صدارتی نظام یا ذاتی مفادات؟

تحریر: جئیند ساجدی
ماہر تعلیم ناکام ریاستوں کی خصوصیات یوں بیان کرتے ہیں کہ ناکام ریاستوں میں اندرونی سورشیں،سیاسی عدم استحکام،معاشی بدحالی،عام و خاص لوگوں کی معاشی حالت میں بڑا فرق اور تعلیمی شرح کم ہوتی ہے۔اگر پاکستان کی سیاسی اور معاشی حالات کاجائزہ لیاجائے تو پاکستان ناکام ریاستوں کی تمام تر خصوصیات پر پورااترتا ہے۔یہ ہمیشہ سے سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے یہاں دو دفع آئین توڑا گیا ہے اور تین دفع مارشل لاء نافذ کیا گیا ہے۔متعدد پارلیمانی حکومتوں کا تختہ الٹا گیا ہے ابھی تک کوئی ایسا وزیراعظم نہیں جس نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہو۔یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلا ملک تھا جو اندرونی سورش کی وجہ سے ٹوٹا اور ابھی تک یہ اندرونی سورشوں کا شکار ہے یہاں کی عام عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جبکہ اشرافیہ شاہی طرز سے زندگی گزارتی ہے اور تعلیمی شرح بہت کم ہے اور جو تعلیم دی جارہی ہے وہ بھی معیاری نہیں ہے۔معاشی حالات یہ ہیں کہ کبھی اسے سعودیہ عرب تو کبھی متحدہ عرب امارات تو کبھی آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکجز لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔
ڈیرن ایس مغلواورجیمز روبنسن اپنی کتاب ”Why Nations Fail“ میں لکھتے ہیں کہ کچھ ماہر تعلیم نے امیر اور غریب ممالک میں فرق کی وجوہات بیان کرتے ہوئے یہ مفروضہ پیش کیا ہے کہ افریقہ،ایشیاء،لاطینی امریکہ کے ممالک مغرب سے معاشی حوالے سے اس لئے پیچھے ہیں کیونکہ ان ممالک کا موسم گرم ہے جبکہ ان کی نسبت مغرب کے ممالک میں اکثر سرد موسم ہوتا ہے اکثر گرم علاقے کے لوگ کم محنتی،سست اور کاہل ہوتے ہیں۔ڈیرن ایس مغلواورجیمز روبنسن کے مطابق یہ موسمی دلائل ایک غیر سائنسی دلائل ہے شمالی اور جنوبی کوریا کے موسم میں ناکوئی فرق ہے اور نہ ہی ان کے نسل میں۔لیکن ان کے معاشی حالت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اسی طرح امریکہ اور میکسیکو دونوں ممالک میں فرق محض ایک سرحد کا ہے دونوں کا موسم ایک جیسا ہی ہے بلکہ کچھ امریکی ریاستیں جیسے کہ کیلی فورنیا،ٹیکساس،نیومیکسیکو اور ایری زونا ماضی میں میکسیکو کا ہی حصہ رہے ہیں جن پر امریکہ نے بزور طاقت قبضہ کیا تھا۔ان کی جغرافیائی قربت اور ایک طرح کا موسم ہونے کے باوجود امریکہ کا شمار دنیا کی چند بڑی معاشی طاقتوں میں ہوتا ہے جبکہ میکسیکو کا دنیا کے غریب ممالک میں۔اس وجہ سے میکسیکو کے افراد بڑی تعداد میں سرحد پار کرکے امریکہ اپنے معاشی حالات بہتر کرنے کیلئے جاتے ہیں۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے کہا تھا کہ اگر وہ امریکی صدر بنے تو امریکہ اور میکسیکو کے درمیان ایک دیوار تعمیر کریں گے تاکہ میکسیکو کے افراد امریکہ نہیں آسکیں۔ڈیرن ایس مغلواورجیمز روبنسن مزیدلکھتے ہیں کہ کامیاب یا ناکام ریاست ہونے میں موسم کا کوئی کردار نہیں بلکہ اصل فرق ان ممالک میں سیاسی اور معاشی اداروں کا ہوتا ہے۔مضبوط سیاسی اور معاشی ادارے بنانے کیلئے مستحکم جمہوریت کا ہونا لازمی ہے شمالی کوریا اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں جمہوریت کبھی نہیں رہی۔ماضی میں لاطینی امریکہ میں سپین نے اپنا سامراجی نظام قائم کیا تھا اور وہاں کے وسائل لوٹ کر میڈرڈ لیکر جاتا تھا۔اس کے علاوہ سپین نے لاطینی امریکہ کے مقامی افراد پر مشتمل ایک اشرافیہ بھی بنایا تھا جن کو اس نے وہاں کے وسائل پر ایک معقول حصہ دیا تھا یہ اشرافیہ اقلیت میں تھی لیکن اس کے باوجود سپین نے اشرافیہ کو حصہ دیا اور عام افراد کو معاشی ترقی سے محروم کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ سپین سرکار اقلیتی اشرافیہ کی بجائے اکثریتی عوام اورجمہوریت سے خطرہ محسوس کرتی تھی۔
سپین کے بعد امریکہ نے اپنے مسلط کردہ آمروں کے ذریعے لاطینی امریکہ میں حکومت کی۔ڈیرن ایس مغلواورجیمز روبنسن کے مطابق ایسی بات نہیں کہ لاطینی امریکہ،افریقہ اورشمالی کوریا کے حکمران اچھی انتظامیہ کے فوائد کے متعلق علم نہیں اور نہ ہی اتنے نااہل ہیں کہ مضبوط سیاسی اور معاشی ادارے بناسکیں۔جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آسکے وہ جان بوجھ کر ایسے ادارے نہیں بنانا چاہتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب عام لوگوں کے معاشی حالات بہتر ہونگے اور ان میں سیاسی شعور آئے گا تو اپنے تمام تر جمہوری حقوق جیسے کہ آزادی رائے اوردیگر جمہوری حق بھی مانگیں گے اور یورپ طرز کے سیاسی نظام اور سماجی ویلفیئر کے بھی مطالبے کریں گے۔یہ سب ملکی اور قومی مفاد میں تو ہوگا لیکن ان آمروں اور اشرافیہ کے ذاتی مفادات کے برعکس ہوگا اس سے ان کی حکومت کو خطرہ ہوگا اس لئے وہ اپنے ملک میں ایسا معاشی نظام بناتے ہیں جسے ماہر معیشت (Extractive Economy) کہتے ہیں اس نظام کے تحت عام افراد کا معاشی استحصال ہوگا وہاں مہنگائی بڑھے گی اور اس کا فائدہ صرف حکمرانوں کو ہوگا جب یورپ میں بادشاہی نظام رائج تھا تو اس وقت بھی بادشاہ اور اشرافیہ کی سوچ اپنے ذاتی مفادات تک محدود تھی۔ انقلاب فرانس کے وقت عام فرانسیسی جن کی آبادی ریاست میں 98فیصد تھی ان کی مالی حالت یہ تھی کہ ان کے پاس دو وقت کے کھانے کیلئے کچھ نہیں تھا اور ان کی معیشت کا ماڈل یہی Extractive Economy پر مشتمل تھا وہاں زیادہ تر زمینیں اشرافیہ اور چرچ کی تھی اور زمینداری سب سے بڑی ملکی معیشت تھی لیکن اشرافیہ اور چرچ کو ٹیکس ادا کرنے سے استثنیٰ حاصل تھا اور ٹیکس کا سارا بوجھ عام افراد برداشت کرتے تھے۔اس کی وجہ سے امیر اور غریب کے معاشی حالات میں فرق دن بدن بڑھتا جارہا تھا فرانسیسی دانشوروں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اشرافیہ ٹیکس دے اوریہی قومی مفاد میں ہے اور اس سے ملک معاشی بحران سے نکل جائے گا لیکن خودغرض اشرافیہ نے ملک کی بدترین معاشی حالت کو نظر انداز کرکے ٹیکس دینے سے انکار کیا اور اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی بلآخر عام لوگوں نے ایک جمہوری نعرہ (بھائی چارہ،برابری،آزادی) لگاکر بادشاہ کا تختہ الٹا کہیں اشرافیہ مارے گئے اور کہیں دیگرممالک میں ہجرت کرگئے اس طرح کا نظام یورپ کے دیگر ممالک میں بھی رائج تھا انقلاب فرانس سے سبق لیتے ہوئے باقی یورپی ممالک نے بھی کچھ عرصے میں اپنے بادشاہوں کا تختہ الٹا اور جمہوری نظام اپنے ملک میں نافذ کیا اس کے بعد یورپ میں جمہوری رہنماؤں نے مستحکم سیاسی اور معاشی ادارے بنائے اور اپنے ذاتی مفادات کی بجائے قومی مفادات کو ترجیح دی اس کی وجہ یہ تھی کہ ان جمہوری رہنماؤں کو علم تھا کہ اگر وہ اپنے ذاتی مفادات کو فوقیت دیں گے تو عوام خود ان کا احتساب کرے گی اور جمہوری نظام کی وجہ سے وہ عوام کو جواب دینے کے پابند ہیں اس کے بعد یورپ نے معاشی حوالے سے کافی ترقی کی۔
جمہوریت اور مستحکم اداروں کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک واحد ملک اسرائیل ہے جہاں کا سیاسی نظام جمہوریت پر مشتمل ہے یہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے خطے کے متعدد عرب ممالک سے کافی چھوٹا ہے لیکن درجن سے بھی زائد عرب ممالک اسرائیل کے سامنے کمزور اور بے بس ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب ممالک میں بادشاہت اور آمرانہ نظام ہے بادشاہ اور آمر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر فلسطین بطور آزاد ریاست قیام میں آیا تو ایک قومی ریاست ہوگا اور ایک طرز کا جمہوری ریاست ہوگا اس کے قیام ہونے کے بعد ان کے عام عوام بھی فلسطینیوں سے شے لیں گے اور اپنے جمہوری حقوق مانگیں گے اورملک کا سیاسی نظام تبدیل کرنے کی بات کریں گے جو کہ عرب قومی مفاد میں تو ہوگا لیکن ان بادشاہ اور آمروں کے ذاتی مفادات کے برعکس ہوگا اسی لئے انہوں نے خود کو اسرائیل کے سامنے بے بس کردیا ہے اوردوسری جانب اسرائیلی نمائندے عوامی دباؤ کی وجہ سے اپنے ذاتی مفادات کی بجائے قومی مفادات کا سوچھتے ہیں۔
پاکستان میں کبھی حقیقی جمہوریت نہیں رہی اس لئے یہاں متعدد آمروں نے قومی مفادات کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے قربان کیا اور کبھی بھی سیاسی اور معاشی اداروں کو مستحکم نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے عام عوام بدترین سیاسی اورمعاشی پسماندگی کا شکار ہیں یہاں گزشتہ 13سالوں سے نام نہاد پارلیمانی نظام تو ہے لیکن اس سے ملک کے معاشی اور سیاسی حالات میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آرہی چند لوگوں کو عمران خان سے بڑی امیدیں وابستہ تھی کہ وہ یہاں کہ معاشی حالات بہتر کریں گے لیکن ان کے دور حکومت میں معاشی اور سیاسی حالات بدسے بدتر ہورہے ہیں اب وہ اور بالادست طبقے حکومت کی ناکامی چھپانے کیلئے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان کی حکومت کی ناکامی کی وجہ پارلیمانی نظام ہے اگر ملک میں صدارتی نظام رائج کردیا جائے تو وہ ضرور تبدیلی لائیں گے امریکہ اور فرانس نے صدارتی نظام کے تحت ترقی کی جبکہ برطانیہ نے پارلیمانی نظام کے تحت لہٰذا ملک نام نہاد صدارتی یا پارلیمانی نظام سے ترقی نہیں کرتے بلکہ مضبوط معاشی اور سیاسی اداروں کی بناء پر ترقی کرتے ہیں اس کیلئے ایک حقیقی جمہوریت کا ہونا لازمی ہے لیکن یہاں ”شیم جمہوریت“ (Sham Democracy) ہے اکثر لوگ جو موجودہ کابینہ کا حصہ ہیں انہوں نے مشرف جیسے آمر کے کوک سے اپنے سیاسی کیریئرکا آغاز کیا ہے بعد میں یہی لوگ زرداری کے ساتھ بھی تھے اور نواز شریف کے ساتھ بھی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جمہوری نظام میں مقتدرہ کا عمل دخل ہے لہٰذا اس شیم جمہوریت میں صدارتی نظام ہویا پارلیمانی ملک کے حالات بد سے بدتر ہی ہونگے اور مستقبل میں مزید بیل آؤٹ پیکیجز کی ضرورت پڑے گی جب تک آمرانہ سوچ اور ذاتی مفادات کی قربانی دیکر قومی مفادات کو ترجیح نہیں دی جاتی تو کسی تبدیلی کی توقع رکھنا حماقت ہوگی اس نظام سے امیر اور امیر ہوگا اور غریب کے حالات مزید بدتر ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں