قیصر بنگالی کا قصور

تحریر: انورساجدی
یہ جو دن گزرا ہے یہ تین اہم واقعات کا مظہر ہے ہندوستان کی تحریک آزادی کے ہیرو اور دنیا میں عدم تشدد کے نظریہ کے بانی مہاتما موہن چند کرم داس گاندھی کو ایک ہندو مہا سبھائی نتھورام گوڈ سے نے قتل کر دیا گاندھی جی کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے البتہ یہ افسوس ضرور ہوتا ہے کہ جب ہم طالب علم تھے تو درسی کتابوں میں لکھا ہوتا تھا کہ گاندھی ایک تنگ نظریہ اور متعصب ہندو رہنماء تھے جس وجہ سے کل مذاہب دعائیہ تقریب میں ان کا بہیمانہ قتل ہوا وہاں پر گاندھی جی نے اس سبب مرن بھرت رکھا تھا کہ پاکستان کو اس کے اثاثے فوری طور پر دیئے جائیں۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ اندرا گاندھی کے دور میں اسی دن بادشاہ خان کو ہندوستان کا سب سے بڑا اعزاز ”بھارت رتن“ سے سرفراز کیا گیا تھا باچا خان کو گاندھی نے اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور انہیں سرحدی گاندھی کا خطاب دیا تھا قیام پاکستان کے بعد انہیں مختلف حکومتوں نے تادم آخر ملک دشمن کا سرٹیفکیٹ دیا تھا باچا خان اور مولانا ابوالکلام آزاد گاندھی جی کے آشرم میں ان کے سامنے نماز ادا کرتے تھے اور وہ نہرو اور سردار پٹیل سے کہیں زیادہ ان کے قریب تھے۔
تیسرا واقعہ سندھ کی مائی جندو کا انتقال ہے 5جنوری1992ء کو نواز شریف کے دور میں ایک حاصر سروس میجر نے تنڈول بہاول میں مائی جندو کے دو بیٹوں اور داماد کو ملک دشمن ظاہر کر کے گولیوں سے بھون دیا تھا مائی جندو نے قاتل کو سزا دلانے کیلئے عہد حاضر کی بے مثال جدوجہد کی جس کی وجہ سے اسے پھانسی کی سزا ہو گئی شروع میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی نے سزا پر عملدرآمد کے خلاف حکم امتناع جاری کر دیا 24جولائی1992ء کو جنرل آصف نواز اور میاں نواز شریف نے مجرم کے کورٹ مارشل کا فیصلہ کیا تھا سزائے موت پر عملدرآمد نہ ہونے پر 11ستمبر1996ء کو مائی جندو کی دو بیٹیوں نے حیدر آباد پریس کلب کے سامنے خود سوزی کر لی جس پر 28اکتوبر1996ء کو مجرم کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اس طرح ایک کمزور اور ہاری خاتون نے اپنے عزم و استقلال کے ذریعے انصاف حاصل کر لیا لیکن اس کے بدلے میں اس کے خاندان کے پانچ افراد کی جانیں چلی گئیں۔
ایک اور اہم واقعہ یہ ہے کہ حکومتی اکابرین نے روشن خیال ماہر معیشت قیصر بنگالی کو چند دن قبل ان کے اہم انکشاف پر ملک دشمن قرار دیا ہے حکومتی ترجمان شہباز گل اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بیان دیا کہ قیصر بنگالی نے اپنے شہرت کے لئے بیان دیا ہے ملک میں انہیں کوئی نہیں جانتا سبحان اللہ جیسے دونوں وزراء کی شہرت چہار دانگ عالم ہے قیصر بنگالی نے ایکسپریس ٹی وی کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان حقیقی معنوں میں دیوالیہ ہو چکا ہے صرف اس کا اعلان باقی ہے انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ معاشی دیوالیہ کے پیش نظر کہیں عالمی ادارے یہ مطالبہ نہ کر بیٹھیں ملک کے سب سے اہم اثاثہ ایٹمی پروگرام کو رہن رکھ کر اس کا انتظام عالمی اداروں کے کنٹرول میں دیا جائے معلوم نہیں کہ حکومتی اکابرین کو معاشی دیوالیہ پن کے بیان پر اعتراض تھا ایٹمی یااثاثہ کے بارے میں بات ناگوار گزری تھی کسی بھی اہم شخصیت کو اختلاف رائے پر غدار قرار دینا کوئی نئی روایت نہیں ہے ایک لمبی فہرست ہے حضرت فیض احمد فیض سے لے کر قیصر بنگالی تک سینکڑوں لوگوں کو مختلف مواقع پر غداری کے لقب سے نوازا گیا حتیٰ کہ فیلڈ مارشل (نام نہاد) ایوب خان نے بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو اپنے خلاف الیکشن لڑنے پر غدار اور پشتونستان کا ایجنٹ قرار دیا تھا غفار خان، ولی خان، بزنجو، خیر بخش مری، عطاء اللہ مینگل، بھٹو اور مجیب کو بھی غدار قرار دے کر قابل گردن زدنی ٹھہرایا گیا تھا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ غداری کا لقب بانٹنے والے بونے حکمران دراصل خود غدار تھے یحییٰ خان کے ہاتھوں ملک دولخت ہوا لیکن اسے کوئی سزا نہ ملی انہوں نے باقی زندگی راولپنڈی کے ہارلے اسٹریٹ کے مکان میں پرسکون طور پر گزاری اور جب فوت ہوئے تو انہیں پورے اعزاز کے ساتھ سپردخاک کر دیا گیا جنرل ضیاء الحق نے بھارت کے ہاتھوں سیاچن گلیشیئر کھو دیا لیکن ان کا مرتبہ بلند کر کے انہین فیصل مسجد کے احاطہ میں سپردخاک کر دیا گیا جنرل پرویز مشرف نے کارگل ہار دیا لیکن ایک دن بھی سزا نہیں پائی وہ واحد آمر تھے کہ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم ہوا لیکن وہ کبھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے یہ ایک دوغلی پالیسی ہے جو انصاف کے اعلیٰ اصولوں کے خلاف ہے۔
اس ملک میں کئی نیم پاگل مسخرے ہیں جنہیں دانشور اور عظیم محب وطن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لال ٹوپی والا مسخرہ تو پرانا کیس ہے لیکن تازہ مسخرہ ایک سابق افسر اوریا مقبول جان آج کل ہٹ ہیں وہ پہلے ٹی وی پر غزوہ ہند کی نوید سناتے تھے افغان طالبان کی حمایت میں زمین آسمان کے قلایے ملاتے تھے آج کل وہ مذہبی اجتماعات میں باقاعدہ درس دینے لگے ہیں ایک تصویر میں وہ دھاری دار کالی پگڑی پہن کر امت کی سربلندی کے خواب بیچ رہے ہیں موصوف نے ایک دو سال پہلے اس بشارت کی بات بھی کی تھی جو ملک کے طاقتور ترین شخضیت کے بارے میں تھی۔
دراصل ان لوگوں اور نتھو رام گوڈ سے کی ذہنیت میں کوئی فرق نہیں ہے یہ ہماری طرف کے مہاسبھائی ہیں اور ہر لحاظ اور ہر لمحہ تفریق اور مذہبی تعصب پھیلاتے رہتے ہیں چنانچہ جب سے قیصر بنگالی نے حقائق پر سے پردہ اٹھایا ہے سوشل میڈیا یا ان کے خلاف طوفان برپا ہے جو بات قیصر بنگالی نے کہی ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن پھر بھی انہیں برا بھلا کہا جا رہا ہے اگر کل کلاں بنگالی کی بات سچ ثابت ہو گئی تو حکومتی اکابرین کیا کہیں گے جہاں تک قیصر کا تعلق ہے تو کوئی شک نہیں وہ صفا پاگل ہے اگر پاگل نہ ہوتا تو شوکت ترین، حفیظ شیخ اور دیگر اقتصادی ماہرین کی طرح یہ بھی ہر طرف دولت میں کھیلتے یہ بھی وزیر اور مشیر بنتے لیکن سچ اگلنے کی وجہ سے یہ ہر دور کے معتوب ہیں ایک دفعہ زرداری نے انہیں سندھ کا مشیر بنایا لیکن گڑگر کر الگ ہوا میر حاصل خان کا قریبی دوست تھا اس لئے ڈاکٹر مالک نے انہیں این ایف سی میں بلوچستان کا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا انہوں نے بلوچستان کے ساتھ ناانصافیوں پر مبنی ایک اچھی کتاب بھی تحریر کی ہے۔
قیصر بنگالی ویسے عجیب و غریب شخص ہے اس کا بنگال سے کوئی تعلق نہیں ہے آباؤاجداد کاروبار کے سلسلے میں وہاں گئے تھے لیکن موصوف نے اپنے نام کے ساتھ بنگالی لکھنا شروع کر دیا حالانکہ ان کا تعلق بوہری کمیونٹی سے ہے میری ان سے واحد ملاقات نال میں ہوئی تھی جہاں وہ میر حاصل خان مرحوم کی والدہ محترمہ کی تعزیت کیلئے آئے تھے۔
ایک مرتبہ معاشی صورتحال پر بات چیت کیلئے وقت مانگا جو انہوں نے دیدیا لیکن یہ کرونا کے شروع کا دور تھا اور صرف ورچوئل ملاقات ہو سکتی تھی۔
وہ ایک سچے اور صاف گو انسان ہیں مالی منفعت کی پروا نہیں ہے بہت ہی سادہ زندگی گزارتے ہیں جتنا علم ان کے پاس ہے اگر کسی اور کے پاس ہوتا تو وہ کیا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
حال ہی میں ایک پوسٹ دیکھی جب پاکستانی وفد آئی ایم ایف سے مذاکرات کیلئے دوبئی گیا تھا جب دونوں وفود کا آمنا سامنا ہوا تو آئی ایم ایف کے افسروں نے پوچھا کہ حال احوال دیں آپ کس لئے آئے ہیں پاکستانی وفد نے کہا کہ ہم قرضے کی مزید اقساط لینے کیلئے آئے ہیں اس پر آئی ایم ایف کے وفد کے سربراہ نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ آپ ہمیں امداد دینے آئے ہیں کیونکہ آپ نے ہم سے بڑھیا پوشاک پہن رکھا ہے آ پ کی کلائی پر بہت قیمتی گھڑیاں ہیں اور.آپ ہم سے زیادہ مہنگے ہوٹلوں میں ٹھہرے ہیں۔
ایک دوسرا واقعہ برطانیہ کا ہے پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں ٹرانسپورٹ کے وزیر نے بتایا کہ تمام وزارتوں کے پاس 25گاڑیاں ہیں اس کے مقابلہ میں پاکستان کے افسروں اور اہل کاروں کے زیر استعمال ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں ہیں صوبوں کی تو بات اور ہے یہ ساری گاڑیاں اہل خانہ کو لے کر کبھی مری، کبھی گلگت بلتستان اور کبھی دیگر شہروں میں نظر آتی ہیں حکومتی اخراجات میں تحریک انصاف کے دور میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ایوان صدر میں صرف ایک شخص یعنی صدر رہتا ہے لیکن اس کا سالانہ خرچ بھی دو ارب روپے سے زائد ہے وزیراعظم ہاؤس کے واحد مکین وزیراعظم ہیں وہ بھی رات کو اپنے گھر چلے جاتے ہیں لیکن اخراجات کئی گنا بڑھ چکے ہیں کٹے بھینس اور پرانی گاڑیاں بیچنے کے باوجود اخراجات میں کوئی کمی نہیں آئی۔
قیصر بنگالی کا قصور یہ ہے کہ اس نے 2019ء میں پیشنگوئی کی تھی کہ حکومت ڈالر کو 180 تک پہنچا کر دم لے گی آج یہ بات سچ ثابت ہو گئی ہے اس کے باوجود وہ قابل تغریر ہیں ایک دیوالیہ ملک کے حکمران حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں آخر کب تک اور سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ کسی صورت اپنی شاہ خرچیوں کو کم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں