پاؤں کی زنجیر

تحریر: انورساجدی
کپتان کے غصہ جھنجھلاہٹ اور اپوزیشن کیخلاف زہرافشانی کی اندرونی وجوہات کاتو علم نہیں لیکن اس سے ظاہرہوتا ہے کہ ضرور اس کی کوئی خاص وجہ ہے ان کی طرف سے یہ دھمکی دینا کہ اگر وہ اقتدار سے نکلے تو زیادہ خطرناک ہونگے یا اپوزیشن کو کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی اس بات کا غماز ہے کہ ساڑھے تین برس بعد پہلی مرتبہ کپتان اپنے اقتدار کیلئے کوئی خطرہ محسوس کررہے ہیں انہوں نے اس کاہلکا سا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ سن رہے ہیں کہ ڈیل ہورہی ہے اور نوازشریف جلد آنے والے ہیں انہوں نے کہا کہ میں شدت سے منتظر ہوں آپ دیر نہ کریں جلد ہی آجائیں اس اشارہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے سرپرستوں اور نوازشریف کے درمیان ضرور کچھ بات چیت چل رہی ہے اس لئے کپتان دھمکیوں پر اترآئے ہیں یہ تو معلوم نہیں کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں کچھ چل رہا ہے لیکن میراتجربہ بتاتا ہے کہ جب سرپر سے ہاتھ ہٹ جائے یا سرک جائے تو برسراقتدار حاکم اسی پیرائے میں اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔
1977ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف پی این اے کی تحریک چل رہی تھی تو معزولی سے چند روز قبل قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھٹوصاحب نے جس کرسی پر بیٹھے تھے اس کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ میں کمزورہوں تو کیا ہوا یہ کرسی تو مضبوط ہے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں تھوڑی سی پی لیتاہوں خون تونہیں پیتا۔بھٹو صاحب کی جھنجھلاہٹ کی وجہ یہ تھی کہ فوج نے ساتھ چھوڑدیا تھا امریکہ شدید مخالف ہوگیا تھا انہیں نظرآرہا تھا کہ ان کے اقتدار کو شدید خطرات لاحق ہیں بظاہر کپتان کو اس وقت ایسی مشکلات کا سامنا نہیں ہے اپوزیشن نے تو صرف لانگ مارچ کااعلان کیا ہے زمین پر کسی تحریک کا وجود نہیں ہے عوام مہنگائی اور بیروزگاری سے ضرور تنگ ہیں لیکن کسی جماعت یا اتحاد نے ابھی تک صورتحال کا فائدہ اٹھاکر انہیں سڑکوں پر لانے کی کوشش نہیں کی حکومتی اکابرین کے دعویٰ ہے کہ ان کے سرپررکھے ہاتھ ہٹے نہیں ہیں بلکہ شیخ رشید نے تو یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ ہاتھ جلد اپوزیشن کے گلے تک آجائیگا۔
یعنی ایک بات ثابت ہے کہ سرپر کسی مہربان ہاتھ کے بغیر تحریک انصاف کی حکومت چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتی دوسری جانب اپوزیشن کوشش کررہی ہے کہ اس ہاتھ کا سایہ اس کے سرپر آجائے تاکہ آئندہ باری اس کی لگے باقی جو جمہوریت پارلیمان یا آئین ہے وہ پاکستان کے نظام میں کوئی معنی نہیں رکھتے عمران خان نے خود بتایا ہے کہ اسے مہنگائی کا چیلنج درپیش ہے لیکن وہ اسکا کوئی مداوا نہ بتاسکے بلکہ یہ عندیہ دیا کہ آئندہ کچھ عرصہ میں غزائی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا گویا مہنگائی میں مزید اضافہ کاامکان ہے۔وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ نہ صرف ان کی حکومت اپنی موجودہ مدت پوری کرے گی بلکہ آئندہ پانچ سال بھی انہی کی حکومت ہوگی شائد وزیراعظم کو پتہ لگ چکا ہے کہ پاکستان کے لوگ اذیت پسند واقع ہوئے ہیں جو حکمران انہیں جتنی زیادہ اذیت دے گا وہ اس کیخلاف نہیں اٹھیں گے بلکہ اذیتیں سہہ کر اس کی حمایت جاری رکھیں گے ورنہ1968ء میں ایوب خان کی حکومت نے چینی کی قیمت سوا روپے سے ڈیڑھ روپے کردی تھی تو ان کیِخلاف عوامی تحریک چل پڑی تھی لیکن گزشتہ 3سال میں مہنگائی میں کئی گناہ اضافہ ہونے کے باوجود عوام ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں حالانکہ ایوب خان کے دور میں کوئی میڈیا نہیں تھا بیشتر اخبارات حکومت کی ملکیت میں تھے عوام صحیح حقائق سے آگاہ نہیں تھے اس کے باوجود وہ راولپنڈی کی سڑکوں پر نکل آئے تھے اس تحریک کے نتیجے میں ایوب خان کو استعفیٰ دے کر گھر جانا پڑا تھا اسی طرح1977ء میں نہ تو ٹی وی چینل تھے اور نہ ہی سوشل میڈیا کا وجود تھا لیکن اس کے باوجود ملاصاحبان کی قیادت میں عوام گھروں سے باہر نکلے تھے ہاں یہ ضرور ہوا تھا کہ مارچ میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں شکست کے بعد اپوزیشن نے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا تھا اس کے برعکس2018ء کے انتخابات میں ہلکی سی شکست کے بعد اپوزیشن نے استعفیٰ دینے کی بجائے نظام کا حصہ بننا قبول کیا اور ابھی تک اسمبلیوں میں بڑے آرام سے براجمان ہے مولانا نے ایک دفعہ اپنے خاص دوستوں کے کہنے پر اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا اور انہی کی ہدایت پر اپنا دھرنا ختم کردیا تھا تو گویا عوام کا سڑکوں پر نہ آنے کی ذمہ دار اپوزیشن ہے معلوم نہیں کہ اسے پوری بساط لپیٹنے کا خطرہ تھا یا یہ خوف لاحق تھا کہ عمران خان آئین کو منسوخ کرکے کہیں صدارتی نظام نافذ نہ کردے اس حد تک تو اپوزیشن کی حکمت عملی ٹھیک رہی کیونکہ اس نے میدان خالی نہیں چھوڑا حتیٰ کہ اپوزیشن کے بعض شرارتی اراکین کے خوف سے وزیراعظم نے پارلیمنٹ آنا چھوڑدیا تھا شروع میں سوات سے تعلق رکھنے والے مرادسعید کا خیال تھا کہ اس کی پرجوش تقاریر سے اپوزیشن زچ ہوجائے گی لیکن عبدالقادر پٹیل نے اس کا اتنا برا حال کردیا کہ وہ تقریباً تائب ہوگئے پٹیل جب بھی تقریر کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو حکومتی وزراء اور اراکین باہر نکل جاتے ہیں کیونکہ انہیں پیپلزپارٹی کے شرارتی رکن کی تقریر سننے کی تاب نہیں ہے۔
اگرچہ مولانا فضل الرحمن نے ہرموقع پر حکمران جماعت اس کے لیڈر کی درگت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن ایمانداری کی بات یہ ہے کہ زبانی کلامی بلاول بھٹو نے حکومت کو منطق اور دلیل کے ساتھ زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے انہوں نے عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ان کے سامنے انہیں سلیکٹڈ کاخطاب دیا جس سے عمران خان آج تک جان نہیں چھڑاسکے۔
مسلم لیگ ن کے حمائتی تجزیہ کار جاوید چودھری کا کہنا ہے کہ ن لیگ اور تحریک انصاف دونوں اسٹبلشمنٹ کی جماعتیں ہیں ان کے درمیان اختلاف صرف اقتدار کا ہے اب بھی پارٹی کے اندر ایک دھڑے کا میاں نوازشریف پر دباؤ ہے کہ وہ کسی طرح سرپرستوں کوراضی کرلیں کیونکہ اس کے بغیر نہ تو مصائب ختم ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اقتدار دوبارہ مل سکتا ہے لگتا ہے کہ جاوید چودھری نے یہ بات ن لیگ اور مقتدرہ کے درپردہ رابطوں کے تناظر میں کہی ہے خود مقتدرہ کے اندر اختلاف رائے موجود ہے ایک دھڑے کا کہنا ہے کہ اگرتحریک انصاف کو فارغ کیاجائے تو اس کی جگہ ن لیگ کو دوبارہ موقع دیاجائے لیکن مخالف دھڑے کا کہنا ہے کہ ن لیگ نے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی وہ آئندہ بھی یہی کرے گی اس لئے ایک تیسرا راستہ تلاش کیاجارہا ہے یعنی ایسا انتظام کہ کوئی ایک پارٹی مکمل اکثریت حاصل نہ کرسکے تاکہ ایک کمزور حکومت کی تشکیل ممکن ہوسکے جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو عوام الناس اسے خیر باد کہہ چکے ہیں صرف وفادار یوتھیا ہی ساتھ ہیں اگر یہ جماعت ایک دفعہ کرسی سے اترگئی تو اس کا براحشر ہوگاحتیٰ کہ اس کے امیدوار انتخابی مہم چلانے کے قابل نہ ہونگے ہر جگہ انہیں عوامی غیض وغضب کا سامنا کرنا پڑے گا لہٰذا عمران خان کی یہ دھمکی کہ اقتدار سے نکلنے کے بعد وہ زیادہ خطرناک ثابت ہونگے درست نہیں ہے کئی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ دھمکی انہوں نے دراصل اپنے سرپرستوں کو دی ہے ان کو خوش فہمی ہے کہ وہ نوازشریف نہیں بلکہ بین الاقوامی قدکاٹھ کے لیڈر ہیں اگر انہیں معزول کیا گیا تو وہ باہر جاکر بہت ادھم مچائیں گے اور آسمان سرپراٹھائیں گے وہ کئی اندرونی روز بھی طشت ازبام کردیں گے کیونکہ دنیا اس کی بات سنے گی بات تو ان کی صحیح ہے لیکن پاکستانی روایات کے مطابق جو حکمران تخت سے اتر جائے تو اسے تختے کی طرف جانا پڑے گا گوکہ عمران خان میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ تختے کی طرف جائیں البتہ وہ بے شمار کرپشن اسکینڈلوں اور مقدمات کی زد میں آئیں گے اور نوازشریف کی طرح جان چھڑانا مشکل ہوجائے گا یا زرداری کی طرح انہیں 11برس زندان میں گزارنا پڑیں گے جس کے نتیجے میں وہ تنہا رہ جائیں گے اور ان کی جماعت خودبخود تحلیل ہوجائے گی اگر وہ مرنے مارنے پر آئے تو صرف فارن فنڈنگ کیس ہی ان کی جماعت کے خاتمہ کیلئے کافی ہے اس کے علاوہ ان کے وزراء مشیروں اور معاونین نے کرپشن کے جو گل کھلائے ہیں اس کی وجہ سے درجنوں مقدمات پاؤں کی زنجیر بن جائیں گے لہٰذا ان کی دھمکیوں کو ن لیگ کی لیڈر مریم نواز نے گیڈر بھبھکی قراردیاہے اور انہیں مشورہ دیا ہے کہ ملک چلانے میں ناکامی پردہ سامان اٹھاکر گھر کی راہ لیں عمران خان کیلئے بہتر ہوگا کہ وہ آئندہ الیکشن سے قبل علاج معالجہ کیلئے لندن جاءٰں تاکہ ممکنہ عذابوں سے بچیں عمر کے آخری حصے میں یہی ترکیب کارگر ثابت ہوگی ورنہ کہاں وہ اٹک اڈیالہ کوٹ لکھپت منٹگمری اور مچھ جیل کی اذیتیں برداشت کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں