ملادوپیازہ کے ٹوٹکے

تحریر: انورساجدی
یہ جو صدارتی نظام کا باقاعدہ شوشہ چھوڑا گیا ہے یہ خالی اسرار نہیں اسکے پیچھے یقینی طور پر کوئی مضبوط لابی ہے ریاست کے دو مزاحیہ کریکٹر لال ٹوپی والے ملا دوپیازہ اورایک ٹی وی چینل کے جگت باز میرمحمدعلی خان صدارتی نظام کے حق میں کمربستہ ہوکر کھڑے ہیں اور مسلسل دلائل پیش کررہے ہیں معلوم نہیں کہ اس شوشے کامقصد دیگر مسائل سے توجہ ہٹانا ہے یا حکمرانوں کا ارادہ یہی ہے کہ پارلیمانی نظام سے جان چھڑا کر ملک پر ایک بار پھر صدارتی نظام مسلط کردیا جائے کچھ بھی ہویہ بات طے ہے کہ ریاست معاشی سیاسی اور شدید قسم کے معاشرتی بحرانوں کا شکار ہے اور حاکمان وقت کو سجھائی نہیں دے رہا ہے کہ وہ ان بحرانوں سے کیس عہدہ برا ہوں اور یہ بات بھی طے ہے کہ اگر صدارتی نظام جبر کے ذریعے لانے کی کوشش کی گئی تو یہ بات سوفیصد یقینی ہے کہ جناب عمران خان ایک بااختیار صدر کے عہدہ پر فائز نہیں ہونگے بلکہ انہیں دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر کیاجائے گا۔
بہرحال حقیقت یہی ہے کہ ریاستی بحران شدید ہوتاجارہا ہے پنجاب کی اشرافیہ ایک دوسرے سے جانوروں کی طرح لڑرہی ہے حکام بالا پریشان اور گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں آمدنی کم ہے اشرافیہ اپنی عیاشیاں کم کرنے پر آمادہ نہیں ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف زرمبادلہ کا رونا رویا جارہا ہے لیکن کراچی پورٹ پر ہزاروں درآمد شدہ گاڑیاں کھڑی ہیں یقینا ان پر کروڑوں ڈالر کازرمبادلہ خرچ کیاجاچکا ہے کراچی،لاہور اوراسلام آباد کے پرتعیش اورشاہانہ سپراسٹورز میں کتے بلیون کی خوراک کے ڈھیر نظرآرہے ہیں جو یورپ اور امریکہ سے درآمد کئے جاتے ہیں اشرافیہ کے کتوں اور بلیوں کو جو خوراک میسر ہے وہ عام آدمی کے خواب وخیال میں بھی نہیں ہے عمران خان نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگاکرکوفہ کی ریاست قائم کی ہے اور اموی دور کے دمشق کے حالات پیدا کردیئے ہیں سارا زور غریبوں پر ٹیکس پہ ٹیکس لگانے پر ہے لیکن جب برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں تو اتنے بڑے اخراجات کیسے پورے ہوسکتے ہیں عمران خان کسی کو ساتھ لیکر چلنے یا مشاورت سے معاملات حل کرنے پر یقین نہیں رکھتے اسی لئے حکمران جماعت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے نبردآزماہیں بے اختیار اور رہبراسٹیمپ پارلیمنٹ ہرروز کسی اصطبل کامنظر پیش کرتی ہے یہ جو صورتحال ہے وہ اصل طاقتور حلقوں کو بہت بھارہی ہے اس کی آڑ لیکر وہ پارلیمانی نظام کیخلاف پروپیگنڈہ کررہے ہیں اور صدارتی نظام کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کررہے ہیں ایک لال بجھکڑنے موذوں امیدواروں کے نام بھی دینا شروع کردیئے ہیں ٹاپ امیدوار کے طور پر سابق آرمی چیف راحیل شریف اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا کا نام بھی پیش کردیا گیا ہے جبکہ دونوں ممکنہ امیدوار اس وقت غیر ممالک میں حساس پوزیشن پر نوکری کررہے ہیں۔
تجویز کنندگان کا خیال ہے کہ سیاستدان کرپشن کی وجہ سے ملکی وسائل ہڑپ کرگئے ہیں اگر پارلیمانی نظام برقراررہا تو ریاست بے تحاشا اخراجات اور کرپشن کے بوجھ تلے دب جائے گی اور اس کی سلامتی خطرے میں پڑجائیگی ان سقراطوں کا دھیان صرف پارلیمانی اخراجات پر ہے ان کی نظر دیگرشعبوں کے بے قابو اخراجات پر نہیں ہے اسی بحث کے دوران صدارتی نظام لانے کے راستے بھی تجویز کئے گئے ہیں مثال کے طور پر وزیراعظم ایک خاص مدت کیلئے ایمرجنسی نافذ کرے جس کے دوران نظام تبدیل کرنے کیلئے ریفرنڈم کرایاجائے ان لوگوں کے بقول صدر کو اختیار ہے کہ وہ ایمرجنسی کانفاذ کردے اور ریفرنڈم کاانعقاد کروائے اگرچہ یہ باتیں فی الحال خلا میں ہیں لیکن مجھے پکا یقین ہے کہ شریف الدین پیرزادہ ثانی یعنی فروغ نسیم نئے نظام کا آئینی خاہ تیار کرچکے ہیں ماضی میں شریف الدین پیرزادہ اور قائم علی شاہ کے برادر نسبتی جناب اے کے بروہی ہر آمرکے پاس پہنچ کر انہیں آئینی تراکیب بتاتے رہتے تھے۔لیکن ذہن نہیں مانتا کہ عمران خان یا ان کے سرپرست اتنا پر خطر قدم اٹھاکر ریاست کی بنیادیں ہلادیں گے مثال کے طور پر صدارتی نظام لانے کیلئے1973ء کے متفقہ آئین کو منسوخ کرنا پڑے گا یہ آئین اس وقت واحد قدر مشترکہ ہے پارلیمنٹ اور تمام اسمبلیوں کو ہمیشہ کیلئے تحلیل کرنا پڑے گا اگرآئین ایک دفعہ منسوخ ہوا تو پھر دوبارہ کبھی بن نہیں سکے گا البتہ ایوب خان کا1962ء والا آئین بن سکتا ہے مرکز میں صدر اور صوبوں میں گورنر اختیارات کے حامل ہونگے ایوب خان کے دور میں صرف دو صوبے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان تھے جبکہ اس وقت چارصوبے اوردوصوبوں جیسے اختیارات کے حامل علاقے ہیں اگر صوبے برقراررکھے گئے تو وہ اختیارات سے محروم ہونگے جبکہ بلوچستان جیسے صوبے کا گورنر دیگر علاقوں سے آئیگا جیسے کہ یحییٰ خان،ضیاؤ الحق اور مشرف کے دور میں آئے تھے۔
کئی لوگوں کاخیال ہے کہ اگرحکمرانوں نے ایسی حماقت کی تو یہ ریاست پر ایک خودکش حملہ ہوگا اور یہ سوچنا کہ صدارتی نظام کے نفاذ سے کرپشن کا خاتمہ ہوگا اخراجات کم ہوجائیں گے اور آمدنی بڑھ جائیگی خام خیالی ہے کیونکہ سیاسی اور محکمہ جاتی کرپشن کی ابتداء ایوب خان کے دور سے ہوئی تھی سیاسی رشوت کے طور پر ٹیکسٹائل کے پرمٹ کے اجرأ انہی کے دور میں شروع ہوا تھا اسی دور میں ملک کی90فیصد دولت22خاندانوں کے ہاتھوں مرتکز ہوگئی تھی مشرقی پاکستان سے شدید قسم کا احساس محرومی بھی اسی دور میں شروع ہوا تھا پٹ سن سے ڈالر کماکر کارخانے مغربی پاکستان میں لگائے گئے تھے مشرقی پاکستان میں پٹ سن کے کارخانے برائے نام تھے اور سلہٹ میں پیدا ہونے والی چائے کی پیکنگ بھی مغربی پاکستان میں ہوتی تھی مشرقی پاکستان کی واحد بڑی صنعت کرنا فلی پیپرمل تھی جو نیوز پرنٹ بناتی تھی۔
ایوب خان نے پیریٹی کے نظام کو برقرار رکھاتھا جس کے تحت مشرقی پاکستان کی55فیصد اور مغربی پاکستان کی45فیصد آبادی کو برابر قراردیا گیا تھا یعنی مغربی پاکستان کے لوگ اشرف المخلوقات اور بنگالی کمی کمین تھے۔
ایوب خان کے صدارتی نظام کے دوران جو زیادتیاں ہوئیں اس کا نتیجہ یحییٰ خان کے دور میں نکلا اور بنگال علیحدہ ہوگیا جو لوگ صدارتی نظام کے حق میں دلائل دے رہے ہیں انہیں معلوم نہیں کہ جب ملک ٹوٹا تو اس وقت پارلیمانی نظام نہیں صدارتی نظام تھااوریہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جب سکندرمرزا کے دور میں سیاسی افراتفری عروج پر تھی تو اس وقت بھی صدر کے اختیارات زیادہ تھے اور صدر ہی کے حکم پر مارشل لا کا نفاذ ہوا تھا۔
صدارتی نظام کو لانے کی باتیں وہ مائنڈسیٹ کرتا ہے جو جمہوریت اور عوام کیخلاف ہے یہ طبقہ پاکستان پر ایک مخصوص طبقہ کی دائمی آمریت قائم کرنا چاہتا ہے اس کا مقصد مطلق العنانیت کے تحت صوبوں کی حیثیت ختم کرکے ان کے وسائل کو مرکز کے تصرف میں لانا ہے حالانکہ گوادر پورٹ مرکز کے کنٹرول میں ہے سینڈک اور ریکوڈک کے سودے مرکز نے طے کئے ہیں اور تھر کے کوئلہ اور گرینائیٹ پر مرکز کے کنٹرول میں ہے سیٹھ داؤد تو مرکز کا چہیتا ہے۔
ایک اور چہیتے بحریہ ٹاؤن والے ملک ریاض کا کہنا ہے کہ اگر سندھ کے جزائر کا اختیار انہیں دیاجائے تو وہ اربوں ڈالر کا بیرونی سرمایہ لاسکتے ہیں ماضی میں ملک صاحب ریاست کے دوسال کے بجٹ کے عوض مارگلہ کی پہاڑیاں مانگ چکے ہیں۔حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارگلہ کی پہاڑیوں کی ملکیت سمیت کئی فیصلے دکے چکی ہے اس سے اہم طبقوں کو رنج پہنچا ہے اس لئے ایمرجنسی لگاکر عدالتوں کے اختیارات سلب کرنے کے بارے میں سوچا جارہا ہے جنرل پرویز مشرف نے بھی ایمرجنسی لگاکر عدلیہ اور آزادئی صحافت کو سلب کیاتھا۔
حکمرانوں کو18ویں ترمیم اور زرداری کا جاری کردہ این ایف سی ایوارڈ بھی ایک آنکھ نہیں بھاتے ان کا خیال ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کی موجودگی میں مرکز ہمیشہ تہی دست رہے گا جبکہ وسائل کا بڑا حصہ صوبے لے جاءٰں گے اس مسئلہ پر اور تو اور پنجابی اشرافیہ کی جماعت ن لیگ بھی یہی سوچ رکھتی ہے پارٹی کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایڈیٹروں سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ این ایف سی کی وجہ سے وفاق مقروض اور قلاش ہے لیکن1973ء کے آئین کی منسوخی صدارتی نظام لانے اور صوبوں کی بساط لپیٹے کے معاملہ میں ن لیگ دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر طاقتور حکمرانوں کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے کیونکہ ریاست کی ہئیت تبدیل کرنا اس کی بنیادوں کو ہلانے کے مترادف ہوگا اگر یہ حرکت کی گئی تو ملک میں سیاسی انتشار پیدا ہوگا اتنی افراتفری ہوگی کہ اس کی وجہ سے انارکی اور خانہ جنگی بھی پیدا ہوسکتی ہے چنانچہ ریاست اسے ایسے اقدامات کا متحل نہیں ہوسکتی لوگ تقسیم ہونگے صوبے منتشر ہونگے اور حکمران جو نیا آئین بنائیں گے اسے کوئی قبول نہیں کرے گا اگر عرب اوربعض افریقی ممالک کی طرز کا آمرانہ اور شخصی نظام قائم کیا گیا تو بھرپور تحریک چلے گی اس کی صورت میں حکمرانوں کو ایسی عوامی تحریکوں کو کچلنا پڑے گا نتیجہ یہ ہوگا کہ پاکستان برما کی طرح کا ملک بن جائیگا لیکن پاکستان برما نہیں ہے شدید قسم کے آمرانہ نظام کو دنیا قبول نہیں کرے گی جبکہ داخلی وخارجی خطرات میں اضافہ ہوجائیگا ان خطرات سے بچنے کیلئے ریاست کو ایک بند ملک اور جیل خانہ میں تبدیل کرنا پڑے گا۔اظہاررائے کی آزادی سلب کرنا پڑے گی تمام پرائیویٹ چینل اور ہزاروں سوشل میڈیا نیٹ ورک ختم کرنا پڑے گا ایک مکمل سیکورٹی ریاست کے طور پر تمام وسائل کو دفاع پر جھونکنا پڑے گا حالانکہ حال ہی میں جو نیشنل سیکورٹی پلان بنایاگیا ہے اس میں مضبوط معیشت کو دفاع کیلئے لازمی عنصر بتایا گیا ہے آمریت کی صورت میں معیشت کبھی مضبوط نہیں ہوگی۔روس اور چین کے تجربات سے فائدہ اٹھائے گا ارادہ ہے تو یہ الگ بات ہے لیکن روس اور چین کثیر القومی ریاستیں نہیں ہیں پاکستان جیسے ملک میں اس طرح کا نظام کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔
باقی حکمرانوں کی مرضی جو کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت کی مکمل ناکامی کی وجہ سے ریاست بہت پیچھے چلی گئی ہے اس لئے ٹوٹکے تلاش کئے جارہے ہیں اتنی بڑی ریاست ٹوٹکوں کے ذریعے کیسے چل سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں