اشارے ملنا بند

تحریر: انورساجدی
کسی شرارتی صحافی نے شاہ محمود قریشی سے پوچھا کہ زرداری کی حکومت میں آپ وزیر خارجہ تھے عمران خان کی حکومت میں بھی آپ وزیر خارجہ ہیں کیا اگلی حکومت میں آپ ڈپٹی وزیرخارہ ہونگے اس پر شاہ صاحب نے جوغصہ دکھایا وہ قابل دیدنی تھا لیکن اصل غصہ انہیں دو روز قبل آیا جب عمران خان نے اچھی کارکردگی پر اپنے دس وزراء کو ایوارڈ سے نوازا شاہ صاحب کا نام اس فہرست سے غائب تھا چنانچہ جل بھن کر انہوں نے وزیراعظم کے نام احتجاجی مراسلہ بھیجا لیکن جو ہوناتھا ہوچکا بعد کے احتجاج سے وزیراعظم کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے وزراء کو ایوارڈ اور اسناد سے نوازا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پہلے انعام کا حقدار مراد سعید ٹھہرایا گیاجن لوگوں کو حیرت ہے وہ نہیں جانتے کہ مرادسعید اورعمران خان ایک دوسرے کے کتنے قریب ہیں رگ جان سے بھی زیادہ قریب اس سلسلے میں تبصرہ کرنا بے کار ہے جولوگ زیادہ جاننا چاہتے ہیں انہیں عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کی کتاب پڑھنا چاہئے یا کراچی سے پیپلزپارٹی کے ایم این اے عبدالقادر پٹیل کی اسمبلی میں کی گئی تقاریر کو دوبارہ غورسے سننا چاہئے۔
دراصل پہلا انعام مرادسعید کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہے۔
میراخیال ہے کہ وزراء کو انعام کا شوشہ کپتان نے جان بوجھ کر چھوڑا تاکہ پبلک کی توجہ اس طرف لگادی جائے اس مقصد کیلئے فرزندراولپنڈی شیخ رشید ہر روز کوشش کرتے تھے لیکن آج کل امن وامان کی خراب صورتحال کے باعث ان کی لائن اور لینتھ خراب ہوگئی ہے اس لئے اچھے اور لائق بچوں کو انعام دینے کا شوشہ چھوڑا گیا حالانکہ کپتان کو معلوم تھا کہ10کو انعام دینے سے وزراء کی دیگرفوج ظفر موج کو سخت تکلیف پہنچے گی جیسے کہ فوادچوہدری وہ کپتان کے تیراندازوں کے سربراہ تھے لیکن ان کی کارکردگی کو انعام کے قابل نہیں سمجھا گیا کام تو وہ ٹھیک کررہے ہیں لیکن ان کا کام توقعات کے مطابق نہیں ہے کیونکہ کپتان چاہتے تھے کہ تمام میڈیا کو ایک ہی اتھارٹی کے ذریعے ریگولیٹ کیاجائے لیکن فوادچوہدری اس میں ناکام ہوئے یہ ناکامی ان کی انفرادی ناکامی نہیں ہے کیونکہ حکومت یہ بل سینیٹ اورقومی اسمبلی سے منظور نہیں کرواسکی جس کی وجہ سے سوشل میڈیا مادر پدر آزاد ہے اور اس نے حکومت کی درگت بناکررکھی ہے۔جہاں تک شاہ محمود کا تعلق ہے تو سب سے زیادہ انہیں معلوم ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے ناکام ترین وزیرخارجہ ہیں ان کی زندہ مثال وزیراعظم کے حالیہ دورہ چین کی بدترین ناکامی ہے جہاں پاکستانی وفد سے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا گیاشکر ہے کہ چینی صدر نے درشن کا موقع دیا ورنہ دشمن ابھی تک ڈھول پیٹ رہے ہوتے چند رسمی منصوبوں کے سوا نہ کوئی قرض منظور کیا گیا نہ امداد دی گئی اور نہ ہی کسی اور مسئلہ پر پاکستان کی حمایت کی گئی شاہ محمود کی وجہ سے نہ صرف تمام ہسمایہ ممالک پاکستان سے ناراض ہیں بلکہ پوری دنیا میں پاکستان یکہ وتنہا رہ گیا ہے۔
چین سے واپسی پر شاہ صاحب نے شیخی لگھاری کے وزیراعظم کو چین میں جو پذیرائی ملی ہے وہ آج تک کسی پاکستانی سربراہ کو نہیں ملی اگرشاہ صاحب بھول گئے ہیں تو بیجنگ میں بھٹو کے استقبال کی پرانی فلمیں نکال کردیکھیں جوخارجہ آفس کے آرکائیوز میں محفوظ ہیں کہاجاتا ہے جب چیئرمین ماؤ زندگی کے آخری ایام گزاررہے تھے تو انہوں نے آخری ملاقات بھٹو سے کی تھی جس کے بعد وہ چل بسے۔
بطور وزیرخارجہ ناکام ہی سہی لیکن مستقبل میں شاہ صاحب کو پہلا اور آخری چانس مل سکتا ہے اس کی ایک ہی شرط ہے کہ وہ اپوزیشن سے بناکر رکھیں کیونکہ اگر اپوزیشن کی جانب سے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی تو فوری طور پر ان ہاؤس تبدیلی آسکتی ہے جس کے نتیجے میں شاہ صاحب کی قسمت کھل سکتی ہے جیسے کہ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد راجہ پرویز اشرف کی قسمت کھلی تھی اور نوازشریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی پر بھی قسمت کی دیوی مہربان ہوئی تھی اگرچہ اس کا امکان کم ہے کہ عمران خان ان ہاؤس تبدیلی کے بعد شاہ محمود کو اپنی جگہ پی ٹی آئی کا وزیراعظم بنادیں کیونکہ شاہ صاحب کے تعلقات نہ تو اپنے لیڈرعمران خان سے اچھے ہیں اور نہ ہی انہوں نے اپوزیشن سے کوئی راہ ورسم بنائی ہے وہ اتنے بھولے ہیں کہ مستقبل کے لیڈر بلاول اور یوسف رضا گیلانی سے بلاوجہ کی دشمنی پال رکھی ہے وہ ان دونوں شخصیات کو سست کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے حالانکہ پارلیمنٹ میں کوئی بھی تبدیلی پیپلزپارٹی کے بغیر نہیں آسکتی لہٰذا انہیں اچھے مراسم برقراررکھنے چاہئیں تھے۔آج کل کئی لحاظ سے سیاسی لطائف کادور ہے روزنامہ ڈان نے وزیراعظم کی جانب سے وزراء کو ایوارڈ کے واقعہ کو بچوں کو انعام دینے سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ کابینہ نہی ہوئی بچوں کا کلاس روم ہوا۔
طویل سوچ وبچار کے بعد پی ڈی ایم نے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کے خدوخال پوشیدہ رکھے ہیں کیونکہ پی ڈی ایم کے پاس ابھی تک مظلومہ عددی اکثریت نہیں ہے حکومت کے اتحادیوں کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے ہاں اگر جہانگیر ترین ساؤتھ پنجاب کے اراکین پارلیمنٹ کو اپنے جہاز میں بٹھا کر مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی میں لینڈکریں تو کام آسان ہوجائے گا سردست جہانگیر ترین کامیاں نوازشریف سے رابطہ ہے انہوں نے دو ماہ قبل لندن جاکر میاں صاحب سے خفیہ ملاقات بھی کی تھی سنا ہے کہ ان کی ڈیمانڈ ہے کہ اگر ان کے گروپ کے25اراکین کو ن لیگ کے ٹکٹ دینے کا باقاعدہ خفیہ معاہدہ کیاجائے تو وہ یہ گروپ تحریک عدم اعتماد کی حمایت کردے گا اسی طرح بلوچستان کی باپ چوہدری برادران کی ق لیگ اور ایم کیو ایم بھی ایک اشارہ ابرو کے منتظر ہیں باپ پارٹی والے الہ لوگ اور سادہ ہیں اس لئے پرنس عمر احمد زئی نے واضح طور پر کہا ہے کہ انہیں شارے آنا بند ہوگئے ہیں اور کہہ دیا گیا ہے کہ اپنی جنگ خود لڑو اور اپنے مسائل خود حل کرو اس سے بھی زیادہ واضح بات ایک ٹی وی چینل پر ق لیگ کے لیڈرکامل علی آغا نے کہی انہوں نے واضح کہا کہ ان کا معاہدہ تحریک انصاف سے نہیں بلکہ ریاست سے ہوئی ہے ق لیگ کے ڈپٹی لیڈر چوہدری پرویز الٰہی نے تصدیق کی ہے کہ کچھ نہ کچھ ہورہا ہے ان کا کہنا ہے کہ کچن میں سامان آنا شروع ہوگیا ہے جب پورا سامان آجائیگا تو کچھڑی پکنا شروع ہوجائے گا۔
آصف علی زرداری نے چوہدریوں کے ہاں جاکر دال روٹی اور بھنڈیاں نوش کی تھیں لیکن ساتھ میں بتایا ہوگا کہ چوہدری صاحب ان کے خیال میں اس مرتبہ آپ نوجوان مونس الٰہی کو میرے ساتھ نائب وزیراعظم کاعہدہ دیدیں جبکہ آپ کی ضرورت پنجاب کو بہت زیادہ ہے آپ بااختیار وزیراعلیٰ بن کر پنجاب کے حالات ٹھیک کردیں چوہدری صاحب نے پوچھا ہوگا کہ زرداری صاحب شریف برادران کیسے اراضی ہونگے توزرداری نے کہا ہوگا کہ انہیں راضی کرنا میراکام ہے کیونکہ ایک دفعہ بلا سے جان چھڑانا ضروری ہے ورنہ شریف برادران کی سیاست ختم ہوجائے گی وہ بھی اپنی سیاست عزت اور دولت بچانے کی خاطر یہ قربانی ضرور دیں گے۔
جو بھی صورتحال ہے وہ مارچ میں جاکر واضح ہوگی کیونکہ اپوزیشن کیلئے ابھی تک انگورکھٹے ہیں ایک وزیراعظم کاتختہ الٹنا اتنا آسان کام نہیں ہے البتہ سرپرست اعلیٰ چاہیں تویہ کوئی مشکل کام نہیں لگتا ہے کہ وہ بھی مخمعے کاشکار ہیں بڑا رسکی کام ہے معیشت ڈوبی ہوئی امن وامان کے بڑے چیلنج درپیش ہیں سیاسی عدم استحکام تباہ کن ثابت ہوگا لیکن سب کو ایک خدشہ ہے کہ آخری داؤ کے طور پر کپتان کوئی بڑی گیم نہ کھیل جائیں جس کے نتیجے میں 1999ء والی صورتحال پیدانہ ہوجائے کیونکہ کپتان خاصے ضدی واقع ہوئے ہیں۔وہ اتنی آسانی کے ساتھ ہارماننے والے نہیں ہیں انہیں پتہ ہے کہ اگر وہ بازی ہارگئے تو وہ اپنے ان وزراء کے ساتھ جیلوں کے اندر ہونگے جنہیں انہوں نے ایوارڈ سے نوازا ہے کیونکہ موجودہ وزراء نے وہ گل کھلائے ہیں کہ شہبازشریف کے کارنامے بھی ان کے سامنے ماند پڑ گئے ہیں سوشل میڈیا کے مطابق گزشتہ ساڑھے تین سال میں کرپشن کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے بھی اسکی تصدیق کی ہے اس کی رپورٹ آنے کے بعد کپتان نے کمال ہوشیاری سے بات ادھر ادھر کردی اگروہ نوازشریف کی طرح پانامہ اسکینڈل کادفاع کرتے تو انہی کی طرح پھنس جاتے بہرحال پھنسنا تو ہے آج پھنسے کہ کل پھنسے ان کی بیساکھیاں ہل رہی ہیں نظرالتفات ہٹ رہی ہے کیونکہ اقتدار کی جنگ شروع ہوچکی ہے یہ بڑی ظالم جنگ ہوتی ہے جس میں کوئی کسی کانہیں ہوتا۔