مال مفت دل بے رحم

تحریر: انورساجدی
لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت کو دو سال مکمل ہوئے تھے تو گماشتہ چینلوں اور ان کے اینکروں نے حکومت کے خاتمہ کی پیشنگوئی شروع کر دی تھی لیکن زرداری نے گرتے پڑتے اپنی مدت پوری کرلی تھی سوائے اس کے کہ ایک وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی قربانی دینی پڑی تھی۔
تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے دو سال تو گماشتہ میڈیا نے اس حکومت کی تعریفوں کے طومار باندھے تھے اور اس کے ایسے کارنامے بیان شروع کر دیئے تھے جو کبھی اس سے سرزد نہیں ہوئے اور نہ آئندہ ہونگے لیکن گزشتہ سال کے ایک نوٹیفکیشن کے مسئلہ کے بعد گماشتہ میڈیا نے ایک ایک کر کے موجودہ حکومت کی حمایت پر پشیمانی اور شرمندگی کا اظہار شروع کر دیا نہ صرف یہ بلکہ حکومت کے قبل از وقت خاتمہ کی پیشنگوئیاں بھی شروع کر دیں اب جبکہ ساڑھے تین سال گزر چکے ہیں اور حکومت کی مدت پوری ہونے میں محض ڈیڑھ سال رہ گیا ہے حکومت کے خاتمہ کی قیاس آرائیاں اسی طرح جاری ہیں اندازوں اور قیاس آرائیوں کو اس وقت فروغ ملا جب لندن میں مقتدرہ کے نمائندوں اور نواز شریف کے درمیان گفت و شنید اور تعلقات کی بحالی کا عمل شروع ہوا یار لوگوں کا خیال تھا کہ ن لیگ سے دوبارہ تعلقات کی استواری کا مطلب موجودہ حکومت کے خاتمہ کا آغاز ہے لیکن مقتدرہ کیلئے نواز شریف کی کڑی شرائط کو تسلیم کرنا ممکن نہ تھا مثال کے طور پر اک دم سے سارے مقدمات کو ختم کرنا اور شریف فیملی کو باعزت بری کرنا ممکن نہ تھا جبکہ مقتدرہ کے نمائندوں کا موقف تھا کہ مقدمات چلتے رہیں اور شریف خاندان کے لوگ ایک ایک کر کے بری ہوتے جائیں مقتدرہ کی یہ تجویز بھی تھی کہ اگر اپوزیشن ان ہاؤس تبدیلی کیلئے تحریک عدم اعتماد لائے تو وہ حکومت کی حمایت نہیں کرے گی تاہم اس کا یہ کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو مدت پوری کرنے دی جائے تاکہ نام نہاد جمہوری نظام کا تسلسل برقرار رہے لیکن نواز شریف بضد تھے کہ حکومت کا خاتمہ کر کے عام انتخابات کا اعلان کیا جائے یہ شرط بھی تسلیم کرنا ممکن نہ تھا اس طرح وقتی طور پر بات چیت کا سلسلہ منقطع ہو گیا اسی دوران زرداری سے بھی رابطے ہوئے کیونکہ مقتدرہ کا خیال تھا کہ ن لیگ مقبول تو ہے لیکن اسی کی پالیسیاں قابل قبول نہیں ہیں اس لئے زرداری، ق لیگ، جنوبی پنجاب اور دیگر قوتوں کو ملا کر ایک کھلی ڈھلی اور کمزور حکومت قائم کی جا سکتی ہے یہ حکومت ہر طرح کی بات اور شرائط بے چوں و چراں تسلیم کرے گی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کی طرح مقتدرہ بھی تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کے طرز حکمرانی سے مایوس ہے وہ جان چکی ہے کہ اس حکومت میں غیر ملکی امداد لانے اور معیشت کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں ہے اسے مزید سہارا دینا ناقابل برداشت بوجھ کی مانند ہے اس کے ساتھ ہی کرپشن نے اتنا فروغ پایا ہے کہ عمران خان کا اس کے خلاف بیانیہ بھی دم توڑ گیا ہے مالی بے قاعدگیوں کے ایسے سینکڑوں سکینڈل منظر عام پر آ چکے ہیں جو ہوش ربا ہیں نہ صرف یہ بلکہ فارن فنڈننگ کیس میں مالی بے قاعدگی تقریباً ثابت ہو چکی ہے لیکن مقتدرہ کچھ کرنے سے ہچکچا رہی ہے اس کا سارا کچا چھٹہ حکومت گرنے کے بعد ہی سامنے آئے گا اور اس حد تک آئیگا کہ سالہا سال تک تحریک انصاف کی قیادت کو احتساب اور عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا اپنے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کو تعطل کا شکار بنانے کیلئے تحریک انصاف بعض پوائنٹس پر بلیک میلنگ کا سہارا لے رہی ہے جبکہ اس کا مطالبہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے فنڈز کا فیصلہ بھی اس کے ساتھ ہی سنایا جائے تاکہ ہم نہ رہیں تو سیاسی حریف بھی نہ رہیں۔
جناب عمران خان کو اس وقت یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس کے پاس تتُرپ کا ایک پتہ ہے جو وہ رواں سال کسی بھی وقت استعمال کر سکتے ہیں اگر انہوں نے موجودہ آرمی چیف کو ایک اور ایکسٹینشن دیناچاہا تو وہ اچھا خاصا سیاسی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اگر انہوں نے تُر پ کا پتہ اپنے حق میں استعمال کیا اور کوئی رکاوٹ نہ آئی تو وہ بازی جیت بھی سکتے ہیں اگر ”نئی نسبت“ ٹھہرنے کے بعد الیکشن کمیشن ڈر گیا اور فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ انصاف اور میرٹ کے مطابق نہ کیا تو تحریک انصاف پورا زور مارے گی کہ وہ آئندہ انتخابات بھی جیت لے حالانکہ تمام اہل فکر اور تبصرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف اس حد تک عوامی حمایت سے محروم ہو جائیگی کہ اس کے بیلٹ باکسوں سے کورا کاغذ ہی نکلیں گے کیونکہ کارکردگی کے اعتبار سے یہ حکومت صفر ہے اس کی ساری کارکردگی سوشل میڈیا کے سائٹس تک محدود ہے پارٹی رہنماء اپنی کوئی کمی خامی تسلیم کرنے کو تیار نہیں جس طرح کہ یہ لوگ ٹی وی پر بیٹھ کر میں نہ مانوں کی رٹ لگاتے رہتے ہیں اسی طرح وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی حکومت کے غیر موجود کارنامے بھی بیان کرتے ہیں یہ ان کی دیدہ دلیری ہے کہ وہ تاریخ کی بدترین کارکردگی کے باوجود ڈھیٹ بن کر دعویٰ کرتے ہیں کہ اگلی حکومت بھی ان کی ہوگی۔
وزراء کا یہ عالم ہے کہ مری میں صرف ڈیڑھ فٹ برفباری کے بعد 23جانیں ضائع ہوئیں بلکہ 36گھنٹے تک پھنسے ہوئے لوگوں کو نہ نکالا جا سکا مری میں پہلی برفباری کے بعد جب لوگوں نے بڑی تعداد میں وہاں کا رخ کیا تو وزراء نے شیخی بگھارتے ہوئے کہا کہ ایک لاکھ سیاحوں کا مری کی طرف رخ کرنا لوگوں کی خوشحالی کا پتہ دے رہا ہے ان کو اندازہ نہیں تھا کہ مری اور گلیات کے مقامی لوگ برفباری کے بعد کس کسمپرسی بھوک اور افلاس کا شکار تھے لوگوں کو یاد ہوگا کہ جنرل پرویز مشرف کے پردیسی وزیراعظم شوکت عزیز روز کہتے تھے کہ لوگ بڑے پیمانے پر گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، رنگین ٹیلی وژن اور اسمارٹ موبائل سیٹ خرید رہے ہیں یہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے آنے والی خوشحالی کا نتیجہ ہے جوں ہی مشرف کی حکومت رخصت ہوئی افغان جنگ کی وجہ سے ملنے والے اربوں ڈالر کے باوجود نگران حکومت کے دور میں زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو گئے خزانہ خالی ہو گیا اور شوکت عزیز کی خوشحالی کا دعویٰ ہواؤں میں اڑ گیا۔
وزراء اتنے لاپرواہ ہیں کہ وہ عالمی اداروں کی رپورٹیں بھی نہیں پڑھتے کئی رپورٹوں میں کہا گیاہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران غربت میں اضافہ ہو گیا ہے مہنگائی کی شرح میں اضافہ سے عام آدمی کی قوت خرید ختم ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں لوئر مڈل کلاس کا وجود ختم ہو گیا ہے جبکہ اپر مڈل کلاس بھی نیچے آ گئی ہے گزشتہ دنوں جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق نامساعد مالیاتی صورتحال کے باوجود صنعتکاروں کو چار کھرب روپے کا اضافی منافع حاصل ہوا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کی جو بھی پالیسیاں ہیں ان کا مقصد سرمایہ دار طبقے کو فائدہ دینا ہے ملک کا سارا ٹیکس غریب لوگوں سے اکٹھا ہوتا ہے لیکن اس عوامی پیسہ سے صرف سرمایہ داروں کو ریلیف دیا جاتا ہے کیونکہ یہ لوگ حکومت کے ہمدرد اور تحریک انصاف کے ڈونرز میں ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی کی یہ بات تو سب کو یاد ہوگی کہ میں جس پر بھی ہاتھ ڈالتا تھا وزیراعظم کہتے تھے یہ تو میرا آدمی ہے اس طرح ناکامی کے بعد شبر زیدی کو استعفیٰ دے کر گھر جانا پڑا۔
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے انگلینڈ میں جا کر کہا کہ ملک کا سب کچھ آئی ایم ایف کو لکھ کر دیا جا چکا ہے لیکن گورنر کے خلاف اس لئے کارروائی نہ ہو سکی کہ اس کے پاس فارن فنڈنگ کے کئی راز ہیں جو سبکدوشی کے بعد اگل سکتے ہیں۔
موجودہ حکومت کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ ملک کے تمام اثاثے گروی رکھنے کے بعد اس نے غریب صوبہ بلوچستان کے سب سے بڑے اثاثہ ریکوڈک کو ملٹی نیشنل کمپنی کو فروخت کر دیا وزیراعلیٰ بلوچستان سے انگوٹھا لگوانے کے باوجود اس سودے کی تفصیلات کو خفیہ رکھا جا رہا ہے کوئی وقت آئیگا جب اس مشکوک سودے کے خفیہ راز طشت ازبام ہوں گے اور یہ بھی بعید نہیں کہ کچھ لوگ اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریں جو ٹیھتیان کمپنی کی لیز منسوخ کرنے کا فیصلہ دے چکی ہے اس فیصلہ پر نظرثانی کی درخواست کے بغیر لیز کی بحالی کیسے ممکن ہے یہ لاڈلی حکومت نے سوچا نہیں ہے۔
عوامی دباؤ سے تنگ آ کر سیندک کا تابنا اور سونا لوٹنے والی چینی کمپنی نے اعلان کیا ہے وہ اب تک وفاقی حکومت کو کروڑوں ڈالر کی ادائیگی کر چکی ہے حالانکہ اس رقم سے بلوچستان کو ابھی تک ایک آنہ بھی نہیں ملا بلکہ الٹا جرمانے کی رقم میں سے چار اب ڈالر بلوچستان کے کھاتے میں ڈال دیئے گئے ہیں یہ توخیر حق و حساب کا معاملہ ہے بلوچستان کو جتنا بھی پیسہ ملے اس کا کوئی فاہدہ نہیں ہے کیونکہ طویل عرصہ سے بلوچستان میں قائم ہونے والی گماشتہ حکومتوں میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ کوئی ڈھنگ کا منصوبہ بنا لیتیں اب تک ملنے والے کھربوں روپے ضائع کر دیئے گئے ہیں نہ پانی کا کوئی ڈیم بنا نہ کوئی ڈھنگ کا ہسپتال قائم کیا گیا بلکہ سارے وسائل ایک محدود طبقہ کی خوشحالی پر جھونک دیئے گئے بلوچستان کا زیر زمین پانی جس طرح سولر کی وجہ سے بے دردی کی وجہ سے ضائع ہو رہا ہے ائندہ چند دہائیوں تک پورا بلوچستان ژوب سے لے کر مکران تک بے لق و ذق صحرا میں تبدیل ہو جائیگا اور ڈیٹرائٹ شہر کی طرح دارالحکومت کوئٹہ کو بھی پانی نہ ہونے کی وجہ سے ترک کرنا پڑے گا جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑے گی۔
مختلف وفاقی حکومتوں نے بلوچستان کے انتخابات میں مداخلت کر کے یہاں جو منصوعی ہائبرڈ نظام قائم کرنے کا تجربہ کیا ہے وہ بری طرح سے ناکامی سے دوچار ہے اگر شورش زدہ اور آفت زدہ بلوچستان کو بچانا ہے توا یسے ناکام تجربات سے گریز کرنا ہوگا ورنہ یہاں سے سونا اور تانبا تو نکلتا رہے گا مقامی لوگ نہ ہونگے ہو سکتا ہے کہ دراصل حکومتوں کی یہی پالیسی ہو لیکن لوگ اسے سمجھنے سے قاصر ہوں مرکزی سرکار کے جو منصوبے ہیں مستقبل میں پوری ساحلی پٹی بھی آلودگی کا شکار ہو کر ناکارہ ہو جائیگی لیکن مال مفت دل بے رحم کے مصداق لگتا یہی ہے کہ بلوچستان کے عوام پر کوئی رحم نہیں کیا جائیگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں