ہیرونک- تاریخی پس منظر

تحریر: اکرم علی بلوچ
بلوچستان میں سرداری نظام قدیم تاریخ کا حامل ہے۔ جس طرح معاشرت کے مختلف مسائل آج جوڈیشری حل کر رہی ہے، اسی طرح قدیم ادوار میں مختلف مسائل سردار حل کیا کرتے تھے۔ سرداری نظام بلوچ قبائل کے علاوہ ہر اس معاشرے کاحصہ رہا، جہاں قبائلی نظام کا اثر و رسوخ تھا۔ سرداروں کے مختلف امور سرانجام دینے کے لیے مخصوص لوگ موجود ہوتے تھے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ سردار جاگیردار بن گئے اور یوں سرداری نظام جاگیردارانہ نظام میں تبدیل ہوتا نظر آیا۔ یہ جاگیردار مقامی لوگوں سے مختلف قسم کے ٹیکس وصول کرتے تھے۔ اس صورت حال کی پیش نظر سرداروں کو جاگیردارانہ (سرداری نظام) کے خلاف شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ردِ عمل دراصل ان لوگوں کا اپنی تہذیب اور ثقافت سے بے پناہ محبت اور گہری وابستگی کا اظہار تھا۔ بلوچستان میں مزاحمتی تاریخ میں "ہیرونک” کے لوگوں کا کردار اہم ہے "ہیرونک” میں رہنے والے سیاسی شعور یافتہ، مادر وطن سے محبت اور اپنی مٹی سے وابستگی کا جذبہ دراصل سرداروں کے سیاسی غلبے نے عطا کیا تھا۔ "مکران” میں سرداروں کی غلامی سے نجات کے لیے نہ صرف ہیرونک بلکہ دیگر علاقوں کے لوگ بھی پیش پیش رہے ہیں۔
"مکران” میں سرداری نظام کے خاتمے کی تحریکوں میں "ہیرونک” کے لوگوں کا سیاسی شعور خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ "ہیرونک” اور اس کے مضافات میں "سردار قائم خان گچکی” نامی ظالم اور جابر سردار کی حکمرانی رہی۔ سردار کے مختلف امور سرانجام دینے کے لیے گوریچانی سامی بلوچ اور مزارعین شامل تھے۔ سردار کے قابلِ اعتماد خادموں میں حالہ دین نامی ایک سامی بلوچ قابلِ ذکر ہے۔ حالہ دین سردار کے دیگر معاملات کے علاوہ سردار کے فالتو کتے بھی سنبھالتے تھے۔
حالہ دین مع اپنے اہل و عیال حال پرسی کی غرض سے سردار کے یہاں پہنچے تو سردار کو حالہ دین کی بیٹی جس کا نام ” شلو” تھا، پسند آگئی۔ سردار نے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا۔ یہ بات اسے ناگوار گزری اور رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔ سردار کے بارہا اصرار پر حالہ دین نے مجبوراً ہاں کردی۔ چونکہ ایک جبری رشتہ طے ہوا تھا، اس لیے وہ اپنے اہل و عیال سمیت اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوا اور اپنے آبائی علاقہ کو خیرباد کہہ دیا۔ سردار کو اس واقعہ کا علم ہوا تو مولوی اور سپاہیوں کے ہمراہ حالہ دین کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ کھوجیوں کی مدد سے آخرِ کار سردار حالہ دین کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے۔ جب مخبر حالہ دین کی طرف روانہ کیے گئے تو معلوم ہوا کہ حالہ دین کے پاس محض ایک عدد بندوق اور دو آدمی تھے۔ اگرچہ حالہ دین ایک مال دار آدمی تھا لیکن ہجرت اور دربدری نے اسے کمزور کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب مخبر واپس سردار کے پاس لوٹے تو انُھوں نے سردار سے عرض کی کہ : ” حالہ دین نے آپ کے خلاف بہت بڑا لشکر تیار کیا ہے، جنگ کرنے کی صورت میں ہمارا بہت نقصان ہوگا”۔ سُن کر سردار نے پیش قدمی کی فیصلہ واپس لے لیا۔ اس بات کی وضاحت نہ مل سکی کہ سردار کے بھیجے گئے مخبروں نے کس مصلحت کے تحت حقائق چھپائے۔ میرے ذاتی خیال کے مطابق حالہ دین سردار کے بااعتماد خادموں میں شمار کیا جاتا تھا اور سردار سے وابستہ ہر فرد کو جانتا تھا، اس لیے غالب گمان یہ بھی ہے کہ اس نے مخبروں سے درخواست کی کہ ان کی جان و آبرو کو بچایا جائے۔ جس پر منجروں نے عمل کیا ہوگا۔ سردار اور اس کے سپاہیوں کی واپسی کے بعد حالہ دین نے اپنی بیٹی کی شادی ایک چرواہے سے کر دی۔ بعد ازاں جب سردار نے حالہ دین کو پیغام بھجوایا؛ اگر وہ اپنے علاقے واپس لوٹنا چاہے تو اسے معاف کر دیا جائے گا۔ جب حالہ دین اپنے بھائی” دوستین” کے ہمراہ ہیرونک واپس لوٹتے ہیں تو انھیں راستے میں بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔کلگی بلوچ اور دیگر (مضافاتی) پہلے ہی سے سردار قائم خان گچکی سے اختلاف رکھتے تھے لیکن حالہ دین اور دوستین کے قتل پر ہیرونک کے تمام معتبر لوگ بھی سردار کے خلاف ہو گئے۔ ہیرونک کے سامی بلوچ ،کُلگی اور دیگر لوگوں نے قائم خان گچکی کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کا آغاز کر دیا اور باقاعدہ قتل کے منصوبے بنائے۔ کہا جاتا ہے کہ سردار پر گوریلا حملے بھی کیے گئے لیکن سردار قائم خان گچکی کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ اس ضمن میں میر عیسیٰ خان گچکی اور سردار میر درہ کا ذکر نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
میر عیسیٰ خان گچکی دراصل سردار قائم خان ہی کا بھائی تھا جو اپنے بھائی سے آزردہ تھا اور ” بالگتر” یا ” پنجگُور” میں رہائش پذیر تھا جب کہ "میر درہ” مِیری کلات” کا سردار تھا۔ ایک منصوے کے تحت ہیرونک کے لوگ میر عیسیٰ خان گچکی کا رشتہ "مِیری کلات” کے سردار میر درہ کی بیٹی (جو ایک آنکھ سے اندھی اور بدصورت تھی) سے طے کرتے ہیں۔ یہ رشتہ چالیس کلدار (روپے) میں طے ہوتا ہے۔ میر عیسی خان گچکی اس رشتے سے لاعلم ہوتا ہے۔ قائم خان کا تخت الُٹنے کے لیے سردار میر درہ انُھیں(میر عیسیٰ خان گچکی اور ہیرونک کے رہائشیوں کو) بھاری ہتھیار مہیا کرتا ہے۔ یوں سردار قائم خان گچکی ان حملوں سے کمزور پڑنے پر علاقہ چھوڑ کر "شہرک” اور بعد میں "بلیدہ” اپنے رشتے داروں کے ہاں پناہ لیتا ہے۔ بعد ازاں باہمی مشاورات سے سردار قائم خان کو "شاہرک” سے "کیساک” کا علاقہ دیا جاتا ہے۔ ہیرونک اور سامی کے علاقے میر عیسیٰ خان گچکی کے ماتحت آئے۔ مقامی لوگ میر عیسیٰ خان کو نیک اور ایماندار سمجھتے تھے۔ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہرگز نہیں ہے کہ میر عیسیٰ خان گچکی کس قدر سادہ لوح انسان تھے کہ جب مقامی لوگوں نے سردار میر عیسی خان کو دعوت دی اور رنگا رنگ کے پکوان جن میں کباب ، سجی وغیرہ شامل تھے، پیش کیے تو سردار میر عیسی خان گچکی نے کباب عوام کے سامنے رکھتے ہوئے، اپنے لیے عوام کے لیے تیار کئے گئے سادہ پکوان (آٹے اور چینی کا آمیزہ) پسند کیا۔ بہ ایِں وجہ ہیرونک کے عوام سردار میر عیسی خان گچکی کی ایمانداری اور سادہ طبیعت سے خوش تھے۔ سردار میر عیسیٰ خان گچکی کی موت کے بعد سرداری کا سلسلہ ان کے بیٹے میر محمد حسن گچکی کو منتقل ہوا۔ سردار میر محمد حسن گچکی ایک ظالم اور جابر سردار ثابت ہوا۔ ہیرونک کے غریب عوام سے زبردستی ٹیکس وصول کرتا اور یوں مقامی باشندے بغاوت اور ہجرت پر مجبور ہو گئے۔ اس صورت حال پر نور محمد حسن نامی مقامی باشندہ کے گال (شعر) آج بھی مقامی بزرگوں کو یاد ہیں۔
لڑیں روائے جھاؤ ء
جھاؤ ء کن ئے کہنءِ کار
اگاں کٹ ئے نہ بیت
من سوچاں اوشکین دار
زبردستی ٹیکس لینے پر نور محمد حسن نے احتجاجاً اپنے ہی بکرے کو کنواں میں پھینکا تھا تاکہ سردار ٹیکس وصول نہ کر سکے۔ اس پر لوگوں میں ٹیکس نہ دینے پر کافی بحث ہوئی تھی۔ آخرکار کچھ لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ہیرونک سے ہجرت کیا جائے گا۔ "ہیرونک” کے کچھ لوگ ہجرت کرکے ” ہوشاب ” پہنچے تو وہاں کے مقامی لوگوں نے ان کا استقبال کیا اور وہاں کے لوگوں نے ان مہاجروں کو پناہ کے لیے درخواست کی۔ ہیرونکیوں نے کہا کہ یہاں سرداری میر محمد حسن گچکی کی بو محسوس ہوتی ہے، کیونکہ "ہوشاب ” ہیرونک سے کافی قریب ہے۔ یہ لوگ ہوشاب سے ہجرت کرکے "جھاؤ” پہنچتے ہیں تو جھاؤ کا سردار انہیں جھاؤ میں رہنے کی اجازت دیتا ہے۔ ہیرونک کے لوگ محنتی ا ور ہنر مند تھے اور ان میں سے کچھ لوگ جھاؤ میں کاریز کا نظام لانے پر کام کرتے رہے۔ جھاؤ کے مقامی لوگوں سے سودے بازی میں اختلاف ہونے کے بعد زمینیں اور کاریز فروخت کرکے ” مشکے” جانے کا ارادہ کرتے ہیں۔ ان دنوں "مشکے” کا سردار "بلوچ خان محمد حسنی” تھا جو سردار میر محمد حسن گچکی کا رشتہ دار تھا۔ اس کے باوجود سردار نے ہیرونک کے ان مہاجروں کو وہاں رہنے کی اجازت دی۔ مشکے میں ایک گاؤں جس کا نام "بنڈکی” ہے، یہ لوگ اس گاؤں میں بھی کاریز کے نظام پر کام کرتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں آج بھی کاریزیں موجود ہیں۔ کچھ سال بعد (تقریبا چار سال) میر گہرام خان (انگریز کے فوج کا ایک افسر جو سردار میر محمد حسن گچکی کا رشتےدار تھا) اس نے اس شرط پر ہیرونک کے لوگوں کو واپس لوٹنے پر رضامند کیا کہ سردار میر محمد حسن گچکی آئندہ ان سے ٹیکس وصول نہیں کرے گا۔ وہ بھروسہ کرکے واپس آئے لیکن اس کے باوجود سردار لوگوں کو ٹیکس وصولی کے حوالے سے تنگ کرتا رہا۔ یوں ہیرونک سے "شاپک” تک کے لوگوں نے سردار کو ٹیکس دینے سے انکار کر دیا۔
مقامی لوگوں نے ٹیکس وصولی کی ان شرائط کے خلاف انگریزوں کو شکایات درج کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جس میں ” کہدائی” خاندان کے سات افراد شامل تھے، جن میں شاپک سے "کہدہ زنگی” اور "کہدہ محمد” ، ہیرونک سے”کہدہ مزار”، کلگ سے” کہدہ کنگزار” اور "کہدہ شاہی” کا نام قابلِ ذکر ہے۔ جب اس بات کا علم سردار کو ہوا تو اس نے ان لوگوں کو روکنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ یہ لوگ براستہ "شاپک” سے "ذینب ِ کہور” اور ” چرپانوک” کے راستے سے "پیدراک” اور "شادی کور” سے پسنی پہنچے۔ "پسنی” میں ان کی جان پہچان کے لوگ تھے کیونکہ کئی دہائیوں سے یہ لوگ پسنی کھجور فروخت کرنے اور مچھلیاں خریدنے جایا کرتے تھے۔ پسنی کے لوگوں نے ان کی مہمان نوازی کی اور ان لوگوں کو سمندری راستے سے بذریعہ کشتی ” گڑانی” پہنچاتے ہیں۔ بعدازاں سڑک سے ہوتے ہوئے "کلات” پہنچ کر انگریز فوجی افسر سے سردار کی شکایت درج کرتے ہیں۔ انگریز افسر ان کو چمڑے سے بنی دستاویز دیتا ہے جو "تربت” کے سردار "بھائی خان "کے نام ٹیکس کی معافی سے متعلق ہوتی ہے۔ سردار کے سپاہی جو ان کا پیچھا کر رہے تھے، وہ کہدائیوں کے پہنچنے کے ایک دن بعد "کلات” پہنچتے ہیں۔ ہیرونک کے یہ بہادر لوگ واپسی پر اس ہی راستے کا انتخاب کرتے ہیں، جہاں سے وہ آئے تھے۔ تربت پہنچتے ہی یہ لوگ سردار بھائی خان کو دستاویز دکھاتے ہیں، جس کے بعد ان کو ٹیکس پر معافی مل جاتی ہے۔ لہذا! وضاحت ہوتی ہے کہ ہیرونک کے لوگ سیاسی، سماجی اور معاشی لحاظ سے باشعور تھے۔
ہیرونک کے لوگ اصلاحی اور اخلاقی نکتہ نظر کی بجائے حالات کو تاریخی مادی حقائق کی روشنی میں دیکھتے اور اس نتیجے پر پہنچتے کہ ہیرونک کے بنیادی مسائل کو رویتی طریقوں سے حل کرنے کے بجائے سماجی اور اقتصادی نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ سرداری نظام اور ان کی فرقہ پرستانہ خیالات سے متنفر تھے اور سرمایہ درانہ اور نجی ملکیتوں کو استحصال اور سماجی ناانصافیوں کی اصل وجہ سمجھتے تھے۔ ان کے مطابق مساوات، انصاف اور ہر طرح کے ظلم و جبر سے آزاد معاشرے کی تشکیل تب ممکن ہے جب اپنی اپنی دولت اور طاقت کی مدد سے استحصال کرنے والے طبقوں (سرداروں، جاگیرداروں) سے معاشرے کو پاک کیا جائے۔
یہ ساری کہانیاں ہیرونک کے بزگ افراد کے انٹرویو سے معلوم ہوئی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں