فیک نیوز۔صحافتی جوکر+خان آف قلات

تحریر: انورساجدی
کوئی وقت تھا جب ابلاغ کا سب سے موثر ذریعہ اخبارات تھے یہ صحافت کا باقاعدہ مستند ادارہ ہوتے تھے اور ان میں تقرریاں صرف اور صرف میرٹ پر کی جاتی تھیں پڑھے لکھے جہاندیدہ دنیا کے حالات سے باخبر سیاست کے اسرار ورموز سے آشنالوگ یک جا ہوکر ٹیم کی طرح کام کرتے تھے ایڈیٹراور نیوز ایڈیٹر ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے تھے اور وہ سینکڑوں نوجوانوں کی عملی تربیت کا کام کرتے تھے اس کے نتیجے میں عمومی طور پر افواہوں اور کردار کشی سے گریز کیاجاتا تھا اور ذاتی توہین اور تضحیک سے پرہیز کیاجاتا تھا اخبارات میں شائع ہونیوالی80فیصد خبریں مستند اداریہ اورتبصرے حالات کی گہرائی پر مشتمل ہوتے تھے۔
میں نے اپنی طویل صحافتی زندگی میں یہ دیکھا کہ اخبارات سے کوئی خوش نہیں ہوتا تھا ہر ایک کو گلہ اورشکوہ ہوتے تھے ہر پارٹی کی خواہش تھی کہ اخبارات اسکے ترجمان کا کردارادا کریں میں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک لیڈر آج اپنی کوریج سے بہت خوش لیکن کل نالاں دکھائی دیتا تھا یعنی سیاستدان کبھی اخبارات سے خوش نہیں ہوتے تھے جس کا ہمیشہ نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔پاکستانی صحافت نے جو مشکل ادوار دیکھے ان میں ایوبی مارشل لا ضیاء الحق کا مارشل لاء اور جنرل پرویز مشرف کا غیر اعلانیہ مارشل کے دور قابل ذکر ہیں 1958ء میں پہلے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد سنسرشپ نافذ کی گئی تھی حالانکہ اس زمانے میں اخبارات کی تعداد بہت کم تھی اس دور کے اخبارات میں ایوب خان کی تعریف توصیف اور ثناخوانی کے سوا اپوزیشن اور مخالفین کی خبروں پر مکمل پابندی تھی ایوب خان نے جب1962ء کا آئین نافذ کیا اور اس کے تین سال بعد صدارتی الیکشن ہوا تو ان کی مخالف امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کو پریس کوریج نہیں دیتا تھا ایوب خان کی فرمودات شہ سرخی کے ساتھ شائع کی جاتی تھیں جبکہ محترمہ جناح کی خبریں دوکالمی سے زیادہ شائع نہیں ہوتی تھیں لیکن محترمہ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ملک کے پہلے آمر کو جھنجھوڑ کررکھا تھا اور عوام کو پہلی مرتبہ آمریت اور مارشل لاؤں کے تباہ کن نتائج سے آگاہ کیا تھا اگرچہ ایوب خان نے دھاندلی کرکے صدارتی الیکشن جیتا لیکن اس کے بعد وہ کبھی سکون سے نہیں بیٹھے تاوقتیکہ 1968ء میں ان کیخلاف عوامی تحریک چلی اور وہ مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئے۔ان کے بعد یحییٰ خان دور آیا یحییٰ خان نے میڈیا انچارج جماعت اسلامی کو بنایا یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا سوویت یونین اور امریکی بلاکوں میں تقسیم تھی یحییٰ خان واضح طور پر امریکہ کے یس مین اور گماشتہ تھے ان کے وزیراطلاعات نوابزادہ شیر علی خان نے پریس پر قہر آلود پابندیاں عائد کررکھی تھیں پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ 16دسمبر 1971ء کو یحییٰ خان اور ان کے مشرقی کمانڈر جنرل اے اے کے نیازی کے ہاتھوں پاکستان دولخت ہوگیا ان کی میڈیا ٹیم نے بریگیڈیئر اے آر صدیقی کی قیادت میں سقوط مشرقی پاکستان کی خبر آنے نہیں دی سرکاری میڈیا پر اس سقوط کی خبر اس طرح شائع کروائی گئی۔
ڈھاکہ میں پاکستان کی مشرقی کمان
اور بھارت کے مقامی کمان کے
درمیان ایک سمجھوتہ طے پایا جسکے
تحت بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل ہوگئی
لوگوں نے اپنے ملک ٹوٹنے کی خبر بی بی سی اور دیگر عالمی نشریاتی اداروں سے سنی ملک کا ایک اور قہر آلود مارشل 5جولائی1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے لگایا انہوں نے پریس پرمکمل پابندیاں عائد کرکے حکم دیا کہ بھتو اور پیپلزپارٹی کا نام کسی بھی اخبار میں نہیں آئیگا انہوں نے درجنوں سینئرآفیسر مقرر کئے تھے جواخبارات کے دفاتر جاکر آخری کاپیوں کامعائنہ کرتے تھے جو خبر قابل اعتراض ہوتی تھی اسے نکال دیتے تھے کئی اخبارات بطور احتجاج وہ خالی جگہیں چھوڑدیتے تھے۔
1983ء کو جب بھارت نے سیاچن گلیشیئر پر قبضہ کرلیا تو ایڈوائس جاری ہوئی کہ اس بارے میں کوئی خبر شائع نہ کی جائے دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاچن کے کمانڈر جنرل پرویز مشرف تھے اگرچہ یہ خبر چپ نہ سکی لیکن ضیاؤ الحق نے خاموش کے ساتھ یہ قبضہ قبول کرلیا بلکہ کافی عرصہ بعد یہ کہا کہ سیاچن بے کارجگہ ہے وہاں تو گھاس بھی نہیں اگتی اس بات کو رد کرنے کیلئے1988ء میں بینظیر نے سیاچن کے ایک حصہ کادورے کیا اور واپسی پر سیاچن کے فٹ ہلزسے ایک پھول بھی توڑکرلائی تھی۔
جنرل ضیاؤ الحق نے صدر بننے کیلئے ریفرنڈم کا جوسوال تیار کروایا تھا وہ آمریت کی تاریخ میں ایسا گوہر نایاب ہے جب کی مثال پوری دنیا میں موجود نہیں ہے جنرل ضیاء الحق نے میڈیا کومسخر کرکے اس کے مالکان کو چاپلوسی مدح سراہوں اور میراثیوں کے ایک ٹولے میں تبدیل کردیا تھا جو جتنازیادہ گن گاتا تھا اتنے اشتہارات اور نیوز پرنٹ کاکوٹہ اتنا ہی ملتاتھا۔
جنرل ضیاؤ الحق نے1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک کی خبروں کابلیک آؤٹ کروایا تھا لوگ تحریک کی خبریں بی بی سی وغیرہ پر سنتے تھے۔
جنرل صاحب نے جہاں پورا نظام پورا سماج نریندر مودی کی طرح الٹ دیا تھا وہاں اس نے میڈیا کا ایسا خونخوار گروہ تشکیل دیا تھا جو روشن خیالی ترقی بندی میانہ روی اور پیپلزپارٹی کا مخالف تھا بدقسمتی سے یہ گروہ آج تک میڈیا پر قابض ہے جنرل صاحب نے اسلام کا مقدس نام اپنے سیاسی اور اقتدار کے مقاصد کیلئے استعمال کیا انہوں نے پی این اے کے نعرہ نظام مصطفی کو اپناکر اور افغان جہاد شروع کرکے معاشرے کوایک انہتا پسندانہ رخ دیا ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت تو یہاں پر اسلامی نظام نافذ ہونا چاہئے اس کے ردعمل نے بی جے پی نے نعرہ لگایا کہ بھارت ہندواکثریت کا ملک ہے لہٰذا تمام لوگوں کو ہندوتوا کے نظام کو قبول کرنا ہوگا آج مودی ہندوستان کے مسلمانوں اوراقلیتوں کے ساتھ جو نارواسلوک کررہے ہیں دراصل اس کا بانی ضیاؤ الحق ہے ضیاؤ الحق کے بعدجنرل پرویز مشرف نے حکومت کا تختہ الٹ دیا وہ ذاتی طور پر ضیاؤ الحق کے الٹ تھے شام ہوتے ہی محفل سجاتے تھے رندوں کااجتماع بلاتے تھے سازوآہنگ کی محفلیں بھی برپا کرتے تھے انہوں نے روشن خیالی کا نعرہ لگایا تھالیکن نظریہ وہی ضیاؤ الحق والا ہی تھا ان کے دور میں چونکہ الیٹرونک میڈیا کا آغاز ہوا تھا اس لئے کالے کیمروں کی اہمیت بے حد بڑھ گئی تھی زیادہ مخالفت پرکر مشرف نے ایک دفعہ سارے چینلوں کو بندکردیا تھا۔
بنظیر بھٹو کی شہاوت نے مشرف کو بریا بستر گول کرکے پیپلزپارٹی کو اقتدار میں آنے کا ایک اور موقع فراہم کردیا تھا زرداری کے دور میں ٹی وی چینلوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا لیکن اخبارات کے مقابلے میں چینلوں پر جو کروں کا ایک ٹولہ غالب آگیا یہ لوگ توہین آمیز تبصروں ہتک آمیز تجزیوں اور فیک نیوز کے ذریعے معاشرے کی جڑوں کو ہلانے لگے زرداری کے دور میں میڈیا سے وابستہ گروہ نے حکومت کیخلاف محاذ کھول لیا۔
روز غضب کرپشن کی عجب کہانیوں کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے اس ٹولے نے سرپرستوں کے حکم پر عمران خان کو دیوتا اوتار ورنجات دہندہ کے روپ میں پیش کرنا شروع کردیا جیسے تمام خرابیوں کا مداوا کرکے یہ شخص دودھ اور شہد کی نہریں جاری کردیں گے لیکن پونے چارسال بعد جوکروں کے اس ٹولے کا ایک حصہ مایوس ہوگیا ہے اور اس نے عمران خان کا ساتھ چھوڑدیا ہے پہلے یہ ٹولہ ن لیگ کا حامی تھا لیکن جب ن لیگ اور اس کی قیادت معتوب ٹھہری تو اس تولے نے بھی اپنی کی وفاداریاں تبدیل کرلیں لیکن رفتہ رفتہ یہ ٹولہ دوبارہ ن لیگ کے گن گانے لگاہے۔
اہل صحافت کا فرق سیاستدانوں کو معلوم نہیں ہے ہمارے اکابرین سب کو ایک لاٹھی سے ہانکتے ہیں حالانکہ مالکان اور ہیں رپورٹر اور ہیں نیوز کا اسٹاف اور ہے۔
سیاستدان مالکان اور خود دارصحافیوں سے کبھی خوش نہیں رہتے۔
ایک مثال پیش کرنا ضروری ہے کہ زرداری کے پوسٹل سروسز نے ایک بڑی اشتہاری کیمپیئن چلائی تھی ایک واقف کے مطابق متعلقہ وزیر نے کیمپیئن کی منظوری دیتے وقت ہدایت کی کہ ملک کے تمام اخبارات کواشتہارات جاری کئے جائیں سوائے ”انتخاب“ کے ان کی اس مخاصمت کی وجہ سمجھ سے بالاتر تھی۔
ایک صحافی نے لکھا ہے کہ اس نے10سال صحافت کی لیکن15سال سے وہ اس کے اثرات مٹانے میں مصروف ہیں۔
ٹیکنالوجی کی ترقی نے انٹرنیٹ کااحیاء کیا جس کے بعد بے شمار سوشل میڈیا سائٹس نے اطلاعات اورخبروں کی برق رفتار ترسیل کی کمان سنبھالی یہ جہاں بہت موثر ہے اتنا خطرناک بھی ہے لوگ اپنے مخالفین کا فوٹو شاپ بناتے ہیں سرکسی کا اوردھڑکسی کا دشنام طرازی افواہ سازی اور فیک نیوز سرعت کے ساتھ پھیلانا اب بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگیا ویسے تو اس کی بے شمار مثالیں ہیں لیکن دو روز قبل ایک واقعہ کی وڈیو دیکھ کر بڑا افسوس ہوا وڈیو میں دیکھاجاسکتا ہے کہ بلوچستان کے سابق وزیرا ورقبائلی شخصیت میر خالد لانگو برسی کے موقع پر اپنے والد کے مجسمے پر پھول نچھاور کروارہے ہیں یہ تو ساوہ سے عمل تھالیکن کسی نے ہندو بھگوانوں کی پوجا کے وقت گیتا کا جو پاٹ کیاجاتا ہے اس کا میوزک اس وڈیو کے ساتھ لگادیا جس کی وجہ سے ایک الگ مگر منفی تاثر نے جنم لیا لہٰذا ایک میوزک نے کردار کشی کی انتہا کردی یہ تو شروعات ہے جونہی وقت آگے بڑھے گا بلوچستان کی ساری سرکردہ شخصیات اس کی لپیٹ میں آجائیں گی باقی ملک تو پہلے ہی اس کا شکار تھا سابق گورنر محمد زبیر کی برہنہ تصاویر شیخ رشید کی لال حویلی میں مبینہ رنگ رلیاں مفتی قوی کے ساتھ ٹک ٹاکرز کی آنکھ مچولیاں وزیراعظم اور وزیرخارجہ کی کرسوں پر خواتین کا براجمان ہونا غرض کہ بدتمیزی کاایک طوفان ہے جو بڑھتا جارہا ہے مستقبل میں سیاسی لوگوں کو حد درجہ احتیاط سے کام لینا ہوگا اور اپنی نجی سرگرمیاں دیکھ بھال کرکرنی ہونگی۔
ایک خبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ خان آف قلات میرسلیمان داؤد اور حکومت پاکستان کے درمیان جو مذاکرات چل رہے تھے وہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ریاست قلات کے بارے میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے رجوع کرلیا ہے ان کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے مستقبل کے بارے میں عالمی اداروں کی نگرانی میں ریفرنڈم کروایا جائے خان صاحب قلات کے تاریخی جرگہ کے بعد بیرون ملک گئے تھے اور انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی ریاست کا معاملہ عالمی عدالت انصاف لے جائیں گے لیکن طویل عرصہ تک انہوں نے ایسا نہیں کیا البتہ گزشتہ پانچ سالوں سے حکومتی نمائندوں اور ان کے درمیان گفت وشنید کاسلسلہ جاری تھا ان سے بات چیت کا آغاز مرحوم پرنس محی الدین بلوچ نے کیا تھا اتفاق سے دومرتبہ جب وہ خان صاحب سے بات چیت کیلئے لندن گئے تھے تو میں وہاں موجود تھا لیکن ان کی درخواست پر کوئی خبار جاری نہیں کی گئی اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاست نے خان صاحب کی شرائط تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اس لئے وہ اقوام متحدہ گئے ہیں اگرچہ ان کے اس عمل کا کوئی فوری اورمثبت نتیجہ نہیں آئیگا لیکن اس کا بلوچستان کے حالات پر گہرے اثرات مرتب ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں