خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلیاں!!!!

تحریر: راحت ملک
پانچ فروری کو چیف آف آرمی سٹاف جناب جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کا سرکاری بیان شائع ہوا تھا جسے یوم کشمیر کے موقع پر جاری کئے جانے والے روائتی بیان کے طور پر دیکھا گیا تھا لیکن اس کے بعد 30چنیدہ اور پسندیدہ صحافیوں کو پنڈی مدعو کیا گیا جہاں عسکری قیادت نے بڑی اہم بریفنگ دی۔اس مجلس میں ہونے والی گفتگو کو مخفی رکھنے کا بھی فیصلہ کیا گیا مگر جن صحافیوں کو بریفنگ میں شرکت کی دعوت نہیں ملی تھی انہوں نے شریک صحافیوں سے معلومات حاصل کر کے انہیں منکشف کردیا ھے علاوہ ازیں چند شریک مجلس صحافیوں نے بھی اپنے کالموں میں بریفنگ کے معلق معلومات شیئر کی ہیں چنانچہ موصولا اطلاعات کی روشنی میں یہ کہنا یقینی ہے کہ یوم کشمیر پر آرمی چیف کا بیان جس میں عندیہ دیا گیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کا وقت آگیا ہے مکمل طور پر غیر روایتی تھا جسکے مفہوم و منعویت کی پرتیں اب کھل کر سامنے آرہی ہیں۔بریفنگ میں عسکری قیادت نے کشمیر کے سوال، ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ باہمی تعلقات کے متعلق جس موقف کا اظہار کیا ہے وہ اس موضوع کے متعلق عسکری ادارے کی مسلسل سوچ کے انداز زاویے میں بہت اہم تبدیلی کا مظہر ہے۔جسے سراہا جانا چاہیے امن ترقی واستحکام کے لئے اسکی افادیت مسلمہ ہے تو اطلاعات کے مطابق اب تک اٹھائے گئے عملی اقدامات معروضی علاقائی اور ملکی تقاضوں کے حقائق سے مربوط و ہم آہنگ ہونے کی سمت بہترین پیشقدمی ہے۔نیز سیاسی سماجی ا ور ابلاغی سطحوں پر اس موقف کی تائید و توصیف کی جانی چاہئے۔موصولہ وآمدہ اطلاعات کے مطابق بریفنگ ہذا میں بتایا گیا کہ بھارت کے ساتھ پرامن دوستانہ اورمنبی بر تعاون باہمی تعلقات کے قیام کیلئے اب غیر روایتی پالیسی، موقف یا بیانیے پر عملدرآمد کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ بلکہ اس پر عملی پیشرفت بھی شروع کردی گئی ہے۔جبکہ مسئلہ ٍکشمیر کے حل کو تعلقات کی بحالی سے مشروط رکھنے کی روائت حکمت عملی بدل دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ شرکاء کے مطابق پالیسی کے خدوخال وامکانات کو عملاً واضع شکل دینے کیلئے طے ہوا کہ دونوں ممالک کے ملٹری انٹلی جنس ادارے باہمی رابطے کرکے مستقبل کیلئے لائحہ عمل کی شکل وصورت واضح کریں۔اور نئی سوچ و پالیسی کی کامیابی کے امکانات پیدا کریں یا ان کے بارے مفصل رپورٹ مرتب کریں جسے بعد ازاں سیاسی قیادت کو پیش کیا جائے، چنانچہ جناب جنرل فیض حمید اور بھارتی نیشنل سیکورٹی کے میشر اور را کے سابق چیف اجیت دودل کے درمیان ملاقات و مذاکرات ہوئے ہیں۔یہ قیاس کرنا بعید از قیاس نہیں کہ مذکورہ افراد کی بات چیت کے مثبت اثرات ونتائج برآمد ہوئے ہونگے جبھی تو پانچ فروری کو بذریعہ بریفنگ پس پردہ اقدامات کو بالواسطہ طور منظر عام پر لانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے۔ کہ ابتدائی سطح پر انٹیلی جنس اداروں کے درمیان رابطے اور مذاکرات کے آغاز کئے جانے کا مطلب یہ ہوا ہے کہ اجیت دوول اور جناب جنرل فیض کی ملاقات نومبر2021ء سے قبل ہوئی ہوگی جب جنرل فیض حمید آئی ایس آئی کے ڈی جی تھے۔ اگر یہ بات درست ہے اور یقیناً اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ امر یقینی ہے تو پھر صورتحال کا جائزہ گزشتہ تین سال میں پیش آئے اقدامات کا اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔
بھارت نے جب کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیلئے اپنے آئین میں ترمیم کی تھی تو تب اس عاجز نے لکھا تھا کہ” بھارتی اقدام کے نتیجے میں دو ممکنہ ردعمل پاکستان کی طرف سے سامنے آسکتے تھے۔اول بھارت پر فوجی دباؤ ڈالنے کیلئے سرحدوں پر فوج بھیج دی جائے اور پوری دنیا سمیت بھارت کو خدشے کا شکار کردیا جائے کہ اگر اس نے آئینی ترمیم ختم نہ کی تو خطے میں تباہ کن جنگ چھڑ سکتی ہے۔ثانیاً اسلام آباد سفارتی سطح پر اس اقدام کی مذمت کرکے زبانی جمع خرچ کرے اور ایسے اقدامات کرے جو نیم رضا مندانہ رویے کے عکاس ہوں۔“ (مطبوعہ روزنامہ انتخاب و دیگر جرائد) حکومت پاکستان نے ثانی الذکر راستہ اپنایا تھا۔ چنانچہ میری رائے تھی کہ ” وزیراعظم عمران خان کآ حالیہ دورہ ٍواشنگٹن کے بعد یہ کہنا کہ امریکہ نے کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کیلئے کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے“ حکومت پاکستان کے بعد ازاں نیم دلانہ ردعمل کی پشتہ بندی تھی۔چنانچہ میرے اندازے کی تصدیق بھارتی اقدام کے بعد پاکستان کے سرد مہر ردعمل نے تصدیق کردی تھی۔واضح رہے کہ میں جنگجوئی کی وکالت یا حمایت نہیں کررہا تھا
میرے استدلال کی بنیاد ستر سال میں فوجی قوت میں اضافے کے لئے صرف کئے گئے اربوں ڈالر کے ان اخراجات پر تھی جو کشمیر کی آزادی کے نام پر ہوئے تھے۔اخراجات جس پالیسی کے تحت برداشت کئے گیے تھے منطقی و عسکری طور پر ان کو بروئے کار لائے جانے کا تاریخی موقع بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے مہیا کردیا تھا اگر اس مرحلے پر بھی پاکستان اپنی عسکری قوت کو دباؤ کے لئے استعمال نہیں کرپایا تو پھر مان لینا چاہیے کہ جو کچھ ہوا ہے وہ واشنگٹن‘نئی دہلی‘ اسلام آباد اور بیجنگ کی رضا مندی کا ٹھوس مظہر ہے۔
حالیہ بریفنگ نے متذکرہ صدر تجزیئے کی تائید کی ہے یہاں میں پالیسی میں آنے والی والی تبدیلی پر تنقید نہیں کررہا بلکہ اس پالیسی کے آغاز و اجراء بارے رائے ظاہر کررہا ہوں۔میں نے اپنے لاتعداد مضامین میں جنوبی ایشیا میں امن واستحکام کے لئے پاک بھارت تعلقات میں موجود تلخی کو کم تر سطح پر لانے کی ضرورت پر زوردیا بلکہ کشمیر کے سوال کو پرامن ہمسائیگی کی بحالی سے مشروط کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے معروضیت پسندی کے منافی قرار دیا تھا،میر ا ماننا تھا اور اب بھی اس موقف کو درست سمجھتا ہوں کہ دو طرفہ تعلقات تجارت اور تعاون کی وسعت بلآخر دونوں ملکوں کو کشمیر کا مسئلہ پرامن ذرائع سے حل کرنے پر مجبور کردے گی۔
بریفنگ بارے اطلاعات کا تقاضہ ہے کہ پالیسی کے متعلق ہمدردانہ رویہ اپناتے ہوئے اس کا تنیدی جائزہ اس پو سے یا جایے کہ درست سمت اٹھنے والے اقدام کے امکانی منفی اثرات سے بچا جاسکے۔
فوجی قیادت کے متعلق بالعموم یہ سیاسی اور اب عوامی شکوہ کیا جاتا ہے کہ وہ سیاسی حکومتوں کو بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے کا حق رویے کار لانیمیں رکاوٹ بنتی رہی ہے بلکہ اسی بنیاد پر کئی سیاسی جمہوری حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے میں بنیادی کردار اد کرتی رہی ہے اس الزام کی تردید تو کی جاسکتی ہے مگر تاریخ کے پنوں سے مٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی رد کرنا ممکن ہے۔ اس تناظر میں بدلتے حالات میں جب عسکری قیادت بھی اصلاح احوال کیلئے سیاسی مذاکرات و بات چیت کے ذریعے کشمیر ودیگر متنازعہ امور حل کرنے پر رضا مند ہوئی ہے تو بہت مناسب ہوگا کہ ذرائع ابلاغ کو آن بورڈ لینے اور ان سے نئی پالیسی کی حمایت کرنے کی جس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے وہ تب بھی مفید المعنی ہوگی کہ فوری طور پر اب تک ہوئی پیشرفت کے اہم نکات اور اس کے امکانات کی جدول مرتب کرکے پارلیمانی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے ان سے مشاورت کی جائے بلکہ انہیں اس پالیسی کی تائید کے ساتھ آنر شپ دینے کی عملی کوشش کی جائے۔اگر حتمی فیصلوں کے بعد سیاسی قیادت کو اسکی حمایت کیلئے کہا گیا تو جو حمایت ملے گی وہ دل کی گہرائی سے نکلنے والی نہیں ہوگی۔اسکے برعکس اسے مسلط کی گئی بالادستی کے روائتی مائینڈ سیٹ کا تسلسل سمجھا جائے گا۔ بلا شبہ یہ صورتحال پارلیمانی طرز حکومت وبالادستی کے منافی ہوگی جب بنیادی پالیسی ہی بدل رہی ہے تو کیوں نہ روائتی مائنڈ سیٹ سے بھی دستبرداری اختیارکرکے ملک کو حقیقی پارلیمانی جمہوری ریاست بنانے کا بھی فیصلہ کیا ادھوری پالیسی حکمت آمیز نہیں ہوا کرتی۔ یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ پالیسی اور مذاکرات کے نتائج پر آنے والی یا موجودہ حکومت کا ردعمل غیر متوقع ہوسکتا ھے، یا پھر موجودہ حکومت کی گرتی ہوئی جمہوری ساکھ کو سہارے دینے کی کوشش سمجھا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر موجودہ حکومت کیسر پر اس مثبت پالیسی کے بہتر نتائج کا سہرا باندھا جاتا ھے تو یقینا ایسا عمل اے انتخابات میں حکومت کے لیے ترپ کا پتہ ثابت ہوگا ممکن ھے دریں حالات اپوزیشن جماعتیں اس کی نکتہ چیں بن جائیں یہ صورتحال نا۔ناسب ہوگی بیتر یہی ہوگا کہ فی الفور تمام پارلیمانی قیادت کو آن بورڈ لے لیا جائے انکی رضامندی و مشاورت کو پس پردہ مذاکرات میں پالسی کے طور پر شامل کرلیا جائے۔
مذکورہ غیر روایتی خارجہ حکمت عملی کے ملکی سیاست پر اثرات گو ابھی سے نمایاں ہونے لگے ہیں گنان ممکن ھے کہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرض کی قسط حاصل کرنے کیلیے منی بجٹ اور سٹیٹ بینک کی ” خود مختاری ” کا بل منظور کرایا گیا ہو اور بعدازاں حکومت کے سرپرست بھی اس کے ناپسندیدہ منفی اثرات سے فاصلہ اختیار کرنا چاہتے ہور اس بارے ٹھوس شواہد تو موجود نہیں البتہ ذرائع ابلاغ اور اقتدار کی راھ داریوں میں ہونے والی گفتگو و چہ میگوئیاں سیاسی صورتحال میں تبدیلی کا اشارہ کرتی ہیں ممکن ھے کہ جناب اصف زرداری اور نون لیگ کی قیادت کے درمیان لاہور میں ہوئی ملاقات بدلتے حالات کی عکاس ہوں کیونکہ میاں نواز شریف نے بھی اب عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کردی ھے۔ بلوچستان کی ” باپ ” پارٹی نے مرکزی حکومت سے جن شکایات و تحفظات کا برملا اظہار کیا وہ وہ انتہائی غیر متوقع بات ھیباپ پارٹی کے اکابرین تو کھانسنے کے لیے بھی ” آدھر ” کی اجازت کا انتظار کرتے ہیں ایم کیو ایم بھی اب نئی سیاسی راھیں تلاش کررہی ہے۔ کیا یہ سب کچھ عسکری محکمہ کی بھارت بارے پالیسی میں بدلاؤ کے لازمی اثرات نہیں؟؟
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ سینیٹ میں سٹیٹ بینک کے بل تسلیم کرانے میں اپوزیشن کی ناکامی کو پس پردہ طے پانے والے تعاون کا شاخسانہ سمجھتے ہوئے جو تنقید ہورہی ہے وہ جزوی اعتبار سے درست ہے کہ اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن کے بعض ارکان کی حاضری سے بل کی منظوری رک جاتی لیکن صرف التواء کا شکار ہوتی۔ ناقدین کو یہ آئینی نقطہ نگاہوں سے اوجھل نہیں کرنا چاہیے کہ سینیٹ سے بل مسترد ہونے کے بعد بھی بل منظور ہوجاتا۔حکومت آئین کے مطابق پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کرتی جہاں حکومتی بینجوں کی عدد اکثریت ہے وہاں بل منظوری ہوجاتا۔چنانچہ اگر اپوزیشن نے ایسی ممکنہ صورتحال کو اپنی سیاسی بصیرت کے حوالے سے مد نظر رکھتے بظاہر مخالفانہ مگر تکنیکی طور پر معاونت والا راستہ اپنا کر بل منظور ہونے دیا ہے تو یہ غلط یا اپوزیشن کی شکست والا معاملہ قطعی نہیں۔تنقید نگاروں کو سیاسی تقاضوں اور آئینی دفعات کو لازما مد نظر رکھنا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں