گناہ وثواب

تحریر: انورساجدی
سیاستدانوں کے گناہ اورثواب کا حساب ہمیشہ جاری رہتا ہے لیکن دیگر شعبے احتساب سے بالاترہیں گزشتہ حکمرانوں کی گرفت جاری ہے اور موجودہ حکمران مستقبل کی کارروائیوں سے پریشان ہیں اس لئے نئی تراکیب سوچی جارہی ہیں نیب کے اختیارات کم کردیئے گئے ہیں اور ایسے قوانین تیار ہیں کہ دیگر ادارے آئندہ چل کر موجودہ حکمرانوں پر ہاتھ نہ ڈال سکیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ موجودہ دورمیں کرپشن کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں اوپر سے نیچے تک بازار بہت گرم ہے پہلے تو ملک ریاض فائلوں کو پہیہ لگاتے تھے لیکن ان دنوں ہر کاروباری کویہی کچھ کرنا پڑتا ہے وزیراعظم نے کئی سال تک برائے نام ٹیکس دیا لیکن گزشتہ سال کے گوشوارے میں انہوں نے تقریباً ایک کروڑ ٹیکس ادا کیا ہے یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ جب وزیراعظم کا سرے سے کوئی کاروبار نہیں ہے تو ان کی آمدنی میں کیسے اتنا اضافہ ہوا کہ انہیں ایک کروڑ روپے ٹیکس دینا پڑا لیکن جب تک ستارے گردش میں نہیں آتے حاضر سروس حکمرانوں سے کوئی پوچھ کچھ نہیں ہوتی البتہ جو بھی کرسی سے اترجائے تو درجنوں اور سینکڑوں مقدمات قائم اور اسکینڈل منظرعام پرآجاتے ہیں۔یہ سوچ کر روح کانپ جاتی ہے کہ ہمارے نازک اندام نازک مزاج اور شاہانہ زندگی گزارنے والے وزیراعظم کو جیل جانا پڑا تو وہ یہ کیسے برداشت کریں گے خاص طور پر اٹک اڈیالہ یا مچھ جیل میں اگرچوہے چھوڑے گئے اور چھتوں پر چپکلیوں کا راج رہا تو یہ اذیت ان سے کیسے برداشت ہوگی کم بخت مشرف خود تو جیل کے خوف سے پہلے اسپتال اور اسکے بعد ملک چھوڑ کر بھاگے لیکن انہوں نے اپنے عروج کے دور میں اعلیٰ قدر میاں نوازشریف کو پکڑ کر اٹک جیل میں بند کردیا ان کے کمرے میں زمین پر چوہے اور چھت پر چھپکلیاں چھوڑی گئیں میاں صاحب کے بقول کمرے میں سانپ اور بچھو بھی چھوڑے گئے تھے ان خوفناک اور زہریلے جانوروں سے ڈرکرمیاں صاحب نے ایک لمبا چھوڑا معافی نامہ لکھ کر مشرف کو دیا تھا اس کے ساتھ سعودی عرب اور لبنان کو ضامن بناکر راتوں رات ملک چھوڑدیا تھا میاں نوازشریف تو زیادہ مضبوط اعصاب کے مالک تھے جبکہ کپتان نے اپنی 70سالہ زندگی میں کوئی مصیبت اورمشکل نہیں دیکھی وہ تو نازوں میں پلے ہیں۔ان کیلئے تو جیل ڈراؤنا خواب ثابت ہوجائے گی مشرف کے دور میں وکلا تحریک کے دوران مشرف انہیں گرفتار کرنا چاہتے تھے لیکن خبر ملنے پر کپتان اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر کئی دن تک روپوش ہوئے تھے انہوں نے اپنے فرار کی داستان کئی اینکروں کو فخرکے ساتھ سنائی تھی اس لئے کپتان نے سوچا ہے کہ جیل اور سزاؤں سے بچنے کیلئے کیوں نہ کوئی ایسی ترکیب ایجاد کی جائے کہ ان کے آئندہ پانچ سال بھی حکمرانی کرکے گزریں اس مقصد کیلئے انہوں نے کئی ہستیوں کو اپنے دام فریب میں لانے کی کوشش شروع کردی ہیں وہ ہولناک مستقبل سے بچنے کیلئے کسی حد تک بھی جھک سکتے ہیں۔
پیپلزپارٹی مخالف صحافی سلیم صافی نے یہاں تک کہا ہے کہ زرداری تو جھک گئے ہیں جبکہ کپتان لیٹ گئے ہیں چونکہ سلیم صافی دونوں لیڈروں کے حددرجہ مخالف ہیں اس لئے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے یہ بات بغض معاویہ میں کہی ہو اگرسلیم صافی میں جرأت ہوتی تو وہ جھکنے والے دیگر رہنماؤں کے نام بھی ضابطہ تحریر میں لاتے اور لکھ دیتے کہ کون کون نہیں جھکا ہے وہ بنادیتے کہ مولانا صاحب کیوں ٹھنڈے پڑگئے ہیں اور انہوں نے کس بنیاد پر یہ کہا ہے کہ ایمپائر نیوٹرل ہوگئے ہیں سلیم صافی اپنی بے باکی پر فخر کرتے ہیں لیکن یہ بتانے سے ڈرگئے کہ اپوزیشن نے منی بجٹ کا بل کس کے کہنے پرپاس ہونے دیا چونکہ اس وقت اظہار رائے پرپابندیاں ہیں اس لئے ہمارے نامی گرامی نامہ بریعنی صحافی حضرات مصلحتاً آدھا سچ بولتے ہیں لیکن ظاہر ایسا کرتے ہیں کہ ان سے سچا اور ایماندار اور کوئی نہیں ہے۔
دارالحکومت میں بیٹھنے والے صحافی اپنے باخبرہونے پر نازاں ہیں لیکن آج تک کسی نے نہیں بتایا کہ صدارتی نظام کا شوشہ کس کے ایماپرچھوڑا گیا آیا اس کا مقصد مہنگائی،بیروزگاری،منی بجٹ،بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ سے توجہ ہٹانا ہے یا واقعی ایسا کوئی پلان تشکیل دیدیا گیا ہے۔جس نام نہاد تنظیم نے مقتدرہ کنٹرول چینل اے آر وائی پر جو اشتہارات چلائے ہیں اس کا کھوج آج تک چلایا نہیں گیا اے آر وائی کسی دن اعلان کرے گا اس نے جو ریفرنڈم کروایا عوام نے اس کے حق میں فیصلہ دیدیا ہے لہٰذاحکمرانوں کو چاہئے کہ وہ یا توایمرجنسی لگاکر ریفرنڈم کاانعقاد کروائیں یا سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجیں اگرمشرف کی طرح ایمرجنسی لگاکر پی سی او لایا گیا تو کیا پتہ کہ کتنے جج صاحبان اس کا حلف اٹھاکر ریفرنڈم کو جائز قرار دیں کیونکہ اس وقت کا قانون تو73کاآئین نہیں پی سی او ہوگا۔
بظاہر تو ایسا نظرآتا ہے کہ اگر1973ء کے آئین کو منسوخ کردیا گیا تو سندھ اور پشتونخوا کی سیاسی قوتیں اس کیخلاف بغاوت کا اعلان کردیں گی البتہ اس بغاوت کو کچلنے کے علاوہ ایم کیو ایم اور ہزارہ صوبہ تحریک کو بطور ہتھیار استعمال کیاجائیگا ایک طرف صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے دوسری طرف حکمران جماعت جنوبی پنجاب میں دوصوبوں کے قیام کے بل کی منظوری پر زور دے رہی ہے غالباً یہ بھی ایک سیاسی شوشہ ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کے بغیر نئے صوبوں کے قیام کیلئے آئین میں ترمیم لانا ناممکن ہے۔
یہ بات ماننے کی ہے کہ تحریک انصاف پروپیگنڈے کی ماہر ہے وہ عوام کے مسائل سے توجہ ہٹانے کی کامیاب کوششیں کرتی رہتی ہے لیکن صرف پروپیگنڈے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ زمین پر اس کی کارکردگی صفر ہے اور اس میں بہتری کاکوئی امکان نہیں ہے اس کی حکومت کب کی جاچکی ہوتی لیکن حکام بالا نے ابھی تک اسے بچائے رکھا ہے جس دن پانی سرسے اونچا ہوجائیگا کسی نہ کسی کا ڈوب جانا لازم ٹھہرے گا۔
بدحکومتی اور نااہلی کی وجہ سے پی ٹی آئی کے اندر ایک فارورڈ بلاک تیار ہے لیکن اس بلاک کو ابھی تک کوئی اشارہ نہیں ملا کیونکہ یہ الیکٹیبلز اشارے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے یہ مقتدرہ کی معجزاتی فورس ہے جوہر بحران میں کام آتی ہے۔
وزیراعظم نے خود کہا ہے کہ مارچ تک صورتحال نازک رہے گی غالباً وہ مارچ میں کوئی اہم فیصلہ کرنا چاہتے ہیں اگر ماچ تک کچھ نہ ہوا تو نومبر تک اہم فیصلہ ہر قیمت پر کرنا پڑے گا اگر معاملات ٹھیک رہے تو یہ فیصلہ کپتان کریں گے اگر معاملات درست نہ رہے تو کوئی اور آکر یہ اہم فیصلہ کرے گا۔
عجیب ملک ہے کہ اس کی معیشت ڈوب گئی ہے عملی طور پر دیوالیہ ہوگئی داخلی اور خارجی خطرات منہ کھولے کھڑے ہیں لیکن کسی کو اس کی پروا نہیں ہے حسب سابق اقتدار کی طوالت اور نئی تقرریوں کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے پرخطر حالات کے باوجود نئی مردم شماری کا اعلان بھی کردیا گیا ہے جس کا مقصد کراچی اور بلوچستان میں مقیم افغان مہاجرین کی آبادی کو بڑھاچڑھاکردکھانا ہے کئی لوگوں کو ایسے لگتا ہے کہ ریاست کے والی وارث بلوچستان اور پشتونخوا کو افغان مہاجرین اور سندھ کے شہری علاقوں کو اردو مہاجرین کے حوالے کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں حالانکہ مردم شماری ہردس سال بعد ہونا طے ہے لیکن موجودہ حکومت ایم کیو ایم کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر نئی مردم شماری کا اعلان کرچکی ہے بلوچستان اور پشتونخوا پہلے ہی اس آئین پر تحفظات رکھتے ہیں اور وہ ایک نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ کررہے ہیں یہ مطالبہ بھی آئیگا کہ اگر وفاقی نظام فیل ہوگیا ہے تو کنفیڈرل نظام لایاجائے جس کے تحت مرکز کے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہونگے یعنی ایک نئی کشمکش کاآغاز ہوگا جیسے کہ بھٹو نے کہا تھا کہ میرے بعد اگر1973ء کے آئین کو چھیڑا گیا تو پھر کبھی کوئی متفقہ وفاقی آئین نہیں بن پائیگا جس کی وجہ سے ریاست کا وجود خطرے میں پڑجائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں