتدرہ کے لاڈلے رہے لیکن آپسی اختلافات اور اختیارات کی تقسیم کے مسئلہ پر وہ لاڈلے نہیں رہے کیونکہ وہ پنجاب کے نمائندہ کی حیثیت سے دیگر صوبوں کی چھوٹی جماعتوں کو بھی ساتھ لیکر چل رہے تھے جیسے پشتونخوا میپ نیشنل پارٹی اور بی این پی
اگر 2008ء کے انتخابات سے پہلے بینظیر راولپنڈی میں شہید نہ ہوتی تو نوازشریف کا اقتدار میں آنا یقینی تھا لیکن اس سانحہ نے ہمدردی کے ووٹ پیپلزپارٹی کو دلوائے جس کی وجہ سے یہ پیپلزپارٹی اقلیتی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی اس کمزور اور ناتواں حکومت کو مقتدرہ اور عدلیہ نے ایک دن بھی سکون سے چلنے نہ دیا حتیٰ کہ اس کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو افتخار چوہدری نے توہین عدالت کے جرم پر معزول کردیا اس وقت عمران خان کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا ہے لیکن اس مسئلہ پر ان کی معزولی کا امکان نہیں ہے۔
جنرل کیانی زور لگاکر افتخار چوہدری کے تعاون سے ن لیگ کوبرسراقتدار لائے تھے راحیل شریف کے دور میں معاملات بگڑگئے اور آج تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ پنجاب کی طاقت ایلیٹ نوازشریف کیخلاف کیوں ہوگئی اسی دور میں کپتان عمران خان کا انتخاب کرلیا گیا ان سے نوازشریف کیخلاف بھرپور تحریک چلوائی گئی 126دن تک دھرنا دلوایا اگرچہ اس تحریک کے ذریعے نوازشریف کا اقتدار فوری طور پر ختم نہ ہوسکا لیکن 2016ء میں پانامہ کانام نہاد اسکینڈل لاکر ان کی معزولی کابندوبست کیا گیا جبکہ2018ء کے انتخابات میں یک طرفہ جھرلو پھیر کر ایک اور لاڈلے عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا مقتدرہ کا خیال تھا کہ موصوف اچھے اور فرماں بردار بچہ ثابت ہونگے لیکن اقتدار میں آنے کے دوسال بعد انہوں نے خود کو مکمل وزیراعظم سمجھنا شروع کردیا اور بعض فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکاری رہے اس کے علاوہ ان کی بدقسمتی کہ وہ ملک چلانے معیشت کو بہتر کرنے اور اچھی گورننس لانے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے ان کی سیاسی قوت اور شخصی ساکھ ختم ہوگئی ان ناکامیوں کی وجہ سے لانے والے بھی پریشان ہوگئے کہ ملک کوموجودہ حالات سے نکالنے کیلئے کیا تدبیر اپنائی جائے وزیراعظم افغانستان سے امریکی انخلا سے پہلے اور بعد میں طالبان کے وکیل بن گئے تھے لیکن طالبان نے آکر کوئی گرم جوشی ظاہر نہیں کہ عمران خان نے طالبان کو ضامن بناکر ٹی ٹی پی سے مذاکرات کئے افغان حکومت نے طالبان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ ڈیورنڈ لائن کی اس طرف سے حملے جاری رکھے اسی وجہ سے حکومت نے ٹی ٹی پی سے تین ماہ کی جنگ بندی ختم کردی ہے اور اس کے خلاف آپریشن شروع کردیا ہے ادھر طالبان نے کہا ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہ پشتونوں کوتقسیم کرنے کی سامراجی لکیر ہے طالبان کے جھتوں نے سرحد پر لگائی جانے والی باڑ کو اکھیڑنا شروع کردیا ہے یہ صورتحال عمران خان کیلئے پریشان کن ہونا چاہئے لیکن موصوف پرپریشانی کے آثار نہیں ہیں ان کے اعصاب کافی مضبوط واقع ہوئے ہیں وہ اندر سے فارن فنڈنگ کیس سے دہل گئے ہونگے لیکن ظاہری طور پر الیکشن کمیشن کے فیصلہ سے پہلے اپنے بارے میں خود فیصلہ صادر کررہے ہیں اور اپنی جیت پر خودکو مبارکباد دے رہے ہیں حالانکہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنا باقی ہے۔تحریک انصاف کااصرار ہے اس نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کیخلاف غیر ملکی فنڈنگ پر جودرخواستیں دی ہیں اس کا فیصلہ بھی ساتھ آنا چاہئے جبکہ انصاف کا تقاضہ ہے جس کا کیس پہلے چلا اس کا فیصلہ پہلے آنا چاہئے جس کا بعد میں دائر ہوا اس کا فیصلہ بعد میں آنا چاہئے۔
ملکی صورتحال سے لگتا ہے کہ ایک سیاسی معاشی بحران منہ کھولے کھڑا ہے نوازشریف سے خفیہ بات چیت شروع کی گئی تھی لیکن وہ فوری الیکشن کے مطالبہ کی وجہ سے ناکام ہوگئی اسی لئے نوازشریف سے صلح کی باتوں کو بے بنیاد قراردیاجارہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک ناکام وزیراعظم اور اس کی ناکام حکومت کو کیسے چلایاجائے چارناچار نوازشریف سے دوبارہ تعلقات استوار کرنا پڑیں گے کیونکہ پنجابی ایلیٹ بحران میں پھنس گئی ہے وہ آئین اور جمہوریت کو چلانے کی بجائے بار بار نئے تجربات کرکے ملک کو خود بحران میں مبتلار کررہی ہے اگرشفاف انتخابات کرواکر ایک صحیح منتخب حکومت قائم ہونے دی جائے تو اس طرح کے بحران پیدا نہیں ہونگے افسوس کہ اس وقت پاکستان اور سری لنکا کی صورتحال ایک جیسی ہے وہاں پر بھی سنہالہ اکثریت نے راجا پکشے کو جبری مسلط کررکھا ہے اور پورے اقتدار پر ان کا خاندان قابض ہے نتیجہ یہ ہے کہ سری لنکا کے پاس اشیائے ضروریہ کیلئے بھی زرمبادلہ نہیں ہے جبکہ اس کے اہم ترین پورٹ پر چین نے قرضوں کے بدلے قبضہ کرلیاہے اگر ہماری ایلیٹ کلاس کی لڑائی کچھ عرصہ مزید جاری رہی تو یہاں بھی سری لنکا جیسی صورتحال پیداہوسکتی ہے۔