آغاز زوال

تحریر: انورساجدی
عمران خان نے شہزاد اکبر کو احتساب کا ”دیو“ بناکر پیش کیا تھا لیکن وہ چوہا ثابت ہوگیا موصوف لوٹی ہوئی دولت کا ایک آنہ بھی واپس نہ لاسکے البتہ لوٹی ہوئی دولت کے کھوج پر اربوں روپے لگادیئے براڈشیٹ کمپنی کو دیئے گئے اربوں روپے اس کا ناقابل تردید ثبوت ہے اسی طرح برطانیہ کی عدالت نے ملک ریاض بحریہ والے کو منی لانڈرنگ کا جرم ثابت ہونے پر 40 ارب روپے پاکستان کو واپس کرنے کا حکم دیا لیکن شہزاد اکبر کی ملی بھگت سے یہ رقم قومی خزانہ میں جمع ہونے کے بجائے پاکستان میں ملک ریاض کے حوالے کی گئی ساڑھے تین سال تک بڑھکیں مارنے کے بعد یہ نتیجہ مکمل ناکامی کی صورت میں نکلا تو کپتان کواپنے اس جعلی دیو کو فارغ کرنا پڑا۔
چونکہ سفر واپسی کا شروع ہے اس لئے اٹارنی جنرل خالد جاویدخان نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بھی کسی وقت استعفیٰ دینے والے ہیں ادھر گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور دوبارہ ن لیگ میں جگہ بنانے کی خاطر استعفیٰ دینے کیلئے تیار ہیں سنا ہے کہ متعدد وزراء بھی ہوا کا رخ دیکھ کر علیحدگی کیلئے پر تول رہے ہیں تاکہ آئندہ انتخابات میں وہ ن لیگ کا ٹکٹ لیکر دوبارہ اقتدار کے مزے لوٹیں اصولاً تو ن لیگ کو ایسے تمام افراد کو جگہ نہیں دینی چاہئے جو تحریک انصاف کا حصہ تھے لیکن پاکستانی سیاست کا کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے جو شخص جنرل پرویز مشرف کے وزیر قانون تھے اور جس نے 3 مئی 2007 کی ایمرجنسی لگائی تھی اقتدار میں آکر اسی شخص کو دوبارہ قانون کا وزیر بنادیا گیا شہرہ آفاق جج جسٹس عبدالقیوم نے شہباز شریف کی ٹیلی فون کال پر بینظیر کو قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی اقتدار میں آکر صدر آصف علی زرداری نے اسی کو اٹارنی جنرل کا عہدہ دیدیا لہٰذا آئندہ بھی یہی امکان ہے کہ موسمی پرندوں اور لوٹوں کو ن لیگ اور پیپلزپارٹی اپنی صفوں میں جگہ دیں گے۔
مشرف کا دور سب کو یاد ہوگا 2002 کے انتخابات میں کنگز پارٹی ق لیگ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی میر ظفر اللہ جمالی کووزیراعظم بنانے کیلئے 14 ووٹوں کی کمی تھی جس پر مشرف نے پیپلز پارٹی کو توڑ کر پیٹریاٹ نامی جماعت بنائی تھی جس کے سربراہ پارٹی کے کہنہ مشق جیالا سید فیصل صالح حیات تھے چند سال قبل موصوف دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے جب اس بارے میں آصف علی زرداری سے پوچھا گیا تو انہوں نے ایک ٹی وی چینل پر آکر کہا کہ الحمداللہ فیصل صالح حیات دوبارہ پیپلز پارٹی میں آئے ہیں۔
لہٰذا یہ آنا جانا لگا رہے گا لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ جب چند ماہ بعد کپتان اکیلے رہ جائیں تو ان پر کیا کیفیت طاری ہوجائے گی اقتدار کے ساڑھے تین سال بعد جب وہ لڑنے بھڑنے کی بات کررہے ہیں تو اقتدار سے علیحدگی اور ملک چلانے میں مکمل طور پر ناکامی کے بعد ان کی شخصیت میں کس نوع کی تبدیلیاں رونما ہونگی اگرچہ وقت آنے سے پہلے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن معزولی اقتدار کے اثرات ابھی سے نمایاں ہیں اپنے حالیہ خطاب میں وہ ایک زخم خوردہ لیڈر اور ناکامی کے خوف میں مبتلا حکومتی سربراہ کے طور پر شدید غم و غصے کا اظہار کررہے تھے حتیٰ کہ دھمکیوں اور مارنے مرنے پر اتر آئے تھے۔
روزنامہ ڈان نے آج کے اخبار میں کپتان کے غصے کو موضوع بناکر ایک کارٹون شائع کیا ہے جس میں وہ قرون وسطیٰ کا جنگجویانہ لباس پہن کر اور ہاتھ میں تلوار لیکر مخالفین کو تہس نہس کرنے…… کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے مخالف صحافی سلیم صافی نے خطاب کے فوراً بعد ٹویٹ کیا تھا کہ
”آپ نے آج تک ”ان“ کا پیار دیکھا ہے مار نہیں دیکھی“ گویا آگے جاکر ان کو مار بھی پڑے گی صافی نے دو وزراء اسدعمر اور ذوالفی بخاری کا نام لیکر کہا ہے کہ یہ وعدہ معاف گواہ نہ بنے تو ان کا نام شبلی فراز رکھا جائے یعنی معزولی کے بعد کپتان پر کرپشن کے جو بے شمار مقدمات قائم ہونگے تو ان کے کئی قریبی ساتھی سلطانی گواہ بننے کیلئے بھی تیار ہونگے یہ بڑوں کی مار کیا ہوتی ہے یہ صرف زرداری اور پیپلز پارٹی ہی جانتے ہیں 1993 میں صدر اسحق اور میاں نواز شریف کے تنازعہ کے دوران میاں صاحب نے جنرل وحید کاکڑ کی جرنیلی سوٹی دیکھی تھی اپنی تھوڑی پر اس کی ہلکی سے چبھن محسوس کرکے میاں صاحب نے استعفیٰ کے کاغذ پر دستخط کردیئے تھے زرداری بے چارے کی تو زبان کاٹ لی گئی تھی کاٹنے والے کو میاں صاحب نے لاہور بلاکر انعام کے طور پر حکومتی مشیر بنایا تھا۔
مجھے تو خدشہ ہے کہ عمران خان کے شوبوائے مراد سعید اور ان کے گبرو وزیرداخلہ شیخ رشید کہیں وعدہ معاف گواہ نہ بن جائیں نئی صورتحال سے عمران خان تو ہیں ہی مشکل میں لیکن سب سے زیادہ برا حال شیخ صاحب کا ہے کیونکہ عمران خان کے زوال کے ساتھ ہی شیخ صاحب کا طویل سیاسی کریئر بھی اختتام کو پہنچے گا 70 سال کی بہاریں دیکھنے اور نصف درجن دفعہ وزارت کے مزے لینے کے بعد انہیں نہ صرف ریٹائرمنٹ لینی پڑے گی بلکہ لال حویلی میں وہ ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گے تنہائی اقتدار سے دور دور اور سرکاری مراعات سے محروم شیخ صاحب کی زندگی سوہاں روح بن جائے گی اوپر سے ن لیگی مسنڈوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ روزانہ شیخ صاحب پرسنگ باری کریں گے اور نعرے کسیں گے اس کے ساتھ ہی ایک متوالے نے اعلان کیا ہے کہ شیخ رشید کے لال حویلی پر قبضہ کے خلاف وہ عدالت سے رجوع کریں گے۔
لال حویلی میاں نواز شریف نے اپنے دور میں شیخ صاحب کو الاٹ کیا تھا غالباً شیخ صاحب پر یہ نواز شریف کا سب سے بڑا احسان تھا لیکن سیاست میں کوئی احسان وغیرہ نہیں ہوتابلکہ جس پر جتنے زیادہ احسان ہونگے وہ محسن کا اتنا ہی مخالف ہوگا ویسے بھی میاں صاحب مردم شناس نہیں ہیں اگر ہوتے تو عمران خان کو بلاکر شوکت خانم کا وسیع و عریض پلاٹ اور تعمیر کیلئے 50 کروڑ روپے کی خطیر رقم عنایت نہ کرتے اسی احسان کا بدلہ عمران خان نے نواز شریف کو بے عزت کرکے اقتدار سے نکال باہر کرکے چکادیا اسی طرح کا سلوک طاہر القادری نے بھی شریف فیملی کے ساتھ کیا تھا انہوں نے خود بتایا تھا میاں شریف نے علاج کیلئے انہیں امریکہ بھیجا تھا طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے شہباز شریف انہیں کاندھے پر بیٹھا کر لے جاتے تھے لیکن بعدازاں طاہر القادری نے ان کے ساتھ کیا کیا یہ کون نہیں جانتا۔
اگر احسان یاد رکھنے کی چیز ہوتی تو آج جنرل محمد ضیاؤ الحق کی قبر کا مجاور میاں نواز شریف کے سوا اور کوئی نہیں ہوتا مگر افسوس کہ فیصل مسجد کے احاطہ میں واقع یہ قبر ویران ہے اور شروع کے ایک سال بعد میاں صاحب کبھی یہاں فاتحہ پڑھنے بھی نہیں آئے آج کل ایک تصویر وائرل ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ قبر کے پاس کچھ جانور بیٹھے ہوئے ہیں اگر ضیاؤالحق نہ ہوتے تو میاں صاحب کہاں ہوتے اور لیلائے اقتدار کیسے اس کی آغوش میں ہوتی۔
جہاں تک کپتان کا تعلق ہے تو وہ احسان پر یقین نہیں رکھتے اس لئے وہ کسی پر احسان کرنے کے قائل نہیں ہیں وہ شدید طور پر خودپسندی کے شکار ہیں وہ اپنے سوا کسی کو قابل انسان نہیں سمجھتے اور کسی سے بھی گرم جوشی سے ہاتھ نہیں ملاتے معانقہ تو دور کی بات وہ ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے ایک دفعہ مولانا طارق جمیل زبردستی ان کے گلے لگ گئے تھے مولانا صاحب بھی کپتان کی طرح صرف اشرف المخلوقات سے ہی تعلقات رکھتے ہیں عام انسان ان کے نزدیک جانور سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے حالات نے ثابت کیا ہے کہ ان کی گفتار اور کردار الگ ہے یہ تو معلوم نہیں کہ کپتان کے ساتھ ہوگا کیا یا انہیں کب سبکدوش ہونا پڑے گا یا کچھ اور ہوگا لیکن ذاتی طور پر وہ نہ صرف موجودہ مدت پوری کرنے کی خواہش رکھتے ہیں بلکہ ارادہ یہ ہے کہ 2023 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے مزید پانچ برس تک وزیراعظم رہیں بلکہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ صدر بن کر ہی 80 برس کی عمر تک ملک و قوم کی خدمت کریں لیکن وہ جن پتوں پر تکیہ کئے ہوئے تھے وہ ہوا دینے لگے ہیں وہ انہیں مزید موقع دینے کیلئے تیار نہیں ہیں اگر انہوں نے پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر دیکھنا ہے تو بے شک وہ خان صاحب کی دستگیری جاری رکھیں لیکن وہ اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ خان صاحب پاکستانی تاریخ کے ناکام ترین لیڈر ثابت ہوئے ہیں ملک چلانا ان کے بس کا کام نہیں ہے اگر ان پر زیادہ رحم کیا گیا تو انہیں لندن جانے کا موقع دیا جائے گا جہاں وہ باقی زندی عیش و آرام کے ساتھ گزار سکتے ہیں آزادی تو وہاں پر بھی انہیں میسر نہیں ہوگی کیونکہ خان صاحب نے جن لوگوں کو نواز شریف پر پتھر مارنے کیلئے بھیجا تھا ان کے پتھر واپس خان صاحب کی طرف آئیں گے جس کی وجہ سے انہیں اپنی دولت کا بڑا حصہ سیکورٹی پر خرچ کرنا پڑے گا۔
اگر خان صاحب باہر گئے تو اپنا ملک دیکھنا انہیں کبھی نصیب نہیں ہوگا وہ دنیا کے جس حصے میں بھی جائیں انہیں بنی گالہ جیسا جنت اراضی اور وہاں پر واقع اپنا وسیع و عریض محل جیسا کوئی مکان میسر نہیں ہوگا باغوں اور پھولوں میں گھرا یہ مکان پاکستان کا سب سے شاندار محل ہے جہاں سے پورا اسلام آباد راول جھیل اور مرگلہ کے خوبصورت پہاڑاور بے شمار دلکش نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں مطلع صاف ہو تو 24 میل دور مری کی برف پوش چوٹیاں بھی دکھائی دیتی ہیں لیکن زوال زوال ہوتا ہے زوال بے شمار تبدیلیاں،محرومیاں اور مصائب اپنے ساتھ لیکر آتا ہے جو شخص زوال کا شکار ہوتا ہے اس پر رحم کھانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
خدا خیر کرے
توقع کی جانی چاہئے کہ ن لیگ اور مخالفین اقتدار میں آکر جوابی انتقامی کارروائی سے کام نہیں لیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں