یاوہ گوئی

تحریر: انورساجدی

سوشل میڈیا دور جدید کی شاندار ایجادات کی ایسا پھل ہے کہ اس وقت تمام نسل انسانی اس کا پھل کھانے پر مجبور ہے یہ جو پھل ہے اس کا زیادہ تر حصہ کڑوا ہے اگرچہ انٹرنیٹ نے روئے زمین کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک احوالکاری کو برق رفتاری سے پہنچانے کا سبب پیدا کیا ہے لیکن اس میں بے شمار قابل اعتراض چیزیں اور افواہ سازی کا بازار ہر وقت گرم رہتا ہے۔
انٹرنیٹ سے پہلے دنیا کے لوگ براعظموں کی خبریں تاخیر سے سنتے تھے لیکن اب تو سیکنڈز میں پتہ چلتا ہے کہ سات براعظموں میں کیا ہو رہا ہے خبروں کی برق رفتاری کو مزید مہمیز دینے کیلئے کھوج جاری ہے اس وقت قیمت ادا کر کے ہو رہا ہے لیکن ٹیسلا کمپنی کے سربراہ ایلان مسک ہزاروں سیٹلائٹ چھوڑکر انٹرنیٹ کی مفت فراہمی کا بندوبست کر رہے ہیں۔
انٹرنیٹ کے اثرات کیا ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب 2007ء میں محترمہ بے نظیر کا قتل ہوا تو قطب شمالی کے شہر ارکسک میں وہاں کی سول سوسائٹی نے سخت سردی کے باوجود محترمہ کی یاد میں شمعیں روشن کیں اسی دن قطب جنوبی کے شہر فاکلینڈ کے لوگوں نے بھی شمعیں روشن کر کے اپنی عقیدت اور غم کا اظہار کیا۔
بد قسمتی سے پاکستان جیسے ملک میں انٹرنیٹ کی وزارت امین الحق نامی وزیر کے سپرد ہے میرا ذاتی اندازہ ہے کہ اس وقت دنیا میں اطلاعات اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں جو حیران کن پیش رفت ہو رہی ہے وہ اس سے کماحقہ آگاہ نہیں ہیں ایک اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اطلاعات کے شعبہ کے سربراہ فواد چوہدری ہیں جن کے دونوں ادوار میں میڈیا پر سنسرشپ عائد ہے انہوں نے پرنٹ میدیا کا بیڑہ غرق کر دیا ہے اور پرائیویٹ چینلوں کو پی ٹی وی میں بدل دیا ہے۔
ان دو وزراء سے قطع نظر تقریباً موجودہ حکومت کے بیشتر اکابرین نالائقی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں اور تو اور اس حکومت کے کپتان بھی آج کل جس طرح کے افکار و خیالات کا اظہار فرما رہے ہیں وہ عہد حاضر کے نازک دور سے میل نہیں کھاتے معلوم نہیں کہ موصوف کو کیا سوجھی ہے کہ اپنے دور کو ریاست مدینہ کے اولین دور سے مماثل قرار دیتے ہیں حال ہی میں کہہ رہے تھے کہ ریاست مدینہ کے ابتدائی پانچ سالوں میں مدینہ میں خوشحالی نہیں آئی تھی یعنی ان کے پہلے پانچ سال بھی بھوک افلاس اور ناداری میں گزریں گے البتہ آئندہ پانچ سال کے دوران وہ ملک کے طول و عرض میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔
چونکہ ان کے وزیر مشیر اورگزیران کے غصہ سے ڈرتے ہیں اس لئے وہ کسی بھی موقع پر اختلاف کی جرات نہیں کرتے بلکہ چاپلوسی کر کے اور سب اچھا ہے کی گردان کر کے ان کا ناگوار موڈ کو خوشگواری میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کیا بعید کہ کچھ عرصہ بعد ان کے وزیر اور مشیر یہ مشورہ صادر فرمائیں کہ آپ صدارتی نظام کے بعد خلیفہ بننے کے بارے میں سوچیں کیونکہ ریاست مدینہ میں کوئی وزیراعظم اور صدر نہیں ہوتا تھا بلکہ وہاں پر خلیفہ ریاست کا سربراہ ہوتا تھا لہذا بہتر ہوگا کہ آپ بھی ریاست مدینہ کے قیام کے بعد خلیفہ بن جائیں ویسے بھی خلیفہ تاحیات ہوتا ہے اور اسے کسی اپوزیشن سے خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔
سوشل میڈیا کا شکریہ کہ اس کے ذریعے دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہو جاتا ہے اور کسی بھی شخصیت کے کمزور پہلوعلمیت، جہالت اور وہ کتنے پانی میں ہے سب واضع ہو جاتا ہے۔
اب کوئی فواد چوہدری سے پوچھے کہ انہوں نے بلاول کو کراچی اور مریم کو لاہور کی میئر بننے کا جو مشورہ دیا ہے اس کا کیا مقصد ہے اگر اس کا مطلب یہی ہے کہ نچلی سطح سے تجربہ حاصل کر کے اوپر آیا جائے تو اصولی طورپر یہ بات درست ہے لیکن وہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ کیا ان کا لیڈر پہلے لاہور یا میانوالی کے کونسلر کا الیکشن جیتے تھے جو وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہو گئے سوشل میڈیا کے ذریعے بات کا بتنگڑ بننا بہت ہی آسان ہے مثال کے طور پر چند روز قبل وزیراعظم سے آرمی چیف کی ملاقات ہوئی موصوف خود ایک صوفہ پر براجمان تھے جبکہ آرمی چیف کیلئے ایک کرسی رکھی گئی تھی افواہوں کے مطابق جونہی آرمی چیف چلے گئے اس جگہ پر دوبارہ صوفہ رکھ دیا گیا اس افواہ کا یہ مقصد دکھانا مطلوب تھا کہ دونوں بڑوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں اور پہلے والی گرمجوشی ختم ہو چکی ہے کیونکہ وزیراعظم کو پتہ چلا ہے کہ نواز شریف سے کافی عرصہ سے لندن میں خفیہ مذاکرات جاری ہیں اور عدلیہ کے ذریعے ان کی تاحیات نااہلی ختم کروانے کیلئے قانونی معاونت کی جا رہی ہے۔
اس بات سے قطع نظر زمینی حقائق ابھی تک یہی بتاتے ہیں کہ جب بھی حکومت پارلیمان میں کسی مشکل میں پھنس جائے تو اراکین کو نامعلوم کالیں آ جاتی ہیں جن کے بعد یہ مشکلات ختم ہو جاتی ہیں یعنی عملی تعاون جاری ہے مثالیں تو بہت ہیں لیکن سینٹ میں اپوزیشن کی واضع اکثریت کے باوجود اس کی بار بار شکست اس کا ناقابل تردید ثبوت ہے مثال کے طور پر گورنر اسٹیٹ بینک سے متعلق آئینی ترمیم کے وقت اپوزیشن کے 8 اراکین غیر حاضر تھے جبکہ یوسف رضا گیلانی کی غیر موجودگی بھی محسوس کی گئی اس کے باوجود ترمیم کے حق اور مخالفت میں برابر ووٹ آئے جس پر چیئرمین صادق سنجرانی نے کاسٹنگ ووٹ ڈال کر ترمیم منظور کروائی سب جانتے ہیں کہ صادق سنجرانی کس کے حلقہ ارادت میں شامل ہیں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جس طرح اے این پی بلوچستان اپنی مرکزی جماعت کے ڈسپلن اور احکامات کی پابند نہیں ہے اسی طرح سینٹ میں اس کا رکن جناب کاسی صاحب کسی نہ کسی بہانہ سے اپوزیشن کی بجائے حکومت کی حمایت کرتے رہتے ہیں حالیہ ترمیم کے دوران وہ ووٹوں کی گنتی سے پہلے ایوان سے نکل کر باہر چلے گئے اگر وہ موجود ہوتے تو اپوزیشن کو شکست نہیں ہو سکتی تھی جہاں تک یوسف رضا گیلانی کا تعلق ہے تو انہیں زرداری نے وزیراعظم بنایا سینیٹ کی نشست دلائی لیکن وہ اصل میں دو کشتیوں میں سوار ہیں جب وہ ضیاء الحق کے دور میں چیئرمین ضلع کونسل ملتان تھے تو ان کی پہلی سیاسی تربیت مارشل لاء کی گود میں ہوئی تھی انہوں نے ضیاء الحق کا پولنگ ایجنٹ بن کر ان کی کامیابی کیلئے اشتہاری مہم بھی چلائی تھی ایسی ہی یا اس سے بدتر تربیت مشاہد حسین سید کی ہوئی ہے نہ جانے نواز شریف ان پر کس لئے مہربان ہوتے تھے وہ بھی اکثر نازک مواقع پر کنی کترا کر نکل جاتے ہیں۔
اسی صورتحال کی وجہ سے پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹیمپ کہا جاتا ہے یہ ایک آزاد خودمختار اور سپریم ادارہ کے طور پر ایکٹ نہیں کر رہی ہے کیونکہ اس میں موجود نمائندوں کا ایک بڑا حصہ وابستہ تو سیاسی جماعتوں سے ہے لیکن ان کی وفاداری کہیں اور ہے بلکہ ان کی کامیابی کا بندوبست بھی ادھر سے کیا جاتا ہے۔
وقتی طور پر اقلیت میں ہونے کے باوجود حکومت کا بزنس چل رہا ہے لیکن مرگلہ پر کچھ کالے بادل نمودار دکھائی دینا شروع ہو گئے ہیں یہ جو وزیراعظم نے چند روز قبل کہا تھا کہ مارچ تک کا وقت بہت اہم ہے ان کی یہ بات درست ہے کیونکہ دونوں فریق ایک بڑے معرکہ کی تیاری میں لگے ہیں غالباً اس معرکہ کی ابتداء مارچ میں ہوگی اور اس کا حتمی فیصلہ نومبر میں ہوگا یہ جو بلاول کا لانگ مارچ ہے، مولانا کا مارچ میں دھرنے کا اعلان ہے یہ اسی معرکہ کی تیاری کا حصہ ہے۔
اپوزیشن سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے لیکن وقت آنے پر ان کی خدمات اور ہتھیاروں سے کام لیا جائیگا یعنی یہ جو کھیل ہو رہا ہے اگر اس کا نام سیاست ہے تو پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں ضرور شمار ہو گا جہاں سیاست اور اقتدار کے کوئی اصول اور رموز نہیں ہیں سردست سوشل میڈیا افواہیں پھیلانے اور دل بہلانے کا اچھا پلیٹ فارم ہے۔
سیاسی جماعتوں کے غریب اور معصوم کارکن اپنے لیڈروں کی وہ تعریف اور توصیف کر رہے ہیں کہ وہ خود دیکھ کر بھی شرمندہ ہو جائیں لیکن معاشرتی طور پر اتنی گراوٹ آ چکی ہے کہ معاشرے کی تمام اقدار تہس نہس ہو گئی ہیں کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے اکثر جماعتوں کے کارکن اپنے لیڈروں کو قطب ولی اور اوتار بنا کر پیش کر ہے ہین ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ اس کا لیڈر نظریاتی ہے حالانکہ فی زمانہ کسی جماعت اور لیڈر کا کوئی نظریہ باقی نہیں رہا سارے ذاتی گروہی اور معاشی مفادات کے حصول کیلئے سرگردان ہیں۔
پیٹ پرستی کا ایسا انمول مظاہرہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں