بت اور بت شکن

تحریر: انورساجدی
معلوم نہیں کہ کرپشن سے عمران خان کی مراد کیا ہے جب انہوں نے2013ء سے کرپشن کیخلاف جو بیانیہ اپنایاتھا اس کا مقصد کیا تھا؟ اب جبکہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کے دور میں کرپشن میں 16درجہ اضافہ ہوگیا ہے تو کپتان اس کا کیا جواب دیں گے ایسا لگتا ہے کہ کپتان کے نزدیک کرپشن وہ ہے جو مخالفین کریں اگر ان کی حکومت وزراء مشیر اور بیوروکریٹ ریاست کو دونوں ہاتھوں سے لوٹیں تو یہ کرپشن نہیں بلکہ محنت شاقہ کا صلہ ہے۔
جناب عمران خان صبح وشام یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ان کا کوئی کاروبار نہیں ہے میلیں نہیں ہیں اس لئے وہ کرپشن سے پاک ہیں لیکن اس مرتبہ کسی غلط مشیر کے کہنے پر رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اگرحسب سابق کوئی کاروبار نہیں ہے تو ایک کروڑ ٹیکس کن آمدنی کی مد میں ادا کیا جلد یا بدیر اس کا حساب دینا پڑے گا حال ہی میں انہوں نے لوگوں کی ٹیلی فون کالیں وصول کرتے ہوئے قوم سے لمبا چھوڑا خطاب فرمادیا اور کہاکہ وہ شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر نہیں مجرم سمجھتے ہیں اس لئے وہ ایسی کرپٹ اپوزیشن سے بات چیت پر یقین نہیں رکھتے کرپشن کے بارے میں ایک مستند عالمی ادارے کی رپورٹ کے بارے میں کیا کہیں گے وہ اگرچہ اپنے آپ کو دودھ کا دھلا اور پاک صاف ظاہر کرتے ہیں لیکن اتنے بھولے بھی نہیں کہ وہ اپنے وزراء مشیروں اور خاص معاونین کی لوٹ مار سے بے خبر ہوں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ خود کو پاک صاف کہنے سے کوئی پوتر نہیں ہوتا حقیقت یہ ہے کہ ٹرانسپرینسی کی رپورٹ سے ان کا کرپشن کیخلاف بیانیہ زمین بوس ہوگیا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب یہ بیانیہ مذاق بن کر ہمیشہ کیلئے دفن ہوجائیگا۔
یاروں نے ان کا خوبصورت بت تراش کر جو امیج بنایا تھا وہ تو بگڑ چکا بلکہ جلد ان کا بت دھڑام سے زمین بوس ہوجائیگا۔
اگردیکھاجائے تو قصور عمران خان کا نہیں ہے بلکہ بت تراشوں کا ہے یہ بت تراشوں کا پرانا شغلہ ہے وہ نت نئے بت بناکر انہیں عوام کے دلوں میں نصب کرتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد اسے خود ہی گراکر بت شکن ہونے کا ثبوت دیتے ہیں یہ پاکستان کی پرانی تاریخ ہے۔1947ء میں یوپی سے تعلق رکھنے والے لیاقت علی خان کا کسی میرٹ کے بغیر بت بنایا گیا تھا تو انہیں قائد ملت کا لقب دیا گیا تھا ان کی قربانیوں کے بڑے چرچے کئے تھے ان کی سادگی اور ایمانداری کے قصے گھڑے تھے حالانکہ1951ء میں اپنی موت سے قبل انہوں نے اپنے لئے ایک خصوصی طیارے کاآرڈر دیا تھا اگر وہ اتنے سادہ اور کفایت شعات ہوتے تو انہیں خصوصی طیارے کی کیا ضرورت تھی۔
16اکتوبرسے1958ء تک کئی بت کھڑے کئے گئے حتیٰ کہ بنگال کے میرجعفر کے پڑپوتے میجر جنرل (اعزازی) سکندر مرزا کو پہلے گورنر جنرل اور بعدازاں صدر بناکر ان کی تعریف وتوصیف میں زمین آسمان ایک کردیئے لیکن جلد ہی ایوب خان کا دلآویز بت بناکر سکندر مرزا کو جلاوطن کردیا گیا ایوب خان کے آنے سے اہل پنجاب پھولے نہیں سماتے تھے وہ دل ہی دل میں خوش تھے کہ اقتدار ہندوستانی مہاجروں سے نکل کر ان کے ہاتھوں میں آگیا ہے۔ایوب خان کی فوجی بغاوت کو انقلاب کا نام دیا گیا اور ترقی کے ایک نئے دور کا خواب دکھایا گیا حالانکہ ایوب خان نے اقتدار میں آنے کے چند سال بعد دریاؤں کا سودا کیا اور خارجہ پالیسی اس حد تک امریکہ کے تابع بنادی کہ پاکستان ایک کالونی کی مانند ہوگیا ایوب خان نے مشرقی پاکستان کے عوام کوحقیر قراردے کر سارے وسائل مغربی پاکستان منتقل کئے اور اقتدار کی پنجاب منتقلی کی علامت کے طور پر دارالحکومت کراچی سے اٹھاکر راولپنڈی لے گئے ایوب خان نے بھی عمران خان طرح ایک قوم ایک نصاب کا نعرہ دیا تاکہ نام نہاد نظریہ پاکستان کو عوام کے ذہنوں میں پیوست کیاجائے لیکن1964ء کے صدارتی انتخاب میں انہیں دھاندلی کا سہارا لینا پڑا اس مہم جوئی کے بعد انہوں نے1965ء کی جنگ چھیڑدی تاکہ یہ جنگ جیت کر وہ ایک ہیرو کے طور پر ابھرے وہ اپنے آپ کو سلطان محمود غزنوی اور سلطان صلاح الدین ایوبی قرار دینے کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن جنگ کے نتیجے میں انہیں لینے کے دینے پڑ گئے17روزہ جنگ نے ایوب خان کا بت گرادیا اور وہ معاہدہ تاشقند کرنے پر مجبور ہوگئے۔
بت شکنوں نے اپنے اپنے ہیرو کا یہ حال کردیا کہ نئے دارالحکومت راولپنڈی میں لوگ سڑکوں پر ایوب کتا ہائے ہائے کانعرہ بلند کررہے تھے۔
ایوب خان کے بعدبت تراشیوں نے جنرل آغا محمدیحییٰ خان قز لباس کا بہ تراشا یہ بہت خوبصورت بت تھا اس بت کے اردگرد پھول اور کلیاں نصب کی گئی تھیں لیکن16دسمبر1971ء کو اس بت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں زمین بوس کردیا گیا۔
یحییٰ خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا بت بناکر انہیں فخر ایشیاء اور قائد عوام کا لقب دیا گیا ان سے بڑے بڑے کام لئے گئے شملہ معاہدہ کروایا 93ہزار جنگی قیدی اور 5ہزار مربع میل کا علاقہ واگزار کروایا۔ایٹمی پروگرام بنوایا لیکن 6سال بعد پنجاب کی سڑکوں پرانکے بت کوپاش پاش کردیا گیا بھٹو کو پھانسی چڑھانے والے ضیاؤ الحق کو مرد مومن مرد حق کا نام دیا گیا لیکن وقت بدلنے ہی جب ان کی ضرورت نہ رہی تو ان کے تراشیدہ بت کو فضاؤں میں توڑ کر رکھ دیا گیا۔
ضیاؤ الحق نے اپنے جانشین کا اہتمام بھی کررکھا تھا اپنی زندگی میں انہوں نے تراش خراش کرکے میاں نوازشریف کا ملکوتی بت کھڑا کردیا تھا تاہم1988ء میں انہیں قومی الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ دوسری بار پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہوگئے1990ء میں اس بت میں جان ڈال کر انہیں وزیراعظم بنانے کی کوشش کامیاب ہوئی 1997ء اور2013ء میں بت تراشوں نے اسکی مزید بہتر تراش خراش کرکے اسے ایک انٹرنیشنل بت بنادیا لیکن1999ء میں اس بت نے بم کو لات مارکر اپنی تباہی کو خود دعوت دی یہ پہلا موقع تھا کہ جنرل مشرف بت شکن بن کر آئے اورضیاؤ الحق کے تراشیدہ بت کو جدہ روانہ کردیا تاہم معافی تلافی کے بعد2008ء میں پنجاب دوبارہ اس کے حوالے کردیا گیا جبکہ2013ء میں تیسری بار وزارت کا تاج ان کے سر رکھ دیا گیا۔
نوازشریف کی سرکشی کی وجہ سے بت تراشیوں نے ایک نئے گھوڑے کا بت بناکررکھا جس کا نام عمران خان ہے اسے سمجھایا گیا تھا کہ عوام دوباتوں سے متاثر ہوتے ہیں ایک اسلامی نظام سے اور ایک کرپشن کیخلاف مہم سے چنانچہ انہوں نے کرپشن کیخلاف بیانیہ بنایا اورریاست مدینہ کا نعرہ لگاکر میدان میں اترے بت تراشیوں نے بڑے نازونعم سے اس بت کو بنایا تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ بت کاناکارہ ثابت ہوا ان کی جن صلاحیتوں اور خوبیوں کا چرچا کرکے انہیں لایا گیا تھا وہ چیزیں ان میں تھیں ہی نہیں چنانچہ رفتہ رفتہ ملک اور اس کی معیشت ڈوبنے لگے تو اس بت کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا فی الحال تو اس کی بنیاد ہلائی گئی ہے بت شکن مناسب وقت پر اپنے اس پیارے اور لاج دلارے بت کو گراکر کہیں دوردیس میں بھیج دیں گے۔
اب یہ فیصلہ عوام پر ہے کہ قصور ”بتوں کا ہے یا بت شکنوں کا“
بتوں نے ڈالے ہیں وہ وسوسے
کہ دلوں سے خوف خدا گیا
فیض صاحب
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں