سیاسی بحران کا شکار لاوارث سوراب

تحریر: انجینئر حبیب زہری
کئی دہائیوں سے سوراب کو یتیم خانہ سمجھ کر مختلف لوگ سوراب سے الیکشن لڑتے رہیں کئی لوگ کامیابی حاصل کرتے رہیں اور کئی لوگ ناکام ہوتے رہیں لیکن نہ کامیاب لوگوں نے سوراب پر رحم کی نہ ہی ناکام لوگوں نے۔

آج تک سوراب میں کوئی حقیقی سیاسی عمل جنم نہ لے سکا اور نہ ہی سوراب کے عام عوام کو سیاست سیکھنے کا موقع دیا گیا، کبھی عوام کو قبائلی زد میں لاکر ووٹ ڈالنے پر مجبور کردیا گیا، تو کبھی ووٹ کی قیمت لگائی گئی یا تو کبھی جھوٹی لیڈرشپ کا نعرہ لگا کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔سوراب میں شروع سے آج تک کوئی بھی پارٹی مستقل طور پر ثابت قدم نہیں رہ سکا بلکہ مقصد اور اقتدار پانے کے بعد سوراب کو یتیم خانہ سمجھ کر اکیلے چھوڑ دیا گیا۔طاقت کی زور پر یا پیسے کے زریعےسوراب کے عوام سے ووٹ لینا اور عوام کو یتیم بنانا ایک منصوبہ ہے، اور عام عوام سے سیاسی شعور نکال کر ووٹ کی قیمت لگانا سوراب کے ساتھ ظلم ہے۔

سوراب سے کامیاب لوگوں کی قسمت بدل سکتا ہے لیکن عوام کی نہیں، عوام کو کبھی روڈ بنا کر خوش رکھا گیا تو کبھی ایک ٹرانسفارمر دیکر۔ اب تو سورابی سیاست کا المیہ یہ ہیکہ عوام کو تسلیاں دیکر پارٹی بنیاد پر عام عوام کے درمیان ایک نفرت کی دیوار کھڑی کردی گئی ہے اور لیڈران خود ایک دوسرے کے ساتھ جلوہ افروز ہیں، مگر انکی سیاست کا یہ حال ہیکہ عام عوام بھائی سے ناراض ہمسایہ ہمسایہ سے۔

کسی لیڈر نے آج تک ایسی کوئی ماحول پیدا نہ کر سکا جس سے عوام کو ریلیف ملتا ہو یا حقیقی معنوں میں سیاست کا موقع ملتا ہو، سیاست کا مطلب قطعا اقتدار نہیں ہوتا بلکہ سیاست حقوق کی خاطر جدوجہد کا نام ہے۔
سوراب کے نوجوان ،تعلیمیافتہ لوگ سیاسی پارٹیوں میں جدو جہد کرکے ایک پارٹی کی فعالیت کے لئے دن رات ایک کرکے ورکر سے عہدہ دار تک پہنچ جاتے ہیں تحصیل سے ضلع اور ضلع سے مرکز تک تو یہ ایک انتہائی طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ممکن ہوتا ہے لیکن پھر لیڈر صاحبان اقتدار کی خاطر پارٹی چھوڑ کر کوئی دوسرا پارٹی جوائن کرتے ہیں نتیجتا بیچارہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے اور سینیئر شخص پھر سے سیاست سیکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس وقت تک اسکا عمر آدھا ہو چکا ہوتا ہے اسی طرح اس سیاست کا اس پر کوئی مثبت نتائج مرتب نہیں ہوپاتے۔

یہ فطرت ایک پارٹی یا ایک شخص کی نہیں بلکہ یہ سلسلہ ہر ہمیشہ جاری رہا ہے ،سوراب کو آج تک کوئی حقیقی غمخوار نہیں ملا جو سوراب میں سیاسی ماحول پیدا کرے یا سوراب کی ترقی و ترویج کے لئے طویل سوچ رکھے، آج تک سوراب سے عام عوام کو اسمبلی تک پہنچنے کی محلت نہیں ملی سوائے حضرت مولانا غلام مصطفی صاحب کے۔ حالانکہ سوراب میں قابل، ذہین، باشعور اور با ہمت لوگ موجود ہیں جو کہ بہتر انداز میں سوراب کی رہنمائی کر سکتے ہیں پر انہیں کبھی موقع نہیں دیا گیا۔

جب لیڈروں سے اقتدار کی تمننا نکلے گا تو ہی ایک عام عوام کو موقع ملے گا۔سوراب کے عوام کو اب اپنے ہی بل بوتے پہ جدوجہد کرنا ہوگا علاقائی فرد کو لیڈر مان کر اسمبلیوں تک پہنچانا ہوگا تب یہ سلسلہ شاید بند ہو وگرنہ یہ کلچر نسل در نسل ہمیں دیمک کی طرح کھاتا رہیگا اور ہم سیا سی یتیم تصور کیئے جائینگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں