خارجہ پالیسی اور تسلسل کا سوال!!!

تحریر: راحت ملک
گزشتہ کالم بعنوان۔خارجہ پارلیسی میں اہم تبدیلیاں۔ میں جو نقاط زیر بحث آئے تھے ان سے متعلق چند مزید معروضات کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔امید پرستی لامحدود نہ ہو تو یہ معقول ہوتی ہے بشرطیکہ رجائی خیال منطقی و مدلل ہو۔عسکری قیادت نے گزشتہ دونوں صحافیوں کو دی گئی بریفنگ میں بھارت کے ساتھ تنازعات کے غیر روایتی حل اور تعلقات کی نئی جہد شروع کرنے کی جس پالیسی اور عزم کا اظہار کیا گیا تھا وہ بہرطور امید پرستی کے مثبت اشاریے کو تقویت دیتی ہے جو خطے کے روشن مستقبل کی بھی پیامبر ہے۔
متذکرہ بریفنگ میں برادرم کاشف عباسی نے اہم سوال اٹھایا تھا کہ "ماضی قریب و بعید میں جب بھی جمہوری حکومتوں نے خارجہ و دفاعی پالیسی میں تبدیلیوں کی کوشش کی تو انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔سوال یہ ہے کہ آپ کی نئی پالیسی پر تسلسل کے ساتھ عمل پیرائی کی کیا ضمانت ہوگی؟ بالخصوص موجودہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئی پالیسی کا کیا بنے گا؟ ” جناب آرمی چیف نے جواباً فرمایا کہ ” نئی پالیسی تمام کور کمانڈرز کی مشاورت سے طے ہوئی ہے۔آنے والے آرمی چیف اس کو تسلسل دینگے۔”
اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ پالیسی میں مثبت تبدیلی کو جناب جنرل قمر جاوید ” باجوہ ڈاکٹرائن” قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ نیا ڈاکٹرائن عسکری محکمے کے تمام اعلیٰ افسران کا مرتب کردہ ہے۔جناب جنرل قمر جاوید کے جواب سے البتہ ایک ابہام پیدا ہوا ھے جس کا تناظر بھی اہم ہے۔مثلاً اجیت دودل سے ابتدائی بات چیت جناب جنرل فیض حمید نے کی تھی جن کے بارے عمومی تاثر ہے کہ جناب قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں آرمی چیف بنایا جائے گا۔اس حوالے سے یہ یقین کیا جانا ممکن ہے کہ نئے آرمی چیف اس پالیسی کو لازماً آگے بڑھائیں گے۔ تاہم یہ پہلو بہت پیچیدہ ہے کہ جناب جنرل فیض حمید کے آرمی چیف بننے کے کیا ارمکانات ہیں؟ شنید ہے کہ سنیارٹی لسٹ میں وہ گیارہوں نمبر پر ہیں گویا کہ ان کی ترقی سے دس لیفٹیننٹ جنرل متاثر ہونگے فوجی روایت کے تحت جونیئر کو سینئر پر ترجیح دی جائے تو سینئرز از خود ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں۔اس صورتحال کا منظر نامہ یہ ہوگا کہ جنرل فیض کی بطور آرمی چیف تقرری سے کم و بیش پوری عسکری قیادت بدل جائے گی۔چنانچہ جن سینئر افسران نے بھارت سے متعلق نئی پالیسی کے بنیادی خدوخال اور اغراض طے کئے ہیں ان کی اکثریت اس پر عملدرآمد کے وقت اپنے عہدوں پر متمکن نہیں رہے گی۔ جبکہ
دس سئنیرز افسران کی ریٹائرمنٹ سے عسکری قیادت میں خلا پیدا ہوسکتا ھے یہاں مزید دو پہلو سامنے آئے ہیں کیا نئی پالیسی کی پیشرفت کیلئے جناب جنرل قمر باجوہ اپنی باقی ماندہ مدت ملازمت کے مختصر عرصے میں ٹھوس بنیاد مہیا کرلیں گے۔یا وہ اس پالیسی کو مستحکم کرنے کو ایک” جواز” بنا کر اپنی مدت ملازمت میں مزید توسیع کیلئے بروئے کار لائیں گے؟ اس بارے حتمی رائے دینا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں۔جبکہ تاریخ کے جھروکے بتاتے ہیں کہ متعدد آرمی چیف دس گیارہ سال تک توسیع پاتے رہے ہیں لہذا امکانات بارے رجائیت پسندی کا اظہار بعید از قیاس نہیں۔
اس بحث سے وابستہ اہم پہلو یہ ہے کہ ستر سال کی کشیدگی ختم کرنے اور نئے دور کے آغاز کے لیے وضع کی گئی عسکری حکمت عملی کو عوام کی ٹھوس حمایت اور پشتہ بندی مہیا کرنے کے لئے ہائی برڈ نظام کے تحت معروض وجود میں لائی گئی موجودہ پارلیمان کو بروئے کار لایا جائے گا یا حقیقی جمہوری تائید کے حصول کے لئے نئی پارلمان قائم کرنے کو ترجیح دی جائے گی؟ یاد رہے کہ عوامی تائید یا وسیع البنیاد قومی اتفاق کے بغیر متذکرہ کا تسلسل مشکوک ہوگا یہ متنازعہ رہی تو اس سے وابستہ امیدیں پوری نہیں ہونگی اور نئی پارلیمان کے بغیر پالیسی کو حقیقی جمہوری قبولیت میسر نہیں ائے گی جبکہ نئی پارلیمان کی تشکیل کے لئے فی الفور مداخلت سے پاک شفاف منصفانہ انتخابات کا انعقاد ضروری ہوگا۔کیا یہ فرض کرلیا جائے کہ جناب جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مدت ملازمت کے خاتمے سے بہت پہلے نئے جمہوری انتخابات کے لیے. حکومت کو رضا مند کرکے عملاً راہ ہموار کرلینگے؟۔یہ سوال پالیسی سازی کے کردار کے علاوہ اس کے طویل المیعاد مثبت اثرات ممکن بنانے کی ضرورت و افادیت بھی نمایاں کرتا ہے۔
اگر بھارت کے ساتھ پرامن ہمسائیگی باہمی تعاون اور دوستی پر مبنی پالیسی عملی شکل اختیار کرتی ہے (یقینا ایسا ہونا بھی چاہھیے) تو بلوچستان کی موجودہ کشیدہ صورتحال کے تدارک کے لئے بہت مفید ثابت ہوگی بدامنی ختم ہوگی امن عامہ بحال ہوگا لیکن کیا محض اس اقدام سے بلوچستان(بلوچ) مسئلہ بھی حل ہوجائے گا؟میرا جواب نفی میں ہے کیونکہ یہ بحران سراسر سیاسی ہے جسے قومی حقوق کی جہد کہنا بلکل درست ہے بلوچ یا بلوچستان کو جب تک وفاقی ڈھانچے میں جائز فطری حاکمانہ حیثیت نہیں دی جائے گی تو مسئلہ حل ہونا ممکن نہیں ہوگا بدامنی کے خاتمے کے لئے لاپتہ افراد کی بازیابی بھی لازمی ہے۔ جو متحارب فریقین کو گفت وشنید پر مائل کریگی۔۔
بلوچستان کے سلگتے بحران کے حل کی کلید یہ ھے صوبے میں مصنوعی طور پر لائی گئی نام نہاد قیادت کو رخصت کیا جائے
بلا مدخلت پرامن شفاف غیر جانبدارانہ انتخابات کرائے جائیں
نومنتخب ارکان کو بلوچستان کیلئے ایک مطمئن وفاقی اکائی بنانے کے لیے مطلوب اقدامات کا اختیار ہو۔ اس سمت آگے بڑھتے ہوئے سازگار سیاسی موحول تشکیل دینے کے لیے ریکوڈک کے متعلق کس معاہدے / فیصلے کو موخر رکھا جائے۔ گوادر بندرگاہ یا سی پیک کے امور کی حتمی شکل وضع کرنے میں نومنتخب ارکان پارلیمنٹ کی آرا کو اہمیت دی جائے۔
تو بلوچستان کے دیرینہ سیاسی بحران کے حل کی عمدہ طور پر امید کی جاسکتی ہے ایسی امید جو مدلل و معقول ہوگی۔
جس نے خارجہ پالیسی کا عندیہ دیا گیا ہے اور جو نقاط تاحال سامنے آیا ہیں وہ مبہم ہیں یوں ادھوری معلومات پر ٹھوس مباحثہ ناممکن ہے قیاس آرائی کے لیے البتہ بہت سے پہلو موجود ہیں
کشمیر کے سوال کو ماضی کی حکمت عملی کے برعکس التواء میں رکھتے ہوئے باہمی دوستانہ پرامن ھمسائیگی پہ استوار تجارتی تعلقات کے قیام سے جو خوشگوار منظر نامہ ابھرے گا اسے مسئلہ کشمیر کے حل میں ایک موثر ٹول بنایا جائے گا تو کیا اس لمحے کشمر کی تقسیم قبول کر لی جائے گی ایسی تقسیم جس میں ایل او سی میں کچھ ردوبدل ممکن ہو اور کشمری بھی مطمئن ہوجائیں یا اسکے برعکس ایک خود مختار کشمیر کے قیام کی طرف بڑھا جائے؟
یقیناً کسی نئی ریاست کی تشکیل۔زید الجھنوں کا سبب ہوگی تو دونوم ممالک کی حدود میں کشمیر کی خصوصی نیم خودمختار حیثیت قابل عمل تجویز ہوسکتی ہے
کشمیر سے دونوں ممالک کے گہرے مفادات وابستہ ہیں چنانچہ کسی فریق کی جانب یہ امید نہیں رکھنا چاہیے کہ وہ کشمیر سے وابستہ مفادات سے دستبردار ہوجائے گا۔
موجود جغرافیائی حقائق کو تاریخ کے جبر کے حوالے سے قبول کرنا بھی امن ترقی استحکام کے لیے بہتر ہوگا
گلگت بلتستان غیر متنازعہ ہوجائیں تو سی پیک پر اعتراضات ختم ہونگے منصوبہ تیزی سے تکمیل پذیر ہوگا نیز بیرونی سرمایہ کاری بڑھے گی۔
خود مختار کشمیر کا قیام خطے میں موجود قومی آزادی کی تحریکوں کو بڑھاوا دے گا تو مستحکم جنوبی ایشیا کا خواب چکناچور ہوسکتا ہے اس سے اجتناب بہترین رویہ ہوگا۔ آنے والے دنوں کے متعلق ہماری رجائیت پسندی کی معقولیت پسندی کے دائرے میں ہے کہ اب کی بار نئی صبح و روشنی عسکری اداروں سے ضنوفشاں ہے۔
نئے دور میں لازماً مذہبی شدید پسند تنظیموں کی ضرورت نہیں رہیگی۔ انشااللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں