15سالہ آمریت کے قیام کی تجویز

تحریر: انورساجدی
جب سے صحافی حسن نثار نے یہ کہا ہے کہ ملک میں 15سال تک سخت ترین آمریت ہونی چاہئے کئی تبصرہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ یہ دراصل ایک تجویز ہے جو ان کے منہ میں ڈال دی گئی ہے حسن نثار کے مطابق اس دوران اگر کوئی جمہوریت کا نام لے تو اسے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کیا جانا چاہئے اور خرچ ہونے والی گولیوں کا خرچہ بھی ان کے لواحقین سے لے لینا چاہئے۔
غالباً حسن نثار کے ذہن میں 12اگست1948ء کو ہونے والا بابڑہ کا قتل عام کا سانحہ ہے جس میں صوبہ سرحد کے وزیراعلی قیوم خان کشمیری کے حکم پر 25ہزار خدائی خدمت گاروں پر ریاستی پولیس اور پیرا ملٹری فورسز نے اندھادھند بے رحمانہ گولیاں چلائی تھیں واقعہ کے بعد حکومت نے گولیوں کا خرچہ بھی جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سے وصول کیا تھا قیوم خان نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ مرنے والوں کو قبر کی جگہ نہ دی جائے چنانچہ ایک روایت کے مطابق چھ سو اور دوسری روایت کے مطابق پندرہ سو سے زائد لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا تھا حسن نثار اسی طرح کی آمریت چاہتے ہیں جو قیوم خان کشمیری نے صوبہ سرحد میں قائم کی تھی یا ایوب خان اور ضیاء الحق نے 21برس تک روا رکھی تھی 1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران سندھ میں قاضی احمد کے مقام پر حکومتی اداروں نے سینکڑوں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا تھا۔
دراصل حسن نثار ایک مائند سیٹ کا نام ہے یہ مائنڈ سیٹ قیام پاکستان کے وقت سے چلا آ رہا ہے اس کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 55فیصد آبادی کو نظر انداز کر کے 5 فیصد ہندوستانی مہاجرین کی زبان اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا تھا اس کا فیصلہ 21مارچ1948ء کو ڈھاکہ کے ریس کورس گراؤنڈ میں کیا گیا یہ گراؤنڈ پلٹن میدان کے نام سے بھی مشہور تھا اتفاق سے اردو کو اسی مقام سے بنگالیوں پر مسلط کیا گیا اور 16 دسمبر1971ء کو اسی مقام پر مغربی پاکستانیوں کے سپاہیوں نے ہتھیار ڈالے۔
اردو زبان کو قومی زبان کے اعلان کے بعد فسادات پھوٹ پڑے اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں کئی طلباء فائرنگ سے مارے گئے حکمرانوں نے گویا 21مارچ1948ء کو قیام پاکستان کے چند ماہ بعد ریاست کے دولخت ہونے کی بنیاد رکھ دی تھی گو کئی سال بعد بنگالی کو بھی دوسری قومی ز بان بنانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن یہ طے ہو گیا تھا کہ ریاست کو ایک مخصوص نظریہ ایک خاص طبقہ کی بالادستی کے اصول پر چلایا جائیگا اسی مقصد کی خاطر ایک نظریہ جو نصاب میں نظریہ پاکستان کے نام سے مشہور تخلیق کیا گیا اسی نظریہ کے تحت جس زمین پر نئی ریاست گئی اس کی تاریخ کو مسخ کیا گیا اور ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا کہ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
جب ہندوستان تقسیم ہوا تو دو صوبوں پنجاب اور سرحد میں مسلم لیگ کی مخالف حکومتیں قائم تھیں پنجاب کی یونیسٹ حکومت کے وزیراعلیٰ سرخضر حیات نے تقسیم ہند کے ساتھ ہی مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا تاہم صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ عبدالجبار خان عرف ڈاکٹر خان صاحب نے ایسا نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ 1948ء میں ان کی حکومت برطرف کر دی گئی اور اکثریت کے بغیر قیوم خان کو مسلط کر دیا گیا بابڑہ کا قتل عام دراصل لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ اس ملک آئین دستور اور جمہوریت کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ ایک مخصوص ٹولہ ماضی کے مطابق اپنا وضع کردہ نظام چلائیگا اور یہ بھی صاف نظر آ رہا تھا کہ طاقت کا منبع کراچی ہو گا جو کہ ریاست کا دارالحکومت تھا عجب بات ہے کہ اردو کو قومی زبان بنانے کے پیچھے طاقتور پنجابی اشرافیہ تھا حالانکہ اردو اس کی مادری زبان نہ تھی جس طرح کے نظریہ اسلام کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اسی طرح اردو زبان کا جبری نفاذ بھی ایک نئے نظریہ کا عندیہ تھا 1947ء سے لے کر 1958ء تک سہروردی کو چھوڑ کر یو پی اور مشرقی پنجاب کے مہاجرین کو ملک کی تقدیر سونپ دی گئی ایک موقع تو مغربی بنگال کے علاقہ مرشدآباد کے تاریخی غدار میر جعفر کے پڑپوتے اسکندر مرزا کو بھی دیا گیا ان کے بارے میں مشہور کیا گیا کہ ان کا تعلق ایران سے ہے جو کہ غلط تھا۔
جب ایوب خان نے پہلی بار مارشل لاء نافذ کیا تو آمریت کے طرفداروں نے اسے انقلاب کا نام دیا یہ کام اس زمانے کے حسن نثاروں نے کیا ایوب خان نے اپنے دو لائق ترین افسران الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب کو یہ ٹاسک دیا کہ وہ نظریہ پاکستان تخلیق کریں اوراس کیلئے ثبوت اکٹھے کریں چنانچہ بانی پاکستان سے منسوب جعلی کہاوتیں اور قول لکھے گئے جنہیں نصاب کی زینت بنایا گیا ایوب خان جو کہ ہری پور کے گاؤں ریحانہ کے باسی تھے کئی حوالوں سے آدھے تیتر اور آدھے بٹیر تھے وہ اپنا نسبی تعلق پشتونوں سے جوڑتے تھے لیکن عملی طور پر وہ اپنی مادری زبان ہندکو کی حمایت کرتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ہندکو پنجابی زبان کاایک حصہ ہے ایوب خان نے دارالحکومت کراچی سے راولپنڈی منتقل کر کے نہ صرف علاقہ پرستی کا ثبوت دیا بلکہ انہوں نے ہندوستان سے آنے والے بیورو کریسی سے اختیارات لے کر پنجاب منتقل کر دیئے یہ ایک سمبالک عمل تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ اقتدار ہمیشہ کیلئے پنجاب میں رہے گا وہ ذاتی اعتبار سے بنگالیوں کے خلاف تھے وہ ملک کی اکثریتی آبادی کو کمتر اور حقیر سمجھتے تھے یہ وہ زمانہ تھا کہ ریاست بنگال میں پیدا ہونے والی پٹ سن سے چلتی تھی اس کے زرمبادلہ سے نیا دارالحکومت اسلام آباد تعمیر کیا گیا ان کی کمائی سے مغربی پاکستان کی اشرافیہ عیش کرنے لگی حکومت نے جان بوجھ کر جعلی صنعتکاروں کا ایک طبقہ تیار کیا یہی طبقہ آگے چل کر 22 خاندان بن گیا ایوب خان نے ایک جعلی نصاب بھی مرتب کیا جس میں نئی نسل کو تحریک پاکستان کے بارے میں گمراہ کن معلومات پڑھائی گئیں ایک رائٹرزگلڈ بھی بنائی گئی جس میں شاہ کے قصیدہ خانوں کو چن چن کر اکٹھا کیا گیا جس نے ایک نیا مگر جعلی ادب تخلیق کیا پاکستان کے حقیقی شعراء اور ادیبوں کے کلام پر پابندی عائد کر دی گئی ہندوستان کے ایسے شعراء کے کلام کو نصاب اور ادب کا حصہ بنایا گیا جنہوں نے کبھی یہ سرزمین دیکھی نہیں تھی نہ ہی ان کے آباؤاجداد کا تعلق اس سرزمین سے تھا اکبر الہ آبادی خواجہ میر درد تلوک چندمحروم اور اسی قماش کے لوگوں کو بڑا بنا کر پیش کیا گیا حتیٰ کہ فیض غالب اور دیگر ترقی پسند شعراء کے کلام کو شجر ممنوعہ ٹھہرا دیا گیا
سماج کی نبض جاننے والے سعادت حسن منٹو پر درجنوں مقدمات قائم کئے گئے اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ عدالتوں میں گزرا۔
باچا خان جنہوں نے پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں نئی مملکت سے وفاداری کا حلف اٹھانا تھا انہیں ملک دشمن اور غداری قرار دیا گیا یہی سلوک سندھ اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرارداد پیش کرنے والے جی ایم سید کا ہوا شیخ مجیب جو آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سیکرٹری تھے ان پر اگرتلہ سازش کیس قائم کیا گیا باچا خان عبدالصمد خان اچکزئی، شہزادہ عبدالکریم بلوچ اور میر غوث بخش بزنجو کو ملک دشمنی کے الزام میں طویل عرصہ تک زندانوں میں رکھا گیا۔
اگرچہ یحییٰ خان کے دور میں ریاست دولخت ہوگئی لیکن نئے حکمران ذوالفقار علی بھٹو بھی ایوب خان اور یحییٰ خان کی روش پر چلتے رہے ان کے دور میں حیدر آباد سازش کیس تیار ہوا جس کے تحت این اے بی، بی ایس او اور پی ایس ایف کے لیڈروں پر حیدر آباد جیل میں مقدمہ چلایا گیا ضیاء الحق نے دوسرا مارشل لاء لگایا تو جمہوریت اور آئین کو شجرممنوعہ قرار دیا جس بھٹو نے نظریہ پاکستان کا استعمال کیا اسے راولپنڈی جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا ضیاء الحق کے جانشین سید پرویز مشرف الدین احمد دہلوی نے ایک مرتبہ ایڈیٹروں سے ملاقات کے دوران واضع طور پر کہا تھا کہ پاکستان میں کبھی مغربی طرز کی جمہوریت نافذ نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے حالانکہ مشرف موسیقی کے دلدادہ تھے وہ رقص و آہنگ کے بھی شوقین تھے اور راتوں کو موسیقی کے ساتھ مشروبات لئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے ان کی زبان سے نظریہ پاکستان کی بات سننا عجیب لگتا تھا۔
پس یہ ثابت ہوا کہ ملک پر جو جعلی اشرافیہ اور طاقتور حلقے مسلط ہیں وہ اپنے تسلط اور اقتدار کی خاطر ایک خاص بیانیہ اور مخصوص طرز کی خاطر آمریت کے نظام سے کبھی دستبردار نہیں ہونگے حالانکہ جمہوریت کی بحالی کی خاطر 1968ء میں طلباء نے خونی تحریک چلائی تھی اور 1983ء میں سندھ کے سینکڑوں لوگوں نے قربانی دی تھی نہ صرف یہ بلکہ بے نظیر 2007ء کو راولپنڈی کی کمپنی باغ کے سامنے شہید ہوئیں۔
سمخصوص طبقہ اپنے اقتدار کی خاطر ہر حد تک جا سکتا ہے اس نے پاکستان کا دولخت ہونا تو قبول کیا لیکن اقتدار کی راولپنڈی سے ڈھاکہ منتقلی قبول نہ کی۔
یہی طبقہ ہے جو 1973ء کے آئین اور 18 ویں ترمیم کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہے حتیٰ کہ وہ ایک بار پھر وحدانی طرز حکومت کے قیام صوبوں کے خاتمہ اور صدارتی نظام کے نفاذ کیلئے کمربستہ ہے حسن نثار جیسے افراد کے منہ سے 15 سالہ آمریت پتہ دے رہی ہے کہ حکمران مستقبل میں کیا چاہتے ہیں انہیں وزیرستان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کی دلدوز چیخوں اور بلوچستان کی ماؤں کی بے بس فریادوں کی کوئی پراوہ نہیں لیکن ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے کوئی بہتری نہیں آئے گی بلکہ تاریخ کے ساتھ جغرافیہ کا حلیہ بھی بگڑ جائیگا حسن نثارنے جو بات کی ہے موجودہ آئین کے مطابق اسی کی سزا موت ہے لیکن موصوف باعث غرو شرف ہیں وہ لاہور کے قریب ایک محل میں رہ کر غریبوں کومصلی اور جمہوریت کے نام لیواؤں کیلئے موت کی سزا تجویز کر رہے ہیں یہ لوگ تاریخ اور جغرافیہ دونوں کے مجرم ثابت ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں