اے بسا آرزو

تحریر: انورساجدی
نام نہاد اشرافیہ کی لڑائی دوسرے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اعلان کیا ہے تحریک کی کامیابی کیلئے حکومتی اتحادی جماعتوں سے رابطے جاری ہیں 2002ء سے شریف خاندان اور چوہدری برادران کے درمیان رسمی علیک سلیک بھی نہیں تھی لیکن کرسی کی جنگ بڑی ظالم ہوتی ہے اقتدار کی خاطر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے طویل عرصہ سے چوہدری برادران نے شریف خاندان کو اقتدار سے دور رکھا ہوا تھا جنرل پرویز مشرف کے کہنے پر چوہدری شجاعت حسین نے ق لیگ کے نام سے کنگز پارٹی بنائی تھی اور جھرلو الیکشن کے ذریعے مشرف نے اس جماعت کو کامیابی دلوائی تھی اس سے قبل ن لیگ کو کنگز پارٹی کی حیثیت حاصل تھی اور چوہدری برادران اس کا لازمی حصہ تھے تاہم ناچاقی کے بعد جب جنرل مشرف نے شریف خاندان کو سیاست اقتدار اور ملک سے بے دخل کردیا تو چوہدری برادران نے آگے بڑھ کر سیاسی خلا کو مصنوعی طریقے سے پر کردیا ظفراللہ جمالی کی معزولی کے بعد چوہدری شجاعت حسین تین ماہ کیلئے وزیراعظم بھی بنے تھے جبکہ پانچ سال تک پرویز الٰہی نے پنجاب کی حاکمیت کا لطف اٹھایا وہ ایک کامیاب وزیراعلیٰ تھے لاہور شہر کی تزئین وآرائش اور اس کا رخ زیبا بدلنے کیلئے انہوں نے بڑی کاوشیں کیں۔
لیکن2007ء میں واپس آنے کے بعد میاں نوازشریف نے اعلان کردیا کہ چوہدری برادران اور شیخ رشید کو پارٹی میں واپس نہیں لیاجائیگا یہ دراصل پاکستانی سیاست کے رموز کے مطابق غیر سیاسی فیصلہ تھا کیونکہ چوہدری برادران اور شیخ رشید نے مل کر2014ء میں عمران خان کے ساتھ مل کر حکومت کو چھٹی کادودھ یاددلایا اور 2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کا معاون بنے پانامہ اسکینڈل نوازشریف کو سزا ان کی نااہلی اور ایک بار پھر جلاوطنی میں ان حضرات کا بڑا کردار رہا عمران خان نے ق لیگ کو بادل ناخواستہ اقتدار میں شریک کرلیا لیکن کبھی اس پر اعتماد نہ کیا جس کی وجہ سے شکایات پیدا ہوگئیں جنہیں کپتان نے کبھی دور کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ پرویز الٰہی پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو ہیں اسی طرح کی بات 2008ء میں آصف علی زرداری نے نوڈیرو ہاؤس میں کی تھی انہوں نے کہا کہ قاتل لیگ کے سوا سب سے اتحاد ممکن ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد زرداری نے چوہدری پرویز الٰہی کو نائب وزیراعظم بنادیا اور ان کی ہربات مانی بلکہ آج تک پرویز الٰہی اس بات کے معترف ہیں کہ اتحادی ہو تو زرداری جیسا وعدے نبھانا بس ان پر ختم ہے۔
بہر حال عدم اعتماد کی تحریک کے اعلان کے بعد اپوزیشن کو چوہدری برادران کی شدید ضرورت پیش آگئی ہے اور یہ بھی اتنے گھاگ سیاسی رہنما ہیں کہ حکومت کو دباؤ میں لانے کیلئے سب سے رابطہ رکھتے ہیں حتیٰ کہ انہوں نے نہایت خوش دلی کے ساتھ اپنے گھر آمدپر شہبازشریف کا خیرمقدم کیا اور ان سے طویل ملاقات کی انہوں نے تحریک کی حمایت پر نا ہاں کیا اور نامنع کردیا بلکہ مشاورت کے بعد فیصلے کا عندیہ دیا حالانکہ سینیٹر کامل علی آغا اس سے پہلے کہہ چکے تھے کہ ہم لوگوں کامعاہدہ ریاست کے ساتھ ہے تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہے انہوں نے کہاکہ اس وقت مطلع ابرآلود ہے مطلع صاف ہوجانے کے بعد وہ کوئی فیصلہ کریں گے سیدھی بات ہے کہ وہ اوپر سے ہدایات کے منتظر ہیں جو بھی حکم آئے ق لیگ اس کی تعمیل کرے گی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ تین جماعتیں بلوچستان کی باپ پارٹی کراچی کی ایم کیو ایم اور ق لیگ مقتدرہ کی اپنی جماعتیں ہیں ان کی تشکیل الیکشن میں کامیابی اور شراکت اقتدار اسی کی مرہون منت ہے اپنی بنائی ہوئی کنگز پارٹی تحریک انصاف کو کب گرانا ہے یہ فیصلہ اوپر سے آئیگا اور اگر فیصلہ خلاف آیا تو حکومت کو گرانا ایک منٹ کا کام ہے اگردیکھاجائے تو اس وقت کی تمام بڑی جماعتیں اسٹیٹس کو جاری رکھنے کی حامی ہیں ان کی لڑائی اپنی باری پر ہے شروع میں اپوزیشن کا خیال تھا کہ عمران خان کی حکومت دو ڈھائی سال بعد گرجائے گی لیکن طوالت زیادہ ہوگئی تو تشویش بھی بڑھ گئی اس لئے اچانک سے پی ڈی ایم کے اختلافات ختم ہوگئے اور اسمبلیوں سے استعفے کی بجائے زرداری کی اس تجویز پر عمل کرنے کا فیصلہ ہوا کہ آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک کو آزمایاجائے یہ تو معلوم نہیں کہ مولانا نے یہ قدم اٹھانے سے پہلے ان کی اجازت لی تھی یاقسمت آزمائی کی خاطر عدم اعتماد کاشوشہ چھوڑاگیا۔
بظاہر خطے کی صورتحال انتہائی گھمبیر ہے یوکرین کے مسئلہ پر روس لڑائی کیلئے تیار ہے جبکہ امریکہ شش وپنج کاشکار ہے۔علاقائی سطح پر چین روس کے ساتھ اتحاد کرکا ہے اور ایشیاء کے سب سے مسلح ملک اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس شمالی کوریا کے لیڈر اور پوٹن کے درمیان رابطے ہوئے ہیں جس کے بعد شمالی کوریا نے اپنے ایٹمی بلیسٹک میزائلوں کا رخ امریکہ اور جاپان کی طرف کردیا ہے ادھر چین اور بھارت بھی حالت جنگ میں ہیں جبکہ پاکستان کے پڑوس میں افغانستان بہت بڑے انسانی بحران کا شکار ہے لاکھوں لوگ فاقوں کا شکار ہیں امریکہ نے افغانستان کے سات ارب ڈالر ضبط کرلئے ہیں وہ افغانستان سے اپنی شکست کا بدلہ لے رہا ہے لیکن جب افغانستان کے لاکھوں لوگ بھوک اور بیماریوں سے مریں گے تو امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ اس علاقہ سے دوبارہ نائن الیون طرز کے حملوں کی منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے امریکہ حوثیوں کے حملوں کو روکنے کیلئے متحدہ عرب امارات آکر بیٹھ گیا ہے اور اربوں ڈالر مالیت کے اسلحہ کا معاہدہ کررہا ہے۔اس صورتحال سے یقینا ایران بہت پریشان اور فکر مند ہے جبکہ پورے خطے میں ایران تنہا ہے اور کوئی پڑوسی اس کا دوست نہیں ہے عرب امارات کی مدد کیلئے اسرائیل ماہرین یا تو آچکے ہیں یا آنے والے ہیں یعنی کوئی سابھی واقعہ خلیج میں جنگ کا باعث بن سکتا ہے اس صورتحال میں پاکستان اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ یہاں پر سیاسی عدم استحکام آئے بس یہی ایک نکتہ عمران خان کی سپورٹ میں جاتا ہے ورنہ اس کی حکومت ملک چلانے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے اس کے تمام تر دعوے ہوا میں تحلیل ہوگئے ہیں معاشی خوشحالی تو اپنی جگہ بدحالی میں اضافہ ہوگیا ہے امن وامان کی صورتحال بہت خراب ہے مہنگائی قابو میں نہیں ہے بجلی کے بعد تیل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کاامکان ہے جس کی وجہ سے غریب طبقہ زندہ درگور ہوگیا ہے وزیراعظم اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور عام آدمی کی حمایت حاصل کرنے کیلئے تواتر کے ساتھ ریاست مدینہ کا نعرہ لگارہے ہیں۔جس سے عام لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ یہ صرف مسلمانوں کا ملک ہے یہاں پر اقلیتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ریاست کی طے شدہ پالیسی کے مطابق انتہا پسندی کوتقویت مل رہی ہے کچھ عرصہ قبل ایک سری لنکا کے منیجر کو توہین مذہب پر فیکٹری کے مزدروں نے موت کے گھاٹ اتاردیا تھا اور دوروزقبل مولانا طارق جمیل کے قصبہ تلمبہ کے قریب لوگوں کے ایک ہجوم نے ایک مخبوط الحواس شخص کو پتھر مارکر ہلاک کردیا اس سے ساری دنیا میں پاکستان کا امیج تباہ ہورہا ہے ادھر جماعت اسلامی نے ان لوگوں کو ہیرو قرار دے کر ان کے استقبال کااعلان کیا ہے جنہوں نے طالب علم مشال خان کو پتھر مار کر ہلاک کیا تھا خدشہ ہے کہ حکومتی رٹ کمزور ہونے کی وجہ سے اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوگا جیسے کہ ہندوستان میں مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے مذہبی اقلیتوں کیلئے رہنا مشکل ہوگیا ہے کرناٹک ریاست میں نقاب کے مخالف گروہ کی کارستانی کے جواب میں یونیورسٹی کی طالبہ مسکان نے اللہ اکبر کا جو نعرہ لگایا اس سے مسلمانوں میں یہ سوچ درآئی ہے کہ یا تو بے بسی کی موت مرا جائے یا مقابلہ کرکے موت کا انتخاب کیا جائے اگر یہ روایت شروع ہوئی تو ہندوستان شدید خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا اس کی محرالعقول ترقی خاک میں مل جائے گی پاکستان میں کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ آکسفورڈ کے تھرڈ کلاس ڈگری ہولڈر وزیراعظم نریندر مودی کی روش پر چل نکلیں گے اگر یہہی کام کرنا تھا تو تحریک لبیک یہ کام تحریک سے زیادہ خوشی کے ساتھ کرسکتی ہے کیونکہ ٹی ایل پی واقعی میں ایک مذہبی جماعت ہے جبکہ تحریک انصاف ن لیگ کی طرح بابوؤں اور نودولتیوں کی جماعت ہے جس کے لوگ مذہب کوسیاسی مقصد کیلئے استعمال کے منافقت سے کام لیتے ہیں۔
اگراسلام کا نعرہ لگانا ہے تو جمعیت کا کیا تصرف ہے۔تحریک انصاف تو اناڑی اور کلین شیو ملاؤں پر مشتمل ہے۔
بہر حال تحریک عدم اعتماد فی الحال تو ایک شوشہ لگتا ہے یہ بھی معلوم نہیں کہ سرپرستوں کے ارادے کیا ہیں اگر مارچ اپریل میں یہ تحریک ناکام ہوئی تو اپوزیشن ایک بڑا جوا ہارجائے گی اور اسے اقتدار میں آنے کیلئے2023ء کے عام انتخابات کاانتظار کرنا پڑے گا یہ الگ بات کہ اس دوران اگر عمران خان نے بم کو ”لات ماردیا“ جس کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے بس اسی دن ان کے اقتدار کا تمت باالخیر ہوگا۔
یہ جو شعبدہ بازی چل رہی ہے اس کا مقصد عوام کو تفریح کا موقع فراہم کرنا ہے کیونکہ اپوزیشن بھی اس نظام کا اسٹیک ہولڈر جمعیت کو تازہ تازہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی ملی ہے۔پشتونخوا کے 60فیصد کونسلوں کے چیئرمین اور میئراسی کے ہونگے یعنی وہ بھی اس نظام کا اسٹیک ہولڈر بن گئی ہے۔
الغرض کے سارے اسٹیک ہولڈر دن کو ہاؤ ہو کرتے ہیں اور رات کی تاریکی میں قدم بوسی کیلئے حاضری دیتے ہیں یعنی جو بھی آئے صرف چہرے تبدیل ہونگے کوئی تبدیل نہیں آئے گی صرف کپتان صدارتی نظام لانے کیلئے تبدیلی چاہتے ہیں۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ